حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی

مصطفیٰ آفریدی

دس سالہ بیدار بخت ایک ہاتھ میں اپنا پھٹا سر دوسرے ہاتھ میں سائیکل کا ہینڈل آنکھوں میں آنسو اور زبان پر موٹی موٹی گالیاں لئے پیڈل پر پیڈل مارتا مجسٹریٹ آفس کی طرف رواں دواں تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ آج صبح اس کی ماں بیگم گل اور چاچی زیتون میں بجلی کے بل پر ہونے والی تکرار بڑھتے بڑھتے برتنوں کی گولہ باری میں تبدیل ہو گئی۔

چار بھائیوں کے اس مشترکہ خاندانی نظام میں بیگم گل کو افغانی ہونے کی وجہ وہ مقام نہیں ملا، جو باقی لوکل بہوؤں کو حاصل تھا۔ بلکہ ان بہوؤں نے تو اس کا نام ہی پناہ گزین رکھ چھوڑا تھا۔ جب بھی اندرون خانہ کوئی زنانہ جھڑپ ہوتی ساری لوکل بہو بیٹیاں متحد ہو کر افغانی پناہ گزین کو خوب رگڑا دیتیں۔ لیکن آج تو حد ہی ہو گئی۔۔ زیتون چاچی زبان چلاتے چلاتے برتن چلانے پر آ گئی، اس جھڑپ میں بیدار بخت ایک بھاری بھرکم تانبے کے گلاس کی زد میں آ کر اپنا سر کھلوا بیٹھا۔ اب وہ ماں کے حکم پر اپنے باپ حضرت علی مینگل نائب قاصد مجسٹریٹ آفس کو اس خانہ جنگی میں کودنے کے لئے بلانے جا رہا تھا۔

مجسٹریٹ آفس کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی اس نے دردناک آواز میں اپنے باپ کو پکارنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کہ حضرت علی بیٹے کی خبر لیتا، مجسٹریٹ صاحب نے آواز دینے والے کو اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ آن کی آن میں بیدار بخت ان کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتے، ہانپتا ہوا نائب قاصد حضرت علی کمرے میں آ پہنچا۔ بیٹے نے باپ کو دیکھتے ہی دھاڑ ماری اور باپ نے بیٹے کی سفید قمیض پر لگا خون دیکھ کر سینہ پِیٹ لیا۔ بیدار بخت نے روتے روتے پشتو کے دو تین جملوں میں ساری داستان بیان کر دی جو پنجاب سے آئے ہوئے مجسٹریٹ صاحب کو سمجھ میں نہ آئی لیکن انہوں نے حضرت علی کا اڑتا رنگ دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ کوئی گمبھیر معاملہ ہوا ہے۔ یہ وہ زمانے تھے، جب سر پھٹنے کو بڑا معاملہ جانا جاتا تھا۔۔ آج کل تو انسان پھٹ جاتے ہیں، اور کوئی گمبھیرتا نہیں سمجھ پاتا۔

”جو کچھ تمہارے لڑکے نے کہا ہے فوراً اس کا ترجمہ کر کے مجھے بتاؤ حضرت علی“ مجسٹریٹ صاحب نے بیتاب ہو کر پوچھا

”سرجی بیدار بخت کی ماں آپ کو بلاتی ہے۔“ حضرت علی مینگل نے کوئی تمہید باندھے بغیر کہہ دیا

مجسٹریٹ صاحب کی بیتابی کو حیرت میں بدلتا دیکھ کر حضرت علی سمجھ گیا کہ اب صاحب کو سمجھانا پڑے گا کہ وہ کیوں بلا رہی ہے

”سر جی اس کی ماں کی میری بھابیوں سے لڑائی ہوئی ہے، جس میں میرے بھائی خاموشی سے ساری کارروائی دیکھتے رہے کسی بدبخت نے اپنی بیوی کو نہیں روکا۔ اسی لڑائی میں بیدار بخت کا سر پھٹ گیا۔ اس کی ماں نے سب کے سامنے اسے کہا ہے کہ جا کے اپنے باپ کے دفتر سے مجسٹریٹ صاحب کو بلا لاؤ، وہی آ کے فیصلہ کریں گے۔ اب اگر آپ نہیں جاتے تو اس کی ماں کے ساتھ ساتھ میری بھی بے عزتی ہوگی۔۔ گاؤں کے لوگ اور خاندان والے مذاق اڑائیں گے کہ میری اتنی بھی اوقات نہیں۔ اب معاملہ عزت پر آ گیا ہے سر جی“

”خاندان والوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، یہ گاؤں والے کیوں مذاق اڑائیں گے۔ ان کو تو نہیں معلوم کہ تمہاری بیوی نے مجھے بلایا ہے؟“ مجسٹریٹ صاحب اپنے ہونٹوں پر کھیلتی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے بولے

”سرجی بیدار بخت سارا راستہ اعلان کرتا آیا ہے کہ میں اپنے باپ کے دفتر میں کام کرنے والے مجسٹریٹ صاحب کو بلانے جا رہا ہوں۔۔ وہی آ کے ان سب کو سزا دے گا“

حضرت علی کی یہ بات سن کر مجسٹریٹ صاحب تیزی سے اپنے کمرے کی اٹیچ باتھ روم کی طرف بھاگے تاکہ وہاں موجود کوئی آدمی ان کو ہنستا نہ دیکھ سکے۔ وہ باتھ روم میں اپنے ہونٹ بھینچ کر اتنا ہنسے کہ ان کے چہرے کا رنگ لال سرخ ہو گیا۔۔ چند لمحوں بعد وہ اپنے آپ کو اکٹھا کر کے دوبارہ باہر آئے اور اپنے چہرے پر سنجیدگی کا پردہ ڈال کر حضرت علی سے ہمکلام ہوئے

”اگر ابھی میرے کچھ سرکاری مہمان نہ آرہے ہوتے تو تمہارے ساتھ ضرور چلتا اور سب کو موقعے پر سزا دیتا۔ اس ساری صورتحال کا صرف ایک ہی حل ہے کہ میں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے تمہیں ایک دن کے لئے اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے پر تعینات کر دوں“

یہ سنتے ہی حضرت علی کا سینہ کوئٹے سے لے کر بیگم کے میکے قندھار تک پھیل گیا۔ مجسٹریٹ صاحب نے وہیں کھڑے اپنے کلرک سے انگریزی زبان میں ایک پروانہ ٹائپ کروایا اور اس پر پہلے اپنے دستخط کی چڑیا بٹھا کر اسی کے اوپر حکومت پاکستان کی سرکاری مہر کا شاہین بھی بٹھا دیا۔ انہوں نے حضرت علی کے ہاتھ میں پروانہ اور کان میں پتے کی بات ڈالی کہ ایک اچھا مجسٹریٹ وہی ہوتا ہے، جو اس قسم کی صورتحال میں طاقت کی بجائے دماغ کا استعمال کرتا ہے، لہٰذا تم بھی اپنے گھر کے اس انتظامی معاملے میں طاقت کے استعمال سے گریز کرنا اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کر کے ایک اچھے سرکاری ملازم ہونے کا ثبوت دینا

”لیکن سر جی آگے سے طاقت کا استعمال کا خدشہ ہے، اس لئے مجھے سرکاری طاقت بھی فراہم کی جائے تاکہ شرپسندوں کے دل میں سرکار کا خوف پیدا ہو اور دوبارہ ایسی جرأت نہ کریں۔“ حضرت علی نے اب کی بار سینے کو کابل تک پھیلاتے ہوئے درخواست کی

مجسٹریٹ صاحب نے اس کی درخواست پر باوَردی اور بارِیش بزرگ سپاہی رسول بادشاہ کو حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی کے ساتھ جانے کا حکم صادر کر دیا۔

پھر کائنات نے بیدار بخت کی سائیکل کو بستی کی طرف واپس جاتے دیکھا لیکن اس بار وہ سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھا تھا اور رسول بادشاہ اسے چلا رہا تھا، جب کہ اعزازی مجسٹریٹ کیریئر پر اپنی جیب میں پڑے پروانے پر یوں ہاتھ رکھے براجمان تھا، جیسے اس زمانے کے صدر ضیا صاحب قومی ترانہ سنتے وقت اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ کاغذ کا یہ ٹکڑا حضرت علی کے دل کو ایک عجیب سی طاقت فراہم کر رہا تھا۔ اس کا ہاتھ سینے پر تھا اور نظریں رسول بادشاہ کے کندھے پر لٹکتی رائفل پر۔ اس کے ہونٹوں کے دونوں کونوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اللہ اللہ کر کے آدھے گھنٹے کا سفر ایک گھنٹے میں پورا کرنے کے بعد اعزازی مجسٹریٹ صاحب اپنے گاؤں کی گلیوں میں چہرے پر سرکاری سنجیدگی لئے داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے رسول بادشاہ اپنی اس سرکاری تھری ناٹ تھری رائفل کو کندھے پر لٹکائے آ رہا تھا، جس کی گولیاں اور سنگین اصل مجسٹریٹ صاحب نے حفظِ ماتقدم کے تحت چپکے سے لے لی تھیں۔۔ اب یہ تھری ناٹ تھری ایک ایسا سانپ تھی، جس کے زہریلے دانت مجسٹریٹ آفس میں پڑے تھے۔ حضرت علی اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ وہ جس اسلحے کے زور پر سینہ تانے چل رہا ہے، اس کی حیثیت لاٹھی سے زیادہ نہیں۔ ان دونوں سے آگے بیدار بخت نعرے مارتا جا رہا تھا۔۔

”گاؤں والو دیکھو میرا باپ مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ پکا آرڈر اس کی جیب میں ہے سرکار نے اس کی باڈی کے لئے گارڈ بھی دیا ہے۔ دیکھو دیکھو میرے مجسٹریٹ باپ اور اس کے بدرگے کو دیکھو۔“

بیدار بخت کے نعروں نے سارے علاقے کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کے باپ کو دیکھیں اور مرعوب بھی ہوں۔ حاجی گل داد خان بھاگا بھاگا اپنے گھر گیا اور کھونٹی سے ٹنگے وہ سارے ہار اتار لایا، جو پانچ سال پہلے حج سے واپسی پر گاؤں والوں نے اس کے گلے میں ڈالے تھے۔ اب وہ سارے اعزازی مجسٹریٹ کی گردن میں لٹک رہے تھے۔ سارے علاقے کے واحد حاجی کی دیکھا دیکھی مولوی صاحب بھی مسجد کے محراب میں لٹکتے کاغذی پھولوں کے دو ہار اتار لایا، ایک حضرت علی کو پہنایا اور دوسرا رسول بادشاہ کے گلے کا طوق بنا دیا گیا۔ گاؤں کی ساری عورتیں دروازوں کی اوٹ سے اپنے علاقے کے سپوت کا شاندار استقبال دیکھ رہی تھیں اور مرد آگے بڑھ کر حضرت علی کو سینے سے لگانے کے لئے بیتاب تھے۔ حضرت علی نے گاؤں کے چوک میں سب کو انگریزی میں لکھا اپنا پرموشن لیٹر بھی دکھا دیا، جس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ ثبوت دکھانے کی کیا ضرورت ہے، ہم تو سرکاری بدرگہ اور رائفل دیکھ کر سمجھ گئے ہیں کہ تم مجسٹریٹ ہو گئے ہو۔

مجسٹریٹی کی سلامتی کے لئے مولوی صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، ان کی دیکھا دیکھی چوک میں موجود ہر چھوٹے بڑے نے بھی ہاتھ کھڑے کیے۔ جب مولوی صاحب دعا کر رہے تھے، اسی وقت نکڑ میں کریانے کی دکان کے ریڈیو سے خبروں کی آواز آ رہی تھی:
”سیرت کانفرنس کے اختتام پر ملک کے تمام علما اور مشائخ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد میں صدر مملکت جنرل ضیاءالحق کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے“

مولوی صاحب کی دعا اور ریڈیو کی خبروں کے دوران حضرت علی کی نظریں رسول بادشاہ کی رائفل سے ہوتی ہوئی اپنی گلی کے اس کاغذی ہار تک آئیں، جسے مولوی صاحب نے مسجد کی محراب سے اتار کے اسے پہنایا تھا۔ پھر اچانک اس کی آنکھ اپنے گھر کی طرف اٹھی اور اس نے چھت پر کھڑے اپنے بھائیوں کو دیکھا، جن کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ جیب میں رکھے پروانے کی حیثیت، بندوق کی طاقت اور مسجد کی محراب کے ہار کا کرنٹ حضرت علی کے سارے جسم میں دوڑ گیا

گھر میں داخل ہوتے ہی بیدار بخت نے گھر کی خواتین کو پردے میں رہنے کا نعرہ لگایا، کیوں کہ سرکاری باڈی گارڈ نے بھی اعزازی مجسٹریٹ صاحب کے ساتھ اندر آنا تھا۔ پھر اس نے اپنے چچاؤں کو میدان میں آنے کے لئے للکارا۔ وہ بے چارے ہمت کر کے چھت سے نیچے اترے اور گھر کے آنگن میں آ کے مجرموں کی طرح کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں بعد حضرت علی نے گھر کی دہلیز پار کی اور رسول بادشاہ باہر دروازے پر کھڑا اپنے گلے سے کاغذی پھولوں کا ہار اتارنے لگا۔ بیدار بخت نے باپ کو بدرگے کے بغیر اندر آتے دیکھ کر منہ بنایا اور اسے کہا کہ عورتیں اندر ہیں بدرگے کو بھی بلا لو۔ حضرت علی کی کڑک آواز پر رسول بادشاہ اندر آیا۔ ہار اس کے گلے سے اتر کر رائفل کے نال پر آ گیا تھا۔

اس سے پہلے کہ حضرت علی اپنے بھائیوں سے ہمکلام ہوتا، رسول بادشاہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی ”او ایک دن کے مجسٹریٹ، یہ سارا ڈرامہ جلدی ختم کرو یار۔ مجھے لائن حاضری بھی دینی ہے“

رسول بادشاہ کے لہجے میں بے زاری کی ملاوٹ حضرت علی کو سمجھا گئی کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے، لہٰذا اس کے دماغ نے اصل مجسٹریٹ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے ختم کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا سوچا۔ وہ بھائیوں سے کوئی بات کیے بغیر اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ جلدی جلدی اپنی افغانی بیوی سے مشورہ کر کے باہر نکلا اور اپنے بھائیوں سے کہا کہ میں اس روز روز کے جھگڑے سے تنگ آ گیا ہوں، اس لئے اس گھر میں اپنا حصہ ان کو بیچ کر یہاں سے جانے کا فیصلہ کرتا ہوں۔

قصہ مختصر۔۔ حضرت علی اپنی افسری اور رسول بادشاہ کے بندوق کے زور پر اپنا حصہ بھائیوں کو فروخت کر کے پرانی بستی سے نکل کر کوئٹہ آ گیا۔ اعزازی مجسٹریٹ بننے کے بعد اس کا دل نائب قاصد کی نوکری سے اچاٹ سا ہو گیا اور اس نے پنشن لینے کا پروگرام بنا لیا۔ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر نے دو ہزار معاوضے کے عوض گھٹنوں کا پانی سوکھ جانے کی رپورٹ بنا کے دے دی۔ دو چار مہینوں میں حضرت علی میڈیکل بنیادوں پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے سرفراز کر دیا گیا۔

بھائیوں اور سرکار سے ملے پیسے سے اس نے ہزارہ کالونی میں ایک چھوٹا سا گھر بنوا کے اس پر حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی کی تختی لگا دی۔

مجسٹریٹی کے پروانے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی کو فریم کرا کے بیٹھک میں اتنی اونچائی پر لگوا دیا کہ کوئی خدا کا بندہ پڑھ ہی نہ سکے کہ یہ ایک دن کی بادشاہی کا حکم نامہ ہے۔ اصل پروانے کو اس نے پاسپورٹ سائز کے ایک چرمی جلد میں بند کرا کے پنشن بک کے ساتھ بنیان میں بنی زپ دار جیب میں سنبھال کے رکھنا شروع کر دیا۔

بیدار بخت کو پڑھائی لکھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کا دماغ کاروبار میں چلتا تھا، لہٰذا اسے فروٹ منڈی میں اپنے افغانی ماموں کے دکان پر کاروبار کے گر سیکھنے بھیج دیا گیا۔ کچھ ہی سالوں میں اس نے کمیشن ایجنٹ کے کام میں اتنی ترقی کی کہ اسی منڈی میں اپنے لئے ایک دکان اور باپ کے لئے ایک استعمال شدہ سوزوکی ایف ایکس کار خرید لی۔ مجسٹریٹ اعزازی کی مزید دو تختیاں گاڑی کے آگے پیچھے چپکا دی گئیں۔

گاڑی آنے کے بعد حضرت علی اپنے ڈرائیور اکبر محقق کے ساتھ سارا دن کوئٹہ کے تھانوں، کچہری، میونسپل کمیٹی، یونین کونسل، واپڈا آفس اور اخباری دفتروں کے چکر لگاتا رہتا تھا۔ اپنی بیوی بیگم گل کی وفات کے بعد اب اس کا یہی ایک مشغلہ رہ گیا تھا۔ وہ سرکاری دفتروں میں بڑے افسروں کے ساتھ تصویریں بنواتا اور جب وہ افسر نوکری یا زندگی سے ریٹائر ہو جاتے تو اگلے دن اخبار کے کسی اندرونی صفحے میں جانے والے کے ساتھ حضرت علی کی تصویر اس قسم کے کیپشن کے ساتھ چھپ جاتی:
”ایکسین واپڈا امان اللہ خان مرحوم کی اپنے دیرینہ دوست حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی کے ساتھ ایک یادگار تصویر“

یہ ساری تصویریں لینا ایک ہزارہ وال جوان اکبر محقق کے ذمے داری تھی، جو نہ صرف حضرت علی کا ڈرائیور بلکہ فوٹو گرافر، باورچی، دھوبی، مددگار بھی تھا۔ اپنی جڑوں سے جڑیں بنانے کے لئے حضرت علی جمعے کی نماز ادا کرنے اپنی پرانی بستی ہی جاتا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ بھائیوں کے گھر میں کچھ وقت گزارتا، ان کے مسئلے مسائل سنتا اور الٹے سیدھے مشوروں سے نواز کر واپس ہزارہ کالونی آ جاتا۔ یہاں بھی اس نے اپنی اچھی خاصی عزت بنا لی تھی۔ ہزارہ والوں کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوتا تھا۔ سرکاری دفتروں میں جان پہچان کو کام میں لا کر ان کے چھوٹے موٹے کام کرا دیتا۔ محرم کے جلوسوں میں چلا جاتا اور وہاں بھی عالموں ذاکروں کے ساتھ تصویریں بنواتا۔ جب بھی ہزارہ کالونی سے کوئی گروپ زیارات کے لئے ایران جاتا تو حضرت علی مینگل اڈے تک جا کے سب کو الوداع کرتا اور اس وقت تک ہاتھ ہلاتا رہتا، جب تک وہ بس نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی۔ اور پھر اگلے دن اخبار کے اندرونی صفحے پر ایک تصویر ”حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی زائرین کو الوداع کرتے ہوئے“ کے کیپشن کے ساتھ چھپ جاتی۔

زیارتوں سے واپسی پر زائرین حضرت علی کے لئے تحائف اور تبرکات لانا نہ بھولتے۔ بیدار بخت کو باپ کے ان رابطوں سے چڑ تو ہوتی تھی لیکن اس نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا

میرا حضرت علی سے اس وقت واسطہ پڑا، جب میں اپنی کمپنی کے طرف سے کوئٹہ میں موبائل ٹاورز کی تنصیب کے لئے وارد ہوا۔ میرا کام ٹاور کے لئے نہ صرف موزوں مقام کی نشاندہی کرنا تھا بلکہ ان جگہوں کے مالکان کو راضی کرنا اور پھر معاہدہ کر کے ٹاور نصب کرانا بھی میری ذمہ داری میں شامل تھا۔ ہزارہ کالونی میں اتفاق سے حضرت علی کے گھر کی چھت ٹاور کے لئے موزوں ترین نکلی۔ گھر پر مجسٹریٹ اعزازی کی تختی دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ میرا واسطہ کسی مشکل سرکاری ملازم سے پڑنے والا ہے، جس کو سمجھانے اور منانے میں مجھے جسم کا سارا خون سکھانا پڑے گا۔ میرا اندازہ درست ثابت ہوا، اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اس کینسر کو اپنی چھت پر نہیں لگنے دے گا۔ بیدار بخت نے اسے سمجھایا کہ ٹاور لگنے کے بعد اس گھر کو کرائے پر چڑھا دیں گے۔ خود کسی اور جگہ منتقل ہو جائیں گے۔ اوپر ٹاور سے کرایہ آئے گا اور نیچے کرایہ داروں سے۔ کینسر ہونا ہوگا تو کرایہ داروں کو ہوگا۔ کمپنی سالانہ اتنا کرایہ دے رہی ہے کہ لوگ بھاگ بھاگ کے اپنے گھر اور پلاٹ پیش کر رہے ہیں اور تم ضد پکڑ کے بیٹھے ہو۔ حضرت علی نے صاف صاف کہا کہ جو بیماری مجھے اپنے لئے پسند نہیں، وہ کسی دوسرے انسان کے لئے بھی پسند نہیں۔ پھر اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا اگر تم نے اس پینٹ شرٹ والے سے کوئی معاملہ کیا تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ میں نے ایک اور اندازہ لگایا کہ یہ دونوں باپ بیٹا کرایہ بڑھوانے کے لئے ’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ کھیل رہے ہیں اس لئے میں نے پچاس ہزار بڑھا کر ایک اور آفر کر دی۔ یہ سنتے ہی بیدار بخت کی رال ٹپک پڑی۔ حضرت علی بیٹے پر ایک نظر ڈال کے تیزی سے اندر چلا گیا۔ بیٹا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ مجھے یقین تھا یہ دونوں ابھی واپس آئیں گے اور ہماری بات طے ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ میں بیٹھک میں رکھی چارپائی پر کمر سیدھی کرتا، مجھے حضرت علی کی تیز آواز آئی جو پشتو میں بیدار بخت کی کلاس لے رہا تھا۔ میں پشتو بول تو نہیں سکتا لیکن اچھی خاصی سمجھ لیتا ہوں۔ آواز اتنی تیز تھی کہ مجھے دروازے سے کان لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی
”تمہاری وجہ سے میں نے بستی چھوڑی، اپنے بھائی چھوڑے، اب مجھے یہ صلاح دے رہے ہو کہ خود بھاگ جاؤں اور اپنے ان سب بہن بھائیوں کو کینسر لگا دوں؟“

”کون سے بہن بھائی؟ یہ ہزارے وال؟“ بیدار بخت کے لہجے میں حیرت تھی

”جو بھی ہیں۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اس پینٹ شرٹ والے کو بھی بھگاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں اس کالونی میں کینسر نہیں آئے گا“

اس سے پہلے کہ بیدار بخت بیٹھک میں واپس آتا، میں نے اپنا سامان سمیٹا اور چپکے سے باہر نکل گیا۔ میں نے کمپنی کو بتا دیا کہ اس مقام کے علاوہ ہزارہ کالونی میں کہیں اور ٹاور لگانا موبائل کے سگنلز کو آدھے سے بھی کم کر دے گا، جس کا سارا خسارہ کمپنی کو ہوگا۔ لہٰذا کچھ عرصہ انتظار کیا جائے۔ بوڑھا حضرت علی قبر کے کنارے بیٹھا ہے، اس کی وفات کے بعد دوبارہ بیدار بخت سے بات کی جائی تو بہتر ہوگا۔ کمپنی نے میرے اندازوں اور صلاح پر ہزارہ کالونی میں ٹاور کے تنصیب کچھ عرصے کے لئے موخر کر دی۔

اس دوران میں مہینے میں دو تین بار بیدار بخت کو یہ پوچھنے کے لئے کال کر لیتا تھا کہ کوئٹہ میں سب سے اچھی سجی کہاں سے ملتی ہے؟ بلوچی چپل کہاں سے لی جائیں۔ سجی چپل اور کپڑوں کی معلومات لینا تو صرف بہانہ تھا، اصل مدعا تو اس سے رابطے میں رہ کراس کے باپ کا حال احوال پوچھنا تھا۔ میں نے دوبارہ کبھی اس سے ٹاور کی بات نہیں کی۔ کیونکہ وہ مجھے حضرت علی کی وفات کے بعد کرنی تھی۔

دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ آس پاس کئی لوگ مرتے جا رہے تھے۔ ہر چوتھے پانچویں دن کسی مرحوم کے ساتھ حضرت علی کی تصویر لوکل اخباروں میں نظر آجاتی تھی۔ لیکن حضرت علی کے جانے کی خبر کہیں سے بھی نہیں آ رہی تھی بلکہ کچھ دن پہلے مجھے بیدار بخت نے بتایا کہ وہ بالکل صحت مند ہے اور اگلے ہفتے اپنے آفیشل فوٹو گرافر اکبر محقق کے ساتھ ایران جا رہا ہے۔ چند دن بعد میں نے اس کی ایک گروپ تصویر اس کیپشن کے ساتھ چھپی دیکھی
”حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی کی اپنے دوستوں کے ساتھ زیارات مقدسہ روانگی کا خوبصورت منظر“

خدا گواہ ہے ، وہ اس تصویر میں اتنا صحت مند نظر آ رہا تھا کہ اگلے دس سال تک اس کے جانے کا کوئی پروگرام نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے اندازوں پر لعنت بھیجی اور اپنے لنگوٹ بند دوست نوید کی طرف چل پڑا۔ نوید کو کوئٹہ میں اے ایس پی کا چارج لئے دو ہی دن ہوئے تھے۔ ہم دونوں کوئٹہ کلب سے ایک پُرتکلف لنچ کر کے گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ نوید کو کال آئی، جسے سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ کال ختم ہوتے ہی اس نے بتایا کہ ایران جاتی زائرین کی بس پر حملہ ہو گیا ہے اور اسے موقعے پر پہنچنا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ تین گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم موقعے پر پہنچے۔ بس کے اردگرد کھڑے پولیس اہلکار اندازے لگا رہے تھے۔ ٹانگ میں لگی گولی سے زخمی ڈرائیور ابھی تک خوف سے کانپ رہا تھا۔ بس کے باہر لاشیں ہی لاشیں تھیں۔

ڈرائیور نے بتایا کہ وہ نماز ادا کرنے کے لئے یہاں رکے تو اچانک کہیں سے سات حملہ آور نمودار ہوئے اور مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرتے اور گولیاں مارتے گئے۔ اسے اس لئے ٹانگ میں گولی ماری کہ اس کا نام مرنے والوں جیسا نہیں تھا اور پشت پر زنجیر زنی کے نشان بھی نہیں تھے۔ مجھے حضرت علی کی لاش کہیں نظر نہیں آئی۔ اس سے پہلے کہ میں بس کے اندر جھانکتا ایک سپاہی نے دور سے اواز لگائی
”سر ایک یہاں بھی ہے“

نوید اس طرف بھاگا اور میں بھی۔ ریت کے ایک چھوٹے سے ٹیلے کے پیچھے حضرت علی مجسٹریٹ اعزازی کی لاش پڑی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر پاسپورٹ سائز کی چرمی نوٹ بک کھلی پڑی تھی، جس سے چپکا ایک دن کی بادشاہی کا پروانہ ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ میرا ہاتھ اپنے موبائل کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے بیدار بخت کو کال کرنا تھی۔

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close