آسٹریلوی مغربی ساحلوں پر گھاس نے خود کو تیزی سے کلون کرنا شروع کیا ہے اور اب سمندری گھاس ایک سو اَسی کلومیٹر تک پھیل گئی ہے۔ اس طرح یکساں جینیاتی خواص اور رنگت والی دنیا کی سب سے بڑی کلون شدہ گھاس میں تبدیل ہوچکی ہے
قدرت کے کارخانے میں بہت سے پودے خود کو کلون کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اب سمندری گھاس کا یہ ٹکڑا زمین پر سب سے بڑا کلون بھی قرار پایا ہے
اس طرح سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ آسٹریلیا کے ساحل سے کچھ ہی دور پانی کے نیچے واقع ایک بہت بڑا باغیچہ درحقیقت ایک ہی پودا ہے، جو سینکڑوں کلومیٹر پر محیط ہے
سائنسدان جینیاتی ٹیسٹنگ کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مختلف پودوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ہی پودا ہے
ٹیم نے یہ دریافت حادثاتی طور پر کی۔ درحقیقت وہ پرتھ کے شمال میں آٹھ سو کلومیٹر دور ’شارک بے‘ میں واقع اس پودے کی جینیاتی ٹیسٹنگ کرنا چاہتے تھے
محققین نے اس کھاڑی سے متعدد ٹہنیاں اکٹھی کیں اور اٹھارہ ہزار جینیاتی نشانات کا تجزیہ کر کے ہر نمونے کا ایک ’فنگر پرنٹ‘ تیار کیا
وہ یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ اس باغیچے میں کتنے پودے ہیں
اس مطالعے کی سرکردہ مصنف جین ایجلو نے کہا: ’جواب نے ہمیں حیران کر دیا، یہاں صرف ایک ہی پودا تھا‘
’شارک بے میں صرف ایک ہی پودا 180 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، چنانچہ یہ زمین پر موجود سب سے بڑا پودا بن گیا ہے‘
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی سائنسداں ایلزبتھ سن کلیئر کہتی ہیں کہ یہ سمندری گھاس پوزائیڈن رِبن ویڈ کہلاتی ہے جس کا حیاتیاتی نام Posidonia australis ہے۔ انہوں 180 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے سمندری گھاس کے دس نمونے لیے اور ان میں سے نو نمونے جینیاتی اور ظاہری طور پر بالکل یکساں تھے
خیال ہے کہ گھاس ایک کنارے سے کلون ہونا شروع ہوئی اور دوسری جگہ جا پہنچی اور یوں دنیا کا سب سے بڑا زندہ جسم کلوننگ سے وجود پذیر ہوا
اس پودے کو دریافت کرنے والے ماہرین نے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ کتنا پرانا ہے۔ تاہم اس پودے کے سائز اور نشوونما کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک اندازہ ہے کہ یہ پودا کم ازکم ساڑھے چار ہزار سال پرانا ہو سکتا ہے اور انسانی مداخلت سے محفوظ ہونے کی بنا پر اس کی نشوونما بہت تیزی سے ہوئی ہے
یہ پودا کسی باغیچے کی طرح سال میں 35 سینٹی میٹر تک بڑھتا ہے اور سائنسدانوں نے اسی بنا پر یہ اندازہ لگایا ہے کہ اسے اپنے موجود حجم تک پہنچنے میں ساڑھے چار ہزار برس لگے ہیں
ڈاکٹر ایلزبتھ کا کہنا ہے کہ کلون ہونے والے پودے عموماً بہت سخت جان نہیں ہوتے اور وہ بدلتے حالات کے تحت خود کو تبدیل نہیں کرسکتے جبکہ جنسی طور پر دیگر انواع سے ملاپ کرکے اپنی نسل پڑھانے والے پودے ارتقائی طور پر بہت بہتر ہوتے ہیں
ماہرین نے بتایا ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ‘شارک بے‘ کے علاقے میں دریافت کیے گئے اس پودے میں کتنے مزید پلانٹس اُگے ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی بڑے پودے ہوں لیکن انسانی علم کے مطابق فی الحال دنیا کا سب سے بڑا پودا یہی ہے
بہرحال اس پودے کے مختلف حصوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ ایک ہی پودا ہے، جو پھیل رہا ہے۔ ماہر نباتات کے مطابق سمندر میں موجود ایسے پودے یا تو تولیدی عمل سے پھلتے ہیں یا ان کی جڑی اتنی مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ اپنا سائز حیرت انگیز حد تک بڑا کر لیتے ہیں
سمندری حیات میں سی گراس کا انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پودے ساحلی علاقوں کو سمندری طوفانوں میں محفوظ بنانے کا کام کرتے ہیں جبکہ کاربن کی ایک بڑی مقدار جذب کر لیتے ہیں
یہ پودے حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کو محفوظ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ نباتات ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے مطابقت پیدا کرنے اور موسموں کو شدید ہونے سے بھی روکتے ہیں
یہ پودا حیران کُن حد تک سخت جان بھی ہے اور پوری کھاڑی میں کئی مقامات پر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف حالات میں بھی پھل پھول رہا ہے
سائنسدانوں کے مطابق ایسی نباتات کے مطالعہ سے ماحول اور ایکو سسٹم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جبکہ عالمی درجہ حررات میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلوں کو بارے میں کئی راز افشا ہو سکتے ہیں
یہ مطالعہ تحقیقی جریدے پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی میں شائع ہوئی ہے۔