پی پی پی، ایم کیو ایم کا اتحاد اور کراچی کے بلدیاتی انتخابات

ویب ڈیسک

موجودہ حکومت کے دو بڑے اتحادی پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت سندھ بھر میں نئے بلدیاتی قانون کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے والی ہیں

پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ماضی میں بھی اکٹھے اقتدار میں رہ چکے ہیں، لیکن جہاں تک کراچی کی بات ہے تو ایم کیو ایم روایتی طور پر بلدیاتی حوالے سے یہاں کسی کو بھی اپنے اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتی

تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں تین مرتبہ میئر کا عہدہ رکھنے والی ایم کیوایم کراچی کے شہریوں کی وہ خدمت نہیں کر سکی، جو ان کی حریف جماعت اسلامی نے دو مرتبہ شہر کی میئر شپ کے دوران کی تھی۔ اس بار تو ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ تحریک انصاف سے بھی مقابلہ کرنا ہے

اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار ہما بقائی کہتی ہیں ”مرکز ہو یا صوبہ، پی ٹی آئی ایک حقیقت بن چکی ہے اور کراچی میں بھی اس کی حمایت اچھی خاصی ہے خصوصاً نوجوان روایتی سیاسی جماعتوں کی بجائے تحریک انصاف کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں“

ہما بقائی کا کہنا ہے ”ایم کیوایم نے پیپلز پارٹی سے جو شراکت اقتدار کی ہے، لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملکی سیاست کی طرح کراچی میں بھی سیاست اور اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتا ہے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس بار فیصلہ کارکردگی پر ہوگا کیونکہ یہ 1990ع نہیں بلکہ 2022ع ہے‘‘

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل پیپلز پارٹی کراچی کی میئر شپ حاصل کرنے کے لیے انتظامی طور پر پورا ہوم ورک کر چکی تھی۔ مثال کے طور پر شہر کو مزید تقسیم کرکے اضلاع کی تعداد 5 سے 7 کر دی گئی ہے جبکہ بلدیاتی قانون میں متعارف کرائی گئی ترمیم میں اضلاع کی بجائے شہری علاقوں کے لیے ٹاؤنز اور دیہی علاقوں کے لیے تعلقے بنائے جائیں گے۔ کراچی کو 25 ٹاؤنز میں تقسیم کیا جائے گا اور قوی امکان ہے کہ حد بندی ایسی کی جائے کہ ٹاؤن کا چیئرمین پیپلز پارٹی سے ہو

تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ تمام کوششیں اس لیے کی جا رہی ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کراچی کی مئیر شپ حاصل کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کر سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیاتی قانون پر بات شروع ہونے پر پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت خوش دکھائی نہیں دیتی

عمران حکومت کے خاتمے سے سیاسی جماعتوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں عام انتخابات کی آڑ لے کر پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کو التوا میں نہ ڈال دے

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے ”نئی مردم شماری کے بغیر عام انتخابات کسی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے، بلدیاتی انتخابات شیڈول کے مطابق 24 جولائی کو ہی ہونے چاہییں۔ صوبائی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار نہیں کرنے دیں گے۔ سندھ حکومت فوری جماعت اسلامی سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں‘‘

مبصرین کی رائے میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے زیادہ پاک سرزمین پارٹی کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ایک طرف جماعت اسلامی سالوں سے ‘حق دو کراچی کو‘ کے ذریعے شہری مسائل کو نا صرف بہتر انداز میں اجاگر کر رہی ہے بلکہ دیگر جماعتیں بھی ان کی کوششوں کا اعتراف کرتی ہیں

سینیئر صحافی کے آر ٖفاروقی کہتے ہیں کہ جب بلدیاتی قانون میں ترمیم کے خلاف جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے سرد موسم کے باوجود ایک ماہ تک دھرنا دیا تو مصطفیٰ کمال سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما بھی وہاں اظہار یکجہتی کے لیے گئے اور پھر سندھ حکومت اس دھرنے کے نتیجے میں بلدیاتی قانون میں مزید ترمیم کے لیے راضی ہوئی

یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگاراس بات کا قوی امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی اتحاد کی صورت میں بلدیاتی انتخاب لڑیں یا پھر انتخابات کے بعد ان میں کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو جائے

ایم کیو ایم رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق کا کہنا ہے کہ بلدیاتی قانون میں ترامیم کے لیے ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور ترمیمی قانون جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

تحریک انصاف کی حکومت میں ساڑھے تین سال وفاقی وزیر رہنے والے امین الحق نے کہا ”تحریک انصاف نے کراچی کے حوالے سے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، کراچی کے لیے شہباز حکومت سے صرف حقوق مانگے ہیں، اس بار پیپلز پارٹی کا رویہ انتہائی مثبت ہے، کراچی اور حیدرآباد کے میئر انشااللہ بااختیار ہوں گے‘‘

صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کے شراکت اقتدار کے معاہدوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ پہلا معاہدہ سن 1997ع میں نواز شریف کی حکومت سے کیا گیا لیکن حکیم سعید کے قتل اور سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد یہ معاہدہ صرف ایک سال میں ختم ہوگیا

جنرل پرویز مشرف سے سن 2002ع میں ہونے والا معاہدہ سب سے طویل مدتی تھا اس معاہدے میں شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد کے معاملات کی نگرانی گورنر عشرت العباد دیکھتے تھے جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے معاملات وزیراعلیٰ سندھ کے پاس تھے

سن 2008ع میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے آصف زرداری کے اختلافات کے بعد ایم کیو ایم ایم پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدہ ہوا، جس کی ایم کیو ایم کے اندرونی حلقوں میں مخالفت تھی لیکن الطاف حسین کے سامنے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہیں تھی

سن 2018ع کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم نے تحریک انصاف سے 9 نکاتی معاہدہ کیا

اب ایک مرتبہ پھر سابق صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو سندھ اور کراچی کے حوالے سے ایک معاہدے کے لیے آمادہ کیا ہے

یہ دوسرا اعلانیہ معاہدہ ہے جس سے ابھی تک ایم کیو ایم مطمئن نظر آتی ہے، لیکن یہ اطمینان کب تک چلتا ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے

تاہم فی الحال ان کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے سندھ لوکل باڈیز اور کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وعدے کیے ہیں، وہ ضرور پورے ہونگے

لیکن اس ساری صورتحال میں اگر کسی کو اصل نقصان بھگتنا پڑتا ہے، تو وہ کراچی کے دیہات کا وسیع علاقہ ہے۔ اقتدار میں شراکت کے اس کھیل میں کراچی کے رورل ایریاز کے حصے میں ہمیشہ محرومی کے علاہ کچھ نہیں آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close