وزیراعظم شہباز شریف منگل کو تین روزہ سرکاری دورے پر ترکی روانہ ہوئے، جس کے حوالے سے پاکستان کے چھوٹے بڑے اخبارات میں بڑے بڑے حکومتی اشتہارات چھپوائے گئے
منگل کو صبح اخبارات میں صفحہ اول پر چھپنے والے اشتہارات میں آدھے صفحے پر وزیراعظم شہباز شریف کی تصویر نمایاں ہے، جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی تصویر بھی دی گئی ہے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت کو وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ ترکی کے بارے میں اخبارات میں اشتہارات دینے پر سوشل میڈیا صارفین کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا
ایسے میں کہ جب ملک سنگین معاشی مشکلات کا سامنا کررہا ہے، ایندھن، خوراک، بجلی اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے، حکومت کی جانب سے ایسے اشتہارات کی اشاعت نے عوام میں اضطراب اور غصے کی کیفیت پیدا کردی ہے
خاص کر جب کہ ایک روز قبل ہی وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم میں دیے گئے اس بیان کا خوب چرچا رہا کہ ‘حکومت کے پاس تو زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں’
واضح رہے پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر مملکے برائے توانائی مصدق ملک نے گیس کمپنیوں کے کم ہوتے اثاثوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت کے پاس تو زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘
جبکہ اس سے قبل آٹے کی قیمت عوام کی دسترس سے باہر ہونے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ‘اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو آٹا مہیا کروں گا’
چنانچہ آج مختلف اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت پر عوام نے انہی بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو طنز کا نشانہ بنایا
معروف صحافی ابصا کومل نے مختلف اردو اخبارات میں شائع ہوئے اشتہارات کی کولاج تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘زہر کھانے کے پیسے نہیں، اشتہار نکالنے کے ہیں؟’
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ کی کہ ‘حکومت کا پیسہ تماش بین عیاشیوں پر لٹا رہے ہیں، حکومت ترقیاتی بجٹ روک کر میڈیا کو اشتہار دے رہی ہے اس سے احمقانہ پالیسی کیا ہو گی؟’
سابق سفارتکار ظفر ہلالی نے لکھا کہ ‘اگر اس اشتہار بازی پر آپ کے دل کو درد نہ پہنچا ہو تو اپنی حب الوطنی پر ڈر جاؤ، آپ کے پاکستانی ہونے پر مجھے اعتراض ہے’
ایک سوشل میڈیا صارف نے مصدق ملک کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ‘اشتہار کا سائز تھوڑا کم کر لیتے تو زہر کے پیسے نکل آتے’
سینئر صحافی مبشر زیدی نے طنزیہ انداز میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹکٹ کی فوٹو نہیں ہے اشتہار میں، مزا نہیں آیا‘
صحافی و ادیب حسنین جمال نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پہ کام کریں، کم خرچ بالا نشیں سین بنے گا’
پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے کہا کہ ‘ساری دنیا ایسی بھونڈی حرکت کا مذاق اڑا رہی ہے، لگتا ہے کسی ایئرلائن کا اشتہار ہے لیکن آپ نے ابھی بھی یہی کہنا ہے کہ کیا (میڈیا) مینجمنٹ ہے کیونکہ مال مل رہا ہے’
صحافی فرحان محمد خان نے ٹوئٹ کیا کہ ‘اشتہارات پر کروڑوں خرچ کردیے، فیصلے سیاسی، معاشی یا انتظامی ہوں،پستے عوام ہی ہیں، یہ حکمراں اپنے خرچوں، اپنے ششکوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ‘کل جو واویلا کر رہے تھے کہ زہر کھانے کو پیسہ نہیں ہے انہوں نے 24 گھنٹوں بعد کروڑوں کے اشتہار بانٹ دیے’
ایک صارف نے لکھا کہ ”پچھلے 15 دن میں 175 کروڑ روپے کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات دئیے گئے ہیں صرف یہ بتانے کے لئے کہ خزانہ خالی ہے“
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی نئی حکومت نے آتے ہی ملک بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ملک کی معاشی ابتری کے متعلق دھڑا دھڑ اشتہار چلائے تھے
مسلم لیگ (ن) کی یہ اشتہاراتی پالیسی کوئی نئی نہیں ہے، اس لیے اسے پہلی مرتبہ مرتبہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کی حریف جماعت پاکستان تحریک انصآف (پی ٹی آئی) طویل عرصے سے (ن) لیگ پر میڈیا اداروں کو اشتہار دے کر ان پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگاتی آئی ہے
اس حوالے سے ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اشتہارات کی اشاعت کے سلسلے میں حکومتی مؤقف لینے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں سوال ارسال کردیا تھا تاہم اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ عوام کے لیے تین پارٹیوںPPP, PMLN, JUIF نے مہنگائی مارچ کیا تھا اپنی ہر تقریر میں یہ نام نہاد رہنما عوام کے لیے آنسو بہتے تھے – لیکن اب اقتدار میں انے کے بعد ان کو مہنگائی نظر نہیں آرہی – کاش یہاں سب ایمان دار ہو جائیں – یا پھر ان سب سیاستدانوں کی جائیدادوں کو بینچ کر پاکستان کا قرضہ اتاروں
صارفین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، تب اشتہارات پر خطیر رقم خرچ کرنا پیسے ضائع کرنے کے مترادف ہے
آصف نامی ٹوئٹر صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’شہباز شریف صاحب کو ترکی جانا ہے تو جائیں، یہ اشتہارات کی مد میں قوم کا کروڑوں روپیہ ضائع کرنے کا کیا مطلب ہے۔‘
سابق پاکستانی سفارت کار عبدالباسط بھی اتحادی حکومت پر ناراض نظر آئے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’لگتا ہے ہم کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ کیا یہ بے تکے اشتہارات اخبارات مفت میں چھاپ رہے ہیں؟‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’خارجہ پالیسی مذاق بن کے رہ گئی ہے۔‘
انگریزی اخبار دی نیوز سے منسلک صحافی عمر چیمہ نے اخبارات میں اشتہارات کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’اتنا دورہ ترکی پر خرچ نہیں ہوگا جتنا اشتہار دینے پر خرچ کیا‘