میرا نام رخشندہ بٹ ہے۔ اسی سال میں نے گورنمنٹ ڈگری
کالج سے بی اے کیا ہے۔
میرا خاندان کچھ خاص بڑا نہیں، بےبے، ابا ،دو بھائی اور دو بہنیں۔ میرا یعنی رخشندہ کا نمبر دوسرا ہے، پہلے بھائی آفتاب، پھر میں پھر شہاب اور پھر چھوٹی یعنی تابندہ۔
پنجاب کالونی، جہاں ہم لوگ رہتے ہیں، وہیں مین بازار میں ابے کی بڑی ساری ہول سیل کی دکان ہے ”بٹ اینڈ سنز“ کے نام سے۔ بھائی تو پولی ٹیکنک پاس کر کے KESC میں ملازم ہو گیا اور وہ تو بن گیا بابو صاحب، لہٰذا وہ تو اب کریانے کی دوکان کے قریب پھٹکتا بھی نہیں۔ شہاب البتہ پکڑائی میں آ جاتا ہے، سو اس کو شام سات سے رات دس بجے تک لازمی اسٹور پر حاضری دینی پڑتی ہے۔ چھوٹی ابھی میٹرک میں آئی ہے۔ بےبے ہی گھر کا زیادہ کام دیکھتی تھیں، مگر جب سے میری شادی کی تاریخ ٹھہری ہے، بےبے کو ایک دم سے مجھے زبیدہ طارق پارٹ ٹو بنانے کا شوق چرایا ہے۔
سو آج کل میری سختی آئی ہوئی ہے، ہانڈی روٹی تو ہے ہی، ساتھ میں سلائی کی کلاس میں بھی داخلہ دلا دیا گیا ہے۔ بےبے کو سو بار یوٹیوب کی افادیت اور بازار میں شان مسالحہ کی بھرمار کی خبر گوش گزار کی، مگر نہیں صاحب، بےبے نے تو تہیہ کر لیا ہے کہ مجھے سگھڑ بنا کر ہی دم لیں گی۔ میری من مانی کی تمام کوششیں فیل کہ فوراً ہی ملکہ جذبات بنتے ہوئے ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آتی ہیں۔ کچھ میرا اپنا دل بھی میکے کی جدائی کے خیال سے رقیق ہے تو سب مل ملا کے بےبے کا رخشے سدھار پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔
میں یعنی رخشے کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ فیسبک اور واٹس ایپ کی بھی فرصت نہیں۔ ویسے میرا مشغلہ یوٹیوب پر معلوماتی فیچر اور ڈاکومنٹری دیکھنا ہے۔ مجھے ڈرامے اور فلموں سے کبھی بھی شغف نہیں رہا۔
شادی میری میرے تایازاد یعقوب سے طے ہوئی ہے، وہی بچپن کی منگ والا سلسلہ۔ یعقوب شارجہ میں ہوتا ہے۔ اس نے بھی پولی ٹیکنک کی پھر بی ٹیک (B Tec) کر کے پکا انجینیر صاحب بن گیا۔ شادی پر ایک ماہ کی چھٹی لے کر آ رہا ہے، بعد میں مجھے بھی بلا لے گا۔ اس کا خیال تو یہی تھا کہ نکاح پہلے ہی ہو جاتا تاکہ وہ کاغذات بنوا کر لاتا اور ہم ساتھ ہی شارجہ روانہ ہو جاتے پر تائی جی نے پسوڑی ڈال دی کہ ”نی ہائے نوں سسرال میں نہیں رہے گی۔ میری پہلی پہلی بہو ہے اور میں نے اپنے سو ارمان پورے کرنے ہیں۔“ لو جی میں تو ان کے ارمانوں پر واری گئی۔
سسرال سیالکوٹ میں ہے۔ یعقوب سے بڑی بہن باجی فرخندہ شادی شدہ اور اسی محلے میں، جہاں میری سسرال ہے، وہیں رہتی ہیں۔ یعقوب سے چھوٹا یوسف اور پھر نمرہ۔ شادی ہوئی اور میں سیالکوٹ سدھاری۔ سیالکوٹ کوئی اجنبی شہر نہیں تھا کہ تایا کے گھر کی وجہ سے یہاں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا کہ سب ہی اپنے لوگ تھے، محبتی اور مان والے۔
تین ماہ بعد میں شارجہ آ گئی۔ زندگی مصروف تھی۔ میری بلڈنگ میں ہندوستانی اور پاکستانیوں کی کثرت تھی، سو میں نے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کر دی اور میرا وقت بھی آسانی سے کٹنے لگا۔ دو سال بعد بھائی کی شادی پر پاکستان کا چکر لگا۔ میکہ سسرال سب جمع تھا اور گرما گرم موضوع میری خالی گود تھی۔ بےبے کچھ رنجیدہ اور ساس شمشیرِ برہنہ تھیں۔
یا اللہ!! یہ کیا ماجرہ ہے؟ بھلا ہو یعقوب کا، جس نے بخوبی اس کشیدہ صورت حال کو سنبھال لیا۔ بھائی کی شادی کے بعد بےبے مجھے آغا خان ہسپتال بھی لے گئی۔ سب رپورٹیں ٹھیک تھیں۔ ڈاکٹر نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ بھئی دو ہی سال ہوئے ہیں شادی کو! اس قدر واویلا کس لیے؟
میری واپسی شارجہ عافیت کے ساتھ ہوئی پر دل ذرا گھائل تھا۔ یہاں وہی روٹین کی مصروف زندگی پر اب اولاد کی کمی مجھے بھی کھٹکنے لگی تھی۔ یعقوب سے کہا تو اس نے کہا کہ اس بات کو سر پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں، جب مالک نے اولاد دینی ہو گی، ہو جائے گی۔ جو میسر ہے اس پر خوش رہو اور جو فی الحال نہیں اس کے آزار میں مبتلا ہونا غیر مناسب۔ میں یعقوب کی دل سے قدردان تھی اور اپنی خوش بختی پر نازاں بھی کہ اتنے سمجھدار اور کھلے ذہن کے انسان کا ساتھ نصیب تھا۔
پاکستان آنا جانا رہتا، ساس کے طعنوں تشنوں سے دل خراب ہوتا اور ہر بار یعقوب سنبھالا دیتے۔
میری شادی کے چھٹے سال ،نمرہ کی شادی پر پاکستان آنا ہوا، خیر سے شادی ہوئی اور نمرہ بیاہ کر لاہور گئی۔ تائی کی طبیعت خاصی خراب رہنے لگی تھی سو تایا نے یعقوب سے کہا کہ بہو کو کچھ عرصہ سسرال ہی رہنے دیا جائے تاکہ تائی کا دل بہلا رہے۔ نہ یعقوب اس بات کے ہامی تھے اور نہ ہی میرا دل راضی تھا پر کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی انکار ممکن نہیں ہوتا۔ یعقوب مجھے سمجھا بجھا کر شارجہ روانہ ہو گئے۔ میں بھی مقدور بھر تائی کی خدمت میں جت گئی۔
ایک دن تائی نے عصر کے بعد تیار ہونے کا کہا، میں نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ تو کہنے لگی مزار پر جانا ہے بچے کی منت مانگنے۔۔۔ میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کو لے کر گھر میں کافی تلخی ہوئی۔ تایا بھی کہنے لگے بھلی لوکے جب تائی کہہ رہی ہے تو، تو چلی جا۔ یعقوب سے اس مسئلے پر بات کی تو پہلی مرتبہ ان کے انداز میں جھلاہٹ تھی، کہنے لگے ”بھئی چلی جاؤ، اللہ تو نیتوں کا حال جانتا ہے۔ تم کچھ مت مانگنا.. بس ان کے ساتھ چلی جاؤ تاکہ ان کی تسلی ہو جائے۔“
مرتی کیا نہ کرتی چارو ناچار تیار ہو گئی۔ ان دس دنوں میں شاید ہی سیالکوٹ کا کوئی ایسا مزار تھا، جہاں ہم منت مانگنے نہیں گئے ہوں گے۔
سیالکوٹ کی تمام مزارات سے نپٹنے کے بعد ایک جمعرات تائی نے اعلان کیا کہ اب گجرات جائیں گی۔ وہاں ایک بہت ہی پہنچے ہوئے بزرگ کی مزار ہے اور وہ بہت حاجت روا و مشکل کشا( نعوذ باللہ) ہیں۔
میں نے نہ ہی زیادہ غور کیا اور نہ صاحبِ مزار کی تفصیل پوچھی، یوں بھی اگلے مہینے مجھے شارجہ روانہ ہونا تھا، سو میں مزید کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ بس سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا اور مزار پہ لوگوں کا اژدھام تھا۔
او میرے خدا!!! یہ کیسی مخلوق تھی! عجیب خلقت کے بچے، چھوٹے چھوٹے نوکیلے سر، منہ سے بہتی رال، نا سمجھ میں آنے والی زبان، سبز کفنی گلے میں ڈالے لوگوں سے سوال کرتے ہوئے بےشمار کم عمر بچے۔۔۔ میرا تو دہشت سے دم حلق میں آ گیا اور میں تائی کے ساتھ بلکل جڑ کے چل رہی تھی۔
واپسی پر ایک بچے نے بھیک کے لیے میری چادر کھینچی اور میرے منہ سے بےاختیار چیخیں نکلتی چلی گئیں۔ میں بلکل بدحواس ہو چکی تھی اور گھر پہنچتے ہی مجھے ہلہلا کے بخار چڑھ گیا۔ باجی فرخندہ بتاتی ہیں کہ میں سوتے میں چیخ مار کے اٹھ جایا کرتی تھی۔ کوئی تین چار دن بعد میری طبیعت قدرے سنبھلی مگر میں اس قدر وحشت زدہ ہو چکی تھی کہ میں نے کراچی کی ضد پکڑ لی۔ تائی نے اس چادر کے کھینچے جانے کو نیک شگون جانا مگر میری تو حالت خراب تھی۔ پھر تایا نے مجھے جہاز پہ بٹھا کر کراچی روانہ کر دیا۔
کراچی ایک ہفتے قیام کے بعد میں شارجہ آ گئی۔ اپنے گھر آ کر مجھے سکون ملا، پھر ان عجیب الخلقت بچوں کے متعلق میں نے کمپیوٹر پر سرچ کیا تو عجیب ہوشربا حقیقت سامنے آئی۔
یہ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ دریائی گنج بخش کا مزار ہے۔ یہ اپنے دور کے سماجی کارکن تھے۔انہوں نے 1620ع میں سکھ سردار ہرگوبن سنگھ کے حملے میں گجرات کا دفاع کیا اور ہرگوبن سنگھ کو شکست دی۔ انہوں نے معذور بچوں (ایسے بچے، جن کی معذوری کی وجہ سے ماں باپ ان کو اپنانے سے انکار کر دیتے تھے) کی پرورش کے لیے ادارہ بنایا تھا۔ ان سے ایک یہ روایت بھی جوڑی گئی ہے کہ مہارانی، جس کے یہاں اولاد نہیں تھی، اس نے دعا کی درخواست کی اور شاہ صاحب نے شرط رکھی کہ پہلی اولاد اگر اولاد نرینہ ہوئی تو ملکہ وہ اولاد شاہ صاحب کے نذر کر دے گی۔ اس شرط پر ملکہ راضی ہو گئی۔ اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ ملکہ کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی اور ملکہ بیٹا نذر کرنے سے منکر ہوگئی۔ بس اس کے بعد ملکہ کے جتنے بچے ہوئے سب کے سر چھوٹے اور چوہے سے مشابہ ہوتے تھے۔
یہ گھڑی ہوئی کہانی ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب یہ ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں آنے والے اپنی دعا کے قبول ہونے کے عوض اپنی پہلی نرینہ اولاد مزار کو دان کر دیتے ہیں۔ مزار کے کارندے بچپن میں ان معصوم بچوں کے سر پر آہنی خود کس دیتے ہیں، جس سے سر کی نشونما رک جاتی ہے اور دماغ develop نہیں ہو پاتا۔ بچے کا جسم تو عمر کے مطابق بڑھتا ہے مگر دماغ کی نشونما رک جاتی ہے۔
اس وقت دس ہزار سے زیادہ بچے شاہ دولے کے چوہے کے روپ میں ملک بھر میں سپلائی کیے گئے ہیں۔ ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے اور کمزور عقیدے کے لوگ ان کو بابرکت اور مستجاب الدعا سمجھتے ہیں۔
1960ع میں حکومت نے یہ مزار سرکاری تحویل میں لے کر ایسے بچوں کے لینے پر پابندی لگا دی تھی، مگر آج بھی یہ کاروبار جاری و ساری ہے۔
یہ سب کچھ پڑھ کر تو میرا دماغ چکرا گیا۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، میں نے سمجھا کہ یہ ریسرچ میری طبیعت پر اثر انداز ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے دوسری ہی خبر دی۔ اس خوش خبری کو سنتے ہی مجھ پر شادی مرگ طاری ہو گئی۔ برسوں بعد اللہ تعالی نے اپنا فضل کیا تھا اور ہماری آرزو ثمر بار ہونے والی تھی۔ ہم دونوں بہت خوش تھے مگر نہ جانے کیوں مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ ایک انجانا سا خوف بھی تھا۔
تائی کو خبر ملی تو فون پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا مگر ان کے آخری جملے نے میری جان نکال دی، کہنے لگیں ”دیکھا شاہ دولے کی کرامت“
میں راتوں کو پھر سے سوتے میں ڈرنے لگی، اکثر چیخ مار کے اٹھ جاتی اور جسم کی کپکپاہٹ دور نہ ہوتی۔ میری طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور وزن بجائے بڑھنے کے گرنے لگا تھا۔ یقعوب پریشان ہو کر مجھے کراچی لے آئے ۔ سیالکوٹ سے ساس بھی آ گئیں اور دونوں ماؤں نے مل کر میری خوب خاطر داریاں اور دلداری کی۔ میں بہل گئی اور صحت بحال ہونے لگی۔ تائی نے واپس جاتے ہوئے تاکید کی کہ ساتویں مہینے سے پہلے سیالکوٹ آ جاؤں کہ زچگی وہیں ہو گی۔ میرا دل بلکل نہیں تھا مگر میں نے نہ ہاں کی اور نہ ہی نا۔ بےبے بھی تائی کی ہمنوا تھیں کہ تائی کے گھر کی پہلی خوشی ہے سو ان کا مان رکھو۔ میں نے بےبے سے وعدہ لیا کہ وہ بھی ڈیلوری کے قریب آ جائیں گی۔ بےبے کے اقرار پر میں سیالکوٹ آ گئی۔
سب کچھ ٹھیک رہا، بےبے بھی وقت پر پہنچ گئیں اور میں خیر و عافیت سے اس مرحلے سے پار لگ گئی۔ اللہ تعالی نے بیٹا دیا۔ حسبِ حثیت خوشیاں بھی منائی گئیں۔ جانے کیوں مجھے بچے کا سر چھوٹا لگتا تھا اور اسے دیکھ کر ساس بھی کچھ گم سم سی ہو گئی تھیں۔ بےبے کو فوراً کراچی واپس جانا پڑا کہ ابا کا دکان جاتے ہوئے معمولی سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔
میں نے کراچی میں اپنے بھائی سے کہہ کر چائلڈ اسپیشلسٹ سے وقت لینے کا کہا۔ یعقوب اس ماہ کے آخر میں مجھے لینے آنے والے تھے۔ ہمیں کراچی میں پانچ دن رکتے ہوئے شارجہ جانا تھا۔
حسنات کی چھٹی سے پہلے نمرہ بھی لاہور سے آ گئی تھی اپنے بھتیجے کی خوشی میں شرکت کے لیے۔ حسنات کوئی دس دن کا تھا، اس دن ناشتے کے بعد تائی جی نے مجھے دودھ پینے کے لیے دیا اور کہنے لگی کہ تم آرام کرو۔۔ وہ حسنات کو دوسرے کمرے میں لے جا رہی ہیں اور مالش کے بعد اس کو نہلا کر میرے پاس لے آئیں گی۔
میں دودھ پی کر لیٹ گئی، عجب مدہوشی سی طاری ہو رہی تھی۔ مجھے نہیں پتہ کہ کتنی دیر گزری پھر میری آنکھیں نمرہ کے جھنجھوڑنے پر کھلی۔ وہ چیخ چیخ کر کچھ کہی رہی تھی اور میں بلکل بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے؟
جب وہ مسلسل حسنات حسنات چیختی رہی تو مجھے گویا بجلی کا جھٹکا لگا۔۔۔ میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
نمرہ کہہ رہی تھی ”بھابھی!! امی حسنات کو لے کر شاہ دولے کے مزار گئی ہیں، آپ اٹھیے اور انہیں روکیں۔“
میں ننگے سر اور ننگے پیر باہر کی جانب دوڑی۔ نمرہ نے لپک کر مجھ پر چادر ڈال دی اور مجھے پرس پکڑا دیا۔ خوش قسمتی سے مجھے فوراً رکشا مل گیا اور میں نے اس کو بس اڈے چلنے کہا۔ میرے دل میں پنکھے لگ گئے اور میں رکشے والے کی منت ترلے کر رہی تھی کہ بھائی رکشہ تیز چلاؤ ۔ رکشے والا بیچارا بھی میری حالت سے گھبرا گیا تھا۔ میری بس ایک ہی دعا تھی کہ ابھی بس روانہ نہ ہوئی ہو اور وہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ میں جیسے ہی بس ٹرمنل پر پہنچی میں نے دیوانہ وار بسوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔
مجھے تائی کی سرمئی چادر کی جھلک، قطار میں لگی تیسری بس میں نظر آ گئی۔ میں بس میں چڑھی اور جھپٹ کر حسنات کو ان کی گود سے لے لیا۔ تائی نے مزاحمت نہیں بس حق دق مجھے دیکھتی رہیں۔ اتنے میں بس ٹرمنل میں پتہ نہیں کیسے تایا اور یوسف بھی آ گئے۔ تایا نے کہا ”دھیئے گھر چل“
میں روتی جاؤں اور ایک ضد کہ نہیں مجھے کراچی جانا ہے۔ اس اثناء میں ہمارے اطراف لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ تایا نے مجھ سے کہا کہ ٹھیک ہے چلو ہوائی اڈے چلتے ہیں۔ میں خود تم کو کراچی چھوڑ کر آؤں گا۔ یوسف نے ہم دونوں کو ایئرپورٹ اتار دیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی تایا نے نمرہ کو کال کر کے میرا ضروری سامان، چپل اور خاص کر پاسپورٹ تیار رکھنے اور یوسف کے ہاتھوں ایئرپورٹ بھیجنے کی تاکید کی۔
تایا کا چہرہ ضبط کی کوشش میں بلکل سرخ ہو رہا تھا۔ ایئرپورٹ پر تایا ٹکٹ وغیرہ خرید کر فارغ ہوئے اور مجھے بتایا کہ تین گھنٹے کے بعد فلائٹ ہے۔ پھر تایا نے ہاتھ جوڑ کے مجھ سے معافی مانگی۔ میں کیا جواب دیتی سر جھکائے روتی رہی۔ یوسف گھر سے میرا سامان بھی لے آیا اور ہم لوگوں کے لیے چائے اور سینڈوچ بھی ،کھا کر کچھ دم میں دم آیا۔
جب جہاز نے سیالکوٹ کا رن وے چھوڑا تو پہلی بار میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
گھر پہنچ کر میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا مگر میرا حلیہ اور بے وقت کی آمد نے بےبے کو حیران و پریشان کر دیا تھا۔ تایا نے تابندہ کو کہا کہ فون کر کے دوکان سے ابے کو بلا لے۔ ابا کے آنے کے بعد تایا نے دونوں کو ساری روداد سنائی اور دست بستہ معافی بھی مانگی۔
میرے گھر سے نکلتے ہی نمرہ نے تایا جی کو فون کر دیا تھا۔ اس دن تایا جی اور آفتاب زمینوں پر جا رہے تھے اور اللہ کی کرنی کہ ٹائر پنکچر ہو گیا اور اتفاق کہ اسٹپنی بھی پنکچر شدہ تھی اس وجہ سے ان لوگوں کو شہر سے نکلنے میں دیر ہو گئی اور وہ دونوں بروقت بس اڈے پہنچ گئے۔
دوسرے دن صبح صبح تایا جی واپس سیالکوٹ چلے گئے۔ تایا جی نے کہا ”دھیئے میں خود یقعوب سے بات کر لوں گا۔“
ہم لوگ حسنات کو لیکر چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس گئے اور حسنات کے سر کے سائز پر ڈاکٹر نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا آپ دورانِ حمل ذہنی دباؤ یا پریشانی کا شکار رہی تھیں؟ میں نے اسے ساری رام کہانی سنا دی۔ وہ حیران تھی کہ اب بھی جہالت کا یہ عالم ہے؟ اب بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے؟
اس نے حسنات کے دو تین ٹسٹ لکھے اور مجھے اطمنان دلایا کہ حتمی صورت حال تو ٹسٹ کی رپورٹس آنے کے بعد ہی پتہ چلے گی پر اس کا تجربہ بتاتا ہے کہ خدانخواستہ خطرے کی کوئی بات نہیں اور حسنات کے دماغ کی گروتھ نارمل ہوگی۔
تیسرے دن ہم لوگوں کو شارجہ فلائی کرنا تھا مگر میں نے یعقوب سے کہا کہ پلیز آپ چلے جائیں، میں مکمل اطمینان کے بعد ہی شارجہ آؤں گی۔ رب کریم کا احسان کہ حسنات کی تمام رپورٹس ٹھیک تھیں۔
آج حسنات پانچ سال کا ہے اور بالکل نارمل اور صحت مند۔۔ اس کے بعد میری دو سال کی بیٹی ہے کنزا، اس کا بھی سر نارمل ہے، چھوٹا یا چوہے جیسا نہیں۔ ہم لوگ ہر سال چھٹیوں میں سیالکوٹ جاتے ہیں۔ حسنات اپنی دادی کی آنکھوں کا تارا ہے۔
نمرہ بتاتی ہے کہ اس دن گھر میں بہت طوفان اٹھا تھا، تایا تائی کو ان کے میکے بھیجنے کے درپے تھے اور بڑی مشکلوں سے باجی فرخندہ اور یعقوب نے تایا کو راضی کیا۔ تائی بھی بہت شرمندہ ہیں اور شکر کہ اپنی جہالت سے تائب بھی ہو چکی ہیں۔
میں یہی ظاہر کرتی ہوں کہ سب ٹھیک ہے مگر بخدا سیالکوٹ کا سفر میرے لیے بہت ہی صبر آزما اور اعصاب شکن ہوتا ہے۔ میں حسنات کو لمحے بھر کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی، کیا کروں۔۔ ماں کا دل ہے، وہم جاتا ہی نہیں۔۔ اللہ ہم لوگوں کا ایمان مضبوط رکھے اور شرک سے بچائے آمین۔