آپ سوشل میڈیا کی وال یا کسی ڈھابے پر اپنے دوستوں سے گفتگو کر رہے ہوں کہ آلو بہت مہنگے ہو گئے ہیں، پٹرول کی قیمت کو آگ لگی ہوئی ہے، انڈیا طاقتور ہوتا جا رہا ہے، امریکہ کی اندھی مخالفت ہمیں لیبیا بنا دے گی، آج ڈھابے کی چائے میں پتی ہلکی ہے، اور ایسے میں اچانک کوئی اجنبی دھم سے آن کودے اور بتائے کہ آپ شدید غدار ہیں جو ایسی باتیں کر کے پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، تو جان لیں کہ آپ کی ملاقات کسی مہیب وطن سے ہو گئی ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملا کر دو منٹ میں اسے چلتا کریں، ورنہ آپ کے دو گھنٹے اس میں عقل بھرنے کی کوشش میں تمام ہو جائیں گے اور آخر کار وہی معاملہ ہو گا جو پطرس کے ساتھ ہوا تھا
پطرس کا ملازم جب ان کی سائیکل میں تیل ڈالنے میں ناکام ہوا اور اس نے بتایا کہ ”حضور جو تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے، دھروں پر میل اور زنگ جما ہے، وہ سوراخ بیچ ہی میں کہیں دب دبا گئے ہیں، وہ تیل تو سب ادھر ادھر بہہ جاتا ہے، بیچ میں تو جاتا ہی نہیں“ تو پطرس نے فرمایا، ”اوپر اوپر ہی ڈال دو، یہ بھی مفید ہوتا ہے“
جتنا پطرس کی سائیکل میں یوں تیل ڈالنا مفید تھا، اتنا ہی کسی مہیب وطن کے دماغ میں عقل ڈالنا ہے۔ اس لیے وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کی بات نہایت غور سے سنیں، پھر اس سے متفق ہوں، اور جب وہ چلا جائے تو اس کے بعد ہی دوبارہ عقل کی باتیں کہنا سننا شروع کریں
اب بعض افراد پریشان ہوں گے کہ وہ تو ہمیشہ سے اس ترکیب کی املا ”محب وطن“ پڑھتے آئے تھے، تو یہ ”مہیب وطن“ بھلا کیا ہوا؟ بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم ان دونوں کے لفظی معنی دیکھ لیتے ہیں
محب:
1۔ پیار رکھنے والا، دوستی رکھنے والا، یار، دوست، مشفق، مہربان، آشنا
مہیب:
1۔ ہیبت ناک، خوف ناک، خطرناک، ڈراؤنا، بھیانک۔
2۔ (مجازاً) ظالم، جابر، بے رحم ؛ سخت، سنگین ؛ (کنایۃً) معظم، محترم
یعنی لغت کے مطابق محب تو محبت کرنے والا ہوا، اور مہیب وہ ہوا جو بیک وقت ہیبت ناک، خطرناک، ڈراؤنا، ظالم، جابر، بے رحم اور ساتھ ساتھ نہایت معظم و محترم و باوقار ہو
یوں محب وطن وہ ہوا جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہو۔ جیسے آپ ہیں کہ اس کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں۔ باہر جانے کے مواقع ملنے کے باوجود دیوانے ہوئے یہیں ٹکے بیٹھے ہیں۔ جبکہ مہیب وطن وہ ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زبردست مارے بھی اور رونے بھی نہ دے۔ وہ بزور اس بات پر مصر ہو کہ آپ اس کے حکم پر اسی کے انداز میں اسی کی پسندیدہ چیز سے محبت کے وہ تقاضے نباہیں جو وہ چاہتا ہے، ورنہ۔۔۔
اب زمانہ ایسا ہوا ہے کہ محب وطن والے افراد تو غدار قرار پائے ہیں، اور جو مہیب وطن ہیں وہ ڈنڈا اٹھائے ان غداروں کی سرکوبی پر کمربستہ ہیں۔ آپ چاہے خارجہ پالیسی سے اختلاف کریں یا داخلہ سے، افغانستان پالیسی کے متعلق بات کریں یا یہ کہیں کہ فلسطین کے معاملے میں ہمارے ملکی مفادات فلاں پالیسی میں ہیں، آئین کی حکمرانی کی بات کریں یا قانون کی دہائی دیں، یا پھر اپنی ذاتی سیاسی رائے رکھنے پر مصر ہوں اور اپنی پسند کی سیاسی پارٹی کی حمایت کریں، آپ مہیب وطن افراد سے غداری کی سند پا لیں گے اور وطن کے لیے خطرہ قرار پائیں گے
چونکہ مہیب وطن افراد نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی ہوتے ہیں، اس لیے آپ کے مذہب و مسلک پر بھی ان کی مرضی چلے گی کیونکہ نظریاتی سرحدوں کو تیل مذہبی اوزاروں سے دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی کچھ مذاہب و مسالک اب ملک دشمن قرار پا چکے ہیں تو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ان کا بندوبست کرنا بھی لازم ہے
جہاں تک جمہوریت پسند اور لبرل سیکولر لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ واقعی مہیب وطن افراد کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ بلکہ کھٹکتے کیا باقاعدہ رڑکتے ہیں۔ تو عافیت اسی میں ہے کہ مہیب وطن افراد کی آپ نہ صرف خوب عزت کریں، ان کی ہاں میں ہاں ملائیں بلکہ یہ بات ببانگ دہل کہیں کہ ایسا آپ اپنے دل کی آواز پر بلا جبر و اکراہ کر رہے ہیں۔ جتنی مہلت ملی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں، ورنہ بندے کا کیا بھروسا، آج ہے کل نہ رہے، غائب ہو جائے۔
بشکریہ: ہم سب