امریکی صدر، سعودی عرب کو تنہا کرنے کی خواہش سے سعودی عرب کے دورے تک

ویب ڈیسک

امریکی صدر جو بائیڈن امریکی صدر بننے کے بعد پہلی بار سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کو کئی لحاظ سے اہمیت دی جا رہی ہے

جو بائیڈن کا سعودی عرب کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چند ماہ قبل یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکی انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود سعودی رہنماؤں نے بائیڈن سے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے

بائیڈن خود سعودی عرب کے ’انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ سنہ 2019ع میں جب بائیڈن صدارتی انتخابات کی مہم چلا رہے تھے تو انھوں نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو ’تنہا‘ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا

اب اسی سعودی عرب کا دورہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے

بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ صرف اپنے ہم منصبوں سے بات کریں گے۔ یعنی سعودی عرب میں اُن کے ہم منصب وہاں کے شاہ سلمان ہیں۔ ولی عہد وزیر دفاع ہیں اور صرف امریکہ کے وزیر دفاع ہی ان سے بات کریں گے

جو بائیڈن کے دورے کے حوالے سے منگل کو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارائن جین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر شاہ سلمان کی قیادت اور ان کی دعوت کو سراہتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے اس اہم دورے کے منتظر ہیں۔ سعودی عرب تقریباً آٹھ دہائیوں سے امریکہ کا ایک اہم اسٹریٹیجک پارٹنر رہا ہے‘

بائیڈن کا یہ دورہ اسرائیل اور غربِ اردن سے شروع ہوگا۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچیں گے جہاں بائیڈن خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کانفرنس میں شرکت کریں گے اور مقامی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ اس کانفرنس میں مصر، اردن اور عراق کے علاوہ نو ممالک کے رہنما شرکت کریں گے

حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ وہ امریکی صدر تھے جو عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب گئے تھے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے اس مروجہ روایت کو توڑا تھا، جس کے تحت کوئی بھی امریکی صدر پہلے غیر ملکی دورے پر کینیڈا یا میکسیکو جاتا تھا

امریکی انتخابات میں جو بائیڈن کی جیت کا اعلان ہوا تو سعودی عرب کی جانب سے انھیں رسماً مبارکباد دی گئی۔ لیکن اس سے چار سال قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ جیت کر وائٹ ہاؤس آئے تھے تو سعودی عرب نے نئے صدر کو مبارکباد دینے میں دیر نہیں کی تھی

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے بائیڈن انتظامیہ کو احساس دلایا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے

چودہ سال میں پہلی بار خام تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی وہ ممالک ہیں جو لاکھوں بیرل تیل کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں

سعودی عرب کو بائیڈن انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں نے کئی بار تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کہا لیکن یہ کوششیں ناکام رہیں

اس کے لیے وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے مقرر اعلیٰ عہدیدار بریٹ میک گرک، امریکی توانائی کے مشیر ایمز ہوچسٹین نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا لیکن وہ خالی ہاتھ واپس آئے

تاہم سعودی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پلس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس موسم گرما میں پیداوار میں 50 فیصد اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں

وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک جان کربی نے العربیہ نیوز کو بتایا کہ جو بائیڈن کے دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں یمن میں سعودی جنگ، تیل کی مصنوعات کی قیمتیں اہم موضوعات ہوں گے

اگر بائیڈن کا دورہ کامیاب ہوتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ کم ہو جائے گا، جو بظاہر خاشقجی کے قتل کی وجہ سے بگڑ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ فروری سے سفارتکاری کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی اشاریہ ہوگا

بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکہ کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس نے اب مشرق وسطیٰ کے بجائے چین اور روس کے چیلنجز کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے

جان کربی نے العربیہ کو بتایا: ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خطے میں مشرق وسطیٰ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ ہم کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ نہ صرف ہمارے قومی مفاد کے لیے، بلکہ پوری دنیا کے لیے بہت اہم خطہ ہے‘

واشنگٹن میں بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلاٹ کے مطابق صدر بائیڈن کا یہ دورہ پیٹرول کی قیمتوں پر سکیورٹی سے متعلق مسائل کی وجہ سے ہو رہا ہے

نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق بائیڈن نے اکتوبر 2020 میں کئی وجوہات کی بنا پر کہا تھا: ’بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ کے دور میں ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں گے، یمن میں سعودی جنگ کے لیے امریکی حمایت کو ختم کریں گے، اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہتھیار بیچنے یا تیل خریدنے کے لیے امریکہ کو اپنی اقدار پر سمجھوتہ نہ کرنے دیا جائے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن اس دورے سے ایک اور تاریخ رقم کریں گے۔ وہ پہلی بار اسرائیل سے براہ راست ریاض جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close