اس وقت صبح کے آٹھ بجے ہیں اور طالبات وسیم علی کی اوطاق میں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ اوطاق ضلع سانگھڑ کے علاقے جھول سے سات کلومیٹر مشرق میں واقعے گاؤں قائم خان جلالانی میں واقع ہے اور گاؤں کی ان لڑکیوں کا اسکول ہے، جس میں استاد کے فرائض وسیم علی سرانجام دیتے ہیں
وہاں موجود پڑھنے کے لیے پر جوش لڑکیوں نے اوطاق میں پڑھنے کی اجازت ملنے کے حوالے سے اپنی اپنی کہانی بیان کی
بارہ سالہ مہناز نے بتایا ”گھر کے مرد ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گاؤں سے باہر نہیں جانے دیتے۔ اس وجہ سے ہم خوش قسمت ہیں کہ سر [وسیم علی] کی کوششوں سے ہمیں پرائمری کے بعد کی تعلیم مل رہی ہے، انہوں نے ہی اس کے لیے ہمارے گھر والوں کو قائل کیا ہے۔ ہمیں صرف اس شرط پر گورنمنٹ ہائی اسکول جَھول میں داخلہ لینے کی اجازت دی گئی کہ ہم یہاں سر سے پڑھیں گے اور صرف امتحان دینے اسکول جائیں گے“
شمائلہ نویں جماعت کی طالبہ ہے، اس نے جب اپنے والد سے کہا کہ وہ اسے اسکول میں داخل کروائیں تو اس کے والد نے اسے دو دن کے لیے کمرے میں بند کردیا۔ شمائلہ نے بتایا ”وہ غصے میں آگئے اور مجھے کہا کہ ہمارے گاؤں میں ایسا نہیں ہوتا“
وسیم علی کی عمر پچیس سال ہے، وہ زمیندار ہیں اور ان کے پاس پچیس ایکڑ زمین ہے۔ وہ قائم خان جلالانی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس گاؤں میں جلالانی اور خاصخیلی قبیلے کے تقریباً ایک سو بیس گھرانے ہیں
وسیم علی نے یونیورسٹی آف سندھ سے گریجوئیشن کی ہے جہاں ان کے ساتھ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ اپنی تعلیم کے دوران وہ اپنے گاؤں کی لڑکیوں کے حوالے سے بہت مایوس ہوتے تھے، جنہیں تعلیم کے حق سے محروم رکھا گیا تھا
وسیم علی نے بتایا ”ایک دن میں نے اپنی کزن سے اس بارے میں بات کی اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا [مستقبل میں] میری بیٹی کی تقدیر بھی گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح ہوگی۔ اس کے سوال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا“
وسیم کو معلوم تھا کہ گاؤں کے پدرشاہی معاشرے میں والدین کو لڑکیوں کی تعلیم پر قائل کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن پهر بھی انہوں نے اپنے گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا
وہ بتاتے ہیں ”ابتدائی طور پر گاؤں کے بزرگوں نے میری باتوں کو رد کردیا لیکن جب میں نے بار بار اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ میں گاؤں کی لڑکیوں کو اپنی اوطاق میں پڑھاؤں گا اور وہ صرف امتحان دینے کے لیے اسکول، جو کہ جَھول میں ہے، جائیں گی تو وہ اس بات پر آمادہ ہوگئے“
گاؤں قائم خان جلالانی میں ایک پرائمری اسکول موجود ہے جہاں اس گاؤں اور اطراف کے دیہاتوں کے لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس اسکول کے ٹیچر نور احمد جلالانی کا کہنا تھا ”میں نے اس اسکول کے دو کمروں میں ایک ایسا ماحول ترتیب دینے کی کوشش کی جہاں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں، لیکن گاؤں کے بزرگوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس وجہ سے لڑکے لڑکیاں اب علیحدہ کمروں میں پڑھتے ہیں۔ کوئی بھی لڑکیوں کو تعلیم کے لیے گاؤں سے باہر نہیں بھیجنا چاہتا کیونکہ ان کے لیے یہ اپنی عزت اور وقار کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ تاہم وسیم کی کوششوں سے بہت تبدیلی آئی ہے“
وسیم کو کسی طرح اس بات کو ممکن بنانا تھا کہ گاؤں کے بچے خصوصاً لڑکیاں گاؤں سے باہر جائے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں تاکہ گاؤں کے بزرگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ لیکن پھر بھی انہیں امتحانات تو دینے ہی تھے تاکہ اس تعلیم کی سند مل سکے۔ اس کام کے لیے وسیم کو گاؤں کے بزرگوں، طلبہ اور اسکول انتظامیہ کا اس نکتے پر اتفاق کروانا تھا
وسیم علی نے 2015ع میں اپنے بھائی، ماموں اور چچا کے ساتھ مل کر گھر گھر مہم چلائی تاکہ ان مردوں کو قائل کیا جاسکے جو اپنی بیٹیوں کو گاؤں سے باہر نہیں بھیجنا چاہتے۔ بعد ازاں وسیم نے گاؤں کی مسجد میں سب کے سامنے حلف لیا کہ وہ ان لڑکیوں کا اپنی بہنوں کی طرح خیال رکھیں گے۔ اس کے بعد گاؤں والوں نے لڑکیوں کو اسکول میں داخل کروانا شروع کیا۔ وسیم علی انہیں پڑھاتے جبکہ وہ امتحان دینے جھول سیکنڈری اسکول جاتیں
اب وسیم کو اسکول انتظامیہ سے اس بات کی اجازت چاہیے تھی کہ وہ لڑکیوں کو روزانہ اسکول آنے سے استثنیٰ دے دیں۔ ابتدائی طور پر تو ہیڈ مسٹریس نے اس سے انکار کردیا۔ وسیم بتاتے ہیں ”میں نے اسکول کی ایک استانی کے ذریعے انہیں قائل کیا اور بتایا کہ گاؤں کے بزرگوں کو راضی کرنا کتنا مشکل کام تھا“
اب ہر صبح آٹھ بجے سے لے کر دوپہر تک وسیم کا اوطاق ان لڑکیوں کی کلاسوں کے لیے وقف ہوتا ہے اور اس دوران مہمانوں کا داخلہ بند ہوتا ہے۔ جن لڑکیوں نے 2015ع میں داخلہ لیا تھا اور اوطاق میں تعلیم حاصل کی تھی ان میں سے کچھ حال ہی میں بہترین نمبروں کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کر چکی ہیں
سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن’ کے ساتھ وابستہ سانگھڑ کے نجف رند کہتے ہیں ”وسیم کا تعلق ایک مضبوط پدرشاہی نظام سے ہے۔ ان علاقوں میں خواتین کو طبی ضروریات کے تحت بھی گاؤں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن اب لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے جھول تک جاتی ہیں“
اپنی اوطاق میں لڑکیوں کو مفت تعلیم دینے کے بعد وسیم جھول شہر کی خستہ حال میر اللہ بخش پبلک لائبریری بھی جاتے ہیں، جہاں وہ تقریباً پچاس ایسے طلبہ کو پڑھاتے ہیں جو تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے
وسیم کے ان شاگردوں میں سے ایک سترہ سالہ گلاب جلالانی بھی ہیں۔ گلاب کا گاؤں امب خان جلالانی جھول شہر سے پانچ کلومیٹر دور ہے اور وہ روز رکشے کے ذریعے وسیم سے پڑھنے لائبریری آتا ہے
وہ کہتے ہیں ”ہم گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول، جھول میں گیارہویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ہمارے استاد کا سانگھڑ تبادلہ ہوگیا اور اس کے بعد سے اسکول میں نئے استاد کی تقرری نہیں ہوئی۔ ہم اسکول صرف امتحان دینے جاتے ہیں“
گلاب نے بتایا ”میرے گاؤں کے پانچ لڑکے، جوکہ میرے ہم جماعت بھی ہیں، یہاں میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم بہت غریب ہیں اور کسی نجی اسکول یا کوچنگ سینٹر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے“
لائبریری آنے والے وسیم کے شاگردوں میں گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول، جھول، کا گنیش کمار بھی تھا، جس نے حال ہی میں انٹر کے امتحانات میں اے گریڈ حاصل کیا ہے۔ اس نے بتایا ”میں اب میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کررہا ہوں“
سندھ ادبی سنگت، جھول کے سیکریٹری غلام حیدر کے مطابق وسیم ان روایتی سندھی زمینداروں کی طرح نہیں ہے، جن کے اپنے بچے تو نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں لیکن انہیں کبھی غریب بچوں کی تعلیم کا خیال نہیں آتا
غلام حیدر کے مطابق وسیم دوپہر تین بجے سے رات آٹھ بجے تک لائبریری میں ہوتے ہیں۔ اس دوران طلبہ آتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات وسیم انہیں کتابیں اور اسٹیشنری بھی خرید کر دیتے ہے
وسیم انگریزی زبان کے تحقیقی مقالوں اور ڈاکومنٹریوں کا سندھی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تاکہ طلبہ انہیں سمجھ سکیں۔ یہ سہولت تو سانگھڑ کے مہنگے اسکولوں میں بھی دستیاب نہیں ہے
گزشتہ تین سالوں سے اس تعلیمی منصوبے میں مصروفیت کے باعث وسیم نے اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک منیجر رکھ لیا ہے۔ وسیم کو ابھی تک شادی کرنے اور اپنی والدہ کی خواہشیں پوری کرنے کا وقت بھی نہیں ملا
وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا ”جب آپ اتنے سارے غریب طلبہ کے مستقبل بنانے کی کوشش کررہے ہوں تو زندگی میں اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے“
(اس رپورٹ کی تفصیلات محمد عباس خاصخیلی کے ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہونے والے فیچر سے لی گئی ہیں)