ایران سے متعلق ناروے میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم (آئی ایچ آر) نے 7 جون منگل کے روز یہ اطلاع دی کہ ایران نے اپنی جنوب مشرق کی ایک جیل میں بارہ قیدیوں کو اجتماعی طور پر پھانسی دے دی
موت کی سزا پر یہ عمل ایک ایسے وقت ہوا ہے، جب ایران میں پھانسیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے
جن افراد کو پھانسی دی گئی ان میں گیارہ مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔ ان سب کو بظاہر یا تو منشیات سے متعلق یا پھر قتل کے الزامات میں سزائیں سنائی گئی تھیں
ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کے مطابق ان سب کو 6 جون پیر کی صبح افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے قریب صوبہ سیستان بلوچستان کی زاہدان کی مرکزی جیل میں پھانسی دی گئی
آئی ایچ آر کے بیان کے مطابق جن افراد کو موت کی سزا دی گئی، ان سب کا تعلق ملک کی اقلیتی بلوچ نسل سے تھا، جو بنیادی طور پر ایران میں غالب شیعہ مذہب کے بجائے اسلام کے سنی عقائد کو مانتے ہیں
بارہ میں سے چھ کو منشیات سے متعلق الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جبکہ چھ کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ تاہم ان پھانسیوں سے متعلق ایران کے کے کسی بھی میڈیا ادارے نے اطلاع نہیں دی اور نہ ہی ایران میں حکام نے اس کی تصدیق کی
لیکن ایران میں ایک ممنوعہ تنظیم ’دی نیشنل کونسل آف ریزسٹنٹ آف ایران‘ (این سی آر آئی) نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیر کی صبح زاہدان میں بارہ افراد کو پھانسیاں دی گئی ہیں
ایران ہیومن رائٹس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، جس خاتون کو پھانسی دی گئی، ان کی شناخت صرف ان کی ذات ‘گورگیج’ سے کی گئی ہے۔ انہیں اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور پہلی بار سن 2019ع میں گرفتار کیا گیا تھا
انسانی حقوق کے کارکن ایک طویل عرصے سے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ایران میں سزائے موت دینے میں غیر متناسب طور پر ایران کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے تحت شمال مغرب میں کردوں کو جبکہ جنوب مغرب میں عرب نسل کے لوگوں کو اور جنوب مشرق میں بلوچ نسل کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے
آئی ایچ آر کا مزید کہنا ہے ”ایران ہیومن رائٹس کے جمع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2021ع میں جو تمام پھانسیاں دی گئیں، اس میں بلوچ قیدیوں کا حصہ 21 فیصد تھا، جب کہ ایران کی آبادی میں ان کی نمائندگی صرف دو سے چھ فیصد تک ہی ہے۔ اس طرح یہ ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے
ایرانی رہنماؤں کو اس وقت ملک میں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر مظاہروں کا سامنا ہے اور اس پس منظر میں پھانسیوں کے حالیہ اضافے پر بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے
این سی آر آئی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ‘”بڑھتے ہوئے عوامی مظاہروں کا سامنا کرتے ہوئے، مذہبی علما پر مبنی حکومت نے جبر اور قتل کو تیز تر کر دیا ہے۔ اس نے پھانسیاں دینے میں ایک بے مثال ریکارڈ قائم کیا ہے“
آئی ایچ آر کے مطابق گزشتہ برس ایران میں کم از کم 333 افراد کو پھانسی دی گئی تھی، جو 2020ع کے مقابلے میں تقریباً 25 فیصد کا اضافہ ہے
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں سزائے موت پر عمل سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سن 2021ع میں سزائے موت پر 28 فیصد زیادہ عمل ہوا اور 314 افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔ تاہم تنظیم نے متنبہ کیا کہ یہ تعداد حقیقی تعداد سے ممکنہ طور پر بہت کم ہے
ایمنسٹی کا کہنا تھا، ”مبہم قسم کے الزامات کے لیے نسلی اقلیتوں کے ارکان کے خلاف موت کی سزاؤں پر غیر متناسب عمل کیا گیا ہے اور اسے سیاسی جبر کے آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے“