پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ طے پانے کے باوجود بلدیاتی قانون کے معاملے پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے مابین کئی نکات پر بات چیت تاحال تعطل کا شکار ہے
ذرائع کے مطابق گزشتہ روز دونوں جماعتوں کے اراکین کی دو ملاقاتیں ہوئیں تاہم معاملات اب بھی کسی کروٹ نہیں بیٹھے
اس حوالے سے ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات اب بھی حل طلب ہیں، ہم صرف سپریم کورٹ کے 140 اے کے فیصلے پر من و عن عمل چاہتے ہیں
ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد بلدیاتی ڈرافٹ کو قانونی شکل دی جائے، ڈیڑھ ماہ کا وقت گزر چکا ہے، معاملات سست روی کا شکار ہیں۔ بلدیاتی قانون میں تبدیلی کرکے سوک دارے، اتھارٹیز، محکمے میئر یا ڈسٹرکٹ چئیرمینز کے حوالے کیے جائیں اور بلدیاتی ریونیو کے ادارے میئر کے ماتحت کیے جائیں
ذرائع کے مطابق گزشتہ ملاقات میں کے ڈی اے کے حوالے سے معاملات پر شق وار جائزہ لیا گیا، تاہم پیپلز پارٹی سے ہونے والے معاہدے کی پیش رفت پر ایم کیو ایم کمیٹی کے اراکین غیر مطمئن ہیں
ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بااختیار سسٹم نہیں بلکہ کاسمیٹک کام کرنا چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت رہیں
واضح رہے کہ ملاقات میں کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص کی ڈی لمیٹیشن پر ایم کیو ایم نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ ایسی غیر منصفانہ ڈی لمیٹیشن پر انتخابات کیسے ممکن ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم عدالتوں میں گئی ہے
ایم کیو ایم کمیٹی نے تمام معاملات کنوینر ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی اور رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ملاقات میں ہم سے وزارتوں، ایڈمنسٹریٹر، اسٹینڈنگ کمیٹی کے لیے چئیرمینز کے نام مانگے جاتے ہیں۔ یہ سب ثانوی چیزیں ہیں۔ ان سے غرض نہیں۔ ہمیں بلدیاتی ایکٹ پر عدالتی فیصلے کے مطابق قانونی سازی چاہیے۔