ٹَبَّر کلچر: چلو بچو سرکاری خرچے پر بیرونی دورے پر چلو

ویب ڈیسک

وزیراعظم شہباز شریف کے بیرونی دورے کئی حوالوں سے شدید تنقید کی زد میں رہے، ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کا حکمراں طبقہ ان دوروں پر مبینہ طور پر اپنے احباب اور رشتہ داروں کو بھی نوازتا ہے، جو کہ ایک منفی رجحان ہے

وزیراعظم شہباز شریف 54 رکنی وفد کے ہمراہ ترکی پہنچے تھے تاہم ان کے مفرور بیٹے سلیمان شہباز شریف، جو لاہور کی احتساب عدالت کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں اشتہاری قرار دیے گئے ہیں، ان کی کی ٹویٹر پوسٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ وزیراعظم اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں وہ بھی موجود تھے

سلیمان شہباز نے ٹویٹر پر لکھا ”محترم صدر کی میزبانی میں کتنی شاندار شام تھی“

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سرکاری خرچ پر ترکی کا دورہ کیا ہے اور اپنے مفرور بیٹے کو سرکاری وفد میں شامل کرنا آئین، قانون، عدلیہ اور ایک عام پاکستانی کے ساتھ مذاق ہے

انہوں نے یہ بھی تنقید کی کہ ایک عام آدمی جیل کا سامنا کرتا ہے لیکن منی کرنے کے مقدمے میں ملزم وزیر اعظم کا ایک اشتہاری مجرم بیٹا میزبان ملک کے سربراہ سے ملاقات کر رہا ہے

ٹوئٹر صارف طلعت رحیم نے لکھا کہ دو روز قبل ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ سلیمان شہباز کو سمن جمع نہیں کیا جا سکا کیونکہ ان کا ٹھکانہ نہیں مل سکا۔ لیکن وہ اردگان کے ساتھ رات کے کھانے پر بیٹھا تھا جو لندن میں اپنے بھگوڑے گھر سے آیا تھا

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے سربراہ نے اقتدار میں آتے ہی اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے بلاوے پر پیپلز پارٹی اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ لندن کا طویل دورہ کیا تھا

شہباز شریف کا ترکی کا حالیہ دورہ سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں رہا، خاص طور پر دورے کے حوالے سے ملک بھر کے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، ڈجیٹل میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات عوام کا منہ چڑاتے رہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شہباز شریف کسی دورے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں

شہباز شریف اور ان کے رفقا نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ عمرہ بھی ادا کیا، جہاں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی فیملی کے ارکان بھی آئے تھے

پاکستان میں کئی ناقدین نون لیگ کی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ قومی خزانے پر بیرونی سیر سپاٹے کر رہی ہے جبکہ ان دوروں کے دوران رشتہ دار اور احباب کو بھی نوازا جاتا ہے

واضح رہے کہ یہ دورے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ایک طرف حکومتی وزرا ”حکومت کے پاس زہر کھانے جتنے پیسے بھی نہیں ہیں“ جیسے بیانات دے رہے ہیں، تو دوسری جانب حالیہ دنوں میں ہی ساٹھ روپے سے زیادہ کا اضافہ پٹرول کی قیمت میں کیا جا چکا ہے۔ جبکہ بجلی کی قیمت اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے، جس سے مہنگائی عروج پر پہنچ رہی ہے۔ ملک میں پہلے ہی اس مہنگائی کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے مہنگائی میں اضافہ کرنے کی بھرپور مخالفت کرے گی

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ نون لیگ اور شریف فیملی کا پورا ٹبر اقتدار میں آیا ہی اسی لیے ہے کہ وہ قومی خزانے کو لُوٹے

انہوں نے کہا ”پہلے سعودی عرب میں حسن نواز اور حسین نواز سرکاری دورے کے دوران گئے اور اس دورے میں بھی شریف فیملی کے کئی افراد موجود تھے اور اب حسن نواز جو پاکستانی عدالتوں کا مفرور ہے، وہ سرکاری سطح پر ترکی پہنچا ہوا ہے جبکہ اس کی بیوی بھی وہاں موجود ہے۔ اس طرح کے دورے میں کوئی منطق نہیں کے احباب اور رشتہ داروں کو بلایا جائے لیکن نون لیگ دوسرے ممالک کے سربراہان حکومت کے ساتھ اپنے رشتے داروں کا تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہے‘‘

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ اس کے برعکس عمران خان نے اپنے جو بھی دورے کیے ہیں اس میں انہوں نے وفد کی تعداد کو بہت مختصر رکھا اور اگر کوئی آیا بھی، تو اس نے اپنی جیب سے کرایہ بھی ادا کیا ہے اور اپنی رہائش کا انتظام بھی خود کیا ہے

پاکستان میں عموماً حکمراں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے رشتے داروں اور احباب نے ان دورں کے اخراجات خود برداشت کئے ہیں لیکن کئی ناقدین اس سے اختلاف کرتے ہیں

کیبنیٹ ڈویژن کے ایک اعلی ریٹائرڈ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وزیراعظم یا ان کے گھرانے کے افراد اپنے پیسوں پر دورے میں شامل ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیونکہ وزیراعظم ایک بہت ہائی پروفائل شخصیت ہوتا ہے، تو جب بھی وہ کوئی بیرونی دورہ کرتے ہیں تو وزیراعظم ہاؤس اور جس ملک کا دورہ کرتے ہیں وہاں کا متعلقہ پاکستانی سفارت خانہ ان رشتہ داروں یا احباب کو سہولیات پہنچانے یا پروٹوکول دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اگر ابھی سلمان شہباز وہاں پہنچے ہیں تو ان کو بھی پاکستان کے سفارت خانے کی طرف سے تمام سہولیات دی گئی ہوں‘‘

اس عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ وزیراعظم کے گھرانے کے افراد یا ان کے احباب کسی بیرونی دورے میں ان کے ساتھ جائیں۔ تاہم خاتون اول جا سکتی ہیں ”پاکستانی سفارت خانے ایسے مواقع پر وزیر اعظم کے رشتے دار اور احباب کو سہولیات دیتے ہیں اور اس کے لیے وزیر اعظم ہاؤس اور وزرات خارجہ اس دورے سے پہلے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں‘‘

تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ بیرونی دورے کے حوالے سے وزیر اعظم با اختیار ہوتا ہے۔ سابق سفیر برائے ایران آصف درانی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ جس کو چاہے ساتھ لے جائے

انہوں نے کہا کہ ”یہ بات صحیح ہے کہ وزیراعظم کے گھرانے کے افراد بیرون ملک سرکاری اجلاسوں میں شرکت نہیں کر سکتے، لیکن اگر کوئی بیرون ملک کا سربراہ، صدر یا وزیراعظم کوئی استقبالیہ دیتا ہے تو اس میں وزیراعظم کی فیملی کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور کیونکہ وزیراعظم اور ان کی فیملی کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی ریاستی ہوتی ہے, اس لیے پاکستان کے سفارت خانے کو اس حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے‘‘

آصف درانی کا کہنا تھا ”رشتے داروں کو ساتھ لے کر جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق صدر ایوب خان اپنی بیٹی کو بیرونی دوروں پر ساتھ لے کر جاتے تھے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی بے نظیر بھٹو کو ساتھ لے کر جاتے تھے۔ تو یہ کوئی نئی ریت نہیں‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close