ضلع شکارپور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے، جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے
یہ مسجد کھیرتھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریکِ آزادیٔ ہند کی اہم یادگار بھی ہے
ایک موقع پر اسی مسجد نے دینِ اسلام پر مَر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کی سچی آرزو کو بھی دیکھا ہے
اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کی علامت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے
کھیرتھر کینال کے بہتے پانی کے درمیان آج جو چھ کھمبوں والے پل کے ساتھ جڑی یہ مسجد نظر آتی ہے سو سال پہلے 1922ع میں، یہاں کوئی نہر نہیں تھی اور یہ مسجد زمین پر تعمیر کی گئی تھی
1922ع میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہی ساتھ کھیتوں کی سیرابی کے لئے اور بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے سکھر بیراج سے پانی کی راہداری کے طور پر کھیرتھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی
اُس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیرتھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے اسے شہید کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، لیکن علاقے کے جیّد عالمِ دین اور سیاسی، سماجی، مذہبی و انقلابی رہنما مولانا تاج محمد امروٹی نے کینال کا رخ تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا
لیہن انگریز حکومت مسجد کو شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکی تھی۔
انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نے متعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان کے سامنے رکھا، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا
تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ مولانا امروٹی نے ایک پوسٹر شائع کیا اور لوگوں سے مسجد کے ارد گرد جمع ہونے کی اپیل کی
ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور
ایک ایسی دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی
کہتے ہیں کہ انگریز کلکٹر نے مولانا سے بحث کرتے ہوئے کہا، آپ کا خدا اپنا گھر بچانے خود کیوں نہیں آتا؟ گویا یہ دھمکی تھی کہ مسجد گرانے کا فیصلہ ہوچکا ہے مولانا امروٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اگر کوئی آپ کے کلکٹر دفتر پر حملہ کرنے آئے، تو کیا آپ کا بادشاہ جورج خود آکر لڑے گا یا آپ لڑیں گے؟ گویا مولانا کی طرف سے کلکٹر کو واضح پیغام تھا کہ مسجد کو شہید ہونے سے بچانے کے لئے، ہم مسلمان اس کے محافظوں کی صورت میں موجود ہیں
مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی
مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ کو بلآخر اپنا فیصلہ بدلنا پڑا
کلکٹر نے حکم دیا کہ مسجد کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیرتھر کینال کے ساتھ ہی ساتھ، مسجد کا بھی ڈیزائن تیار کیا، اس طرح کہ نہر کے ساتھ ساتھ مسجد دونوں بچ گئیں
کھیرتھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور یوں مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے
یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس تک 6 ستونوں پر کھڑے چھوٹے پل سے پہنچا جا سکتا ہے
یہ مسجد والی عمارت مسجد کے اندر ٹائلوں کے خوبصورت کام کے ساتھ، ہر ایک کو حیران کر دینے والی، دیکھنے لائق مسجد ہے
اس طرح شکارپور ضلع میں امروٹ گاؤں کے قریب واقع یہ پانی والی مسجد 1947ع میں برطانوی سلطنت سے، آزاد ہونے کے لئے ایک اہم تاریخی علامت بن گئی
امروٹ شریف میں بہتی نہر کے بیچ قائم ”پانی والی مسجد“ کو جدوجہد آزادی میں تاریخی حیثت حاصل ہے۔ یہاں سے انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی کی بنیادیں فراہم ہوئیں جہاں علم و عرفان اور دانش مندی کے وہ ستارے اُبھرے، جنہوں نے آگے چل کر تحریک آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا
اس مسجد کے ذکر کے ساتھ مولانا تاج محمود امروٹی کا نام ضرور آتا ہے، جنہوں اس مسجد کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ مولانا تاج محمد امروٹی نے اپنی ساری زندگی اسلامی تبلیغ اور عوام کی فلاح کے کاموں میں وقف کردی۔ انہوں نے نہ صرف دینی درس و تدریس بلکہ سیاسی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر ”تحریکِ خلافت“، ”تحریکِ ہجرت“، ”تحریکِ ترک الموالات“ اور ”تحریکِ ریشمی رومال“ میں بھرپور حصہ لے کر انہیں کامیاب بنایا۔ انہی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث امروٹ شریف کو اُس وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز مانا جانے لگا تھا۔ مولانا تاج محمود نے ”جمعیت علمائے ہند“ نامی مذہبی اور سیاسی جماعت بھی بنائی۔ اس وقت بمبئی پریزیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی کے حوالے سے ان کی جدوجہد بھی قابل ذکر ہے۔ اس سلسلے میں انہوں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد بھی منظور کرائی تھی۔ انہوں نے آزادی کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہمیشہ انگریز سامراج کے خلاف برسر پیکار رہے۔ جب تحریک خلافت شروع ہوئی تو آزادی کی خاطر وہ کلکتہ، بمبئی اور علی گڑھ تک جا پہنچے۔ تحریکِ خلافت کے دوران مولانا تاج محمود امروٹی اور رئیس جان محمد جونیجو کی جان توڑ کوششوں کے باعث لاڑکانہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد کرائی گئی، جس میں برصغیر کے عظیم رہنماؤں سمیت مہاتما گاندھی نے بھی شرکت کی تھی، جہاں ایک عظیم الشان جلسہ کیا گیا۔ تحریکِ خلافت سمیت دیگر تحریکوں میں شکارپور کی ہی دو عظیم مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات مولانا دین محمد ”وفائی“ اور مولانا عبدالکریم ابڑو ”چشتی“ سرگرم کارکن ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ مولانا تاج محمود امروٹی کے شانہ بہ شانہ رہے۔