پاکستان میں ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض حسین کے خاندان نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این ایس اے) اور حکومتِ پاکستان کے درمیان لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں ان کے خاندان کے 19 کروڑ پاؤنڈز (50 ارب روپے) مالیت کے اثاثوں کی ریکوری سے متعلق ’خفیہ‘ معاہدے کا انکشاف کرنے پر تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے
برطانیہ کی قانونی فرم کنگسلے نیپلے ایل ایل پی نے اپنے مؤکل (ملک ریاض کے اہلِ خانہ) کی جانب سے جاری بیان میں کہا کہ نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے خاندان کے درمیان خفیہ معاہدے کی تفصیلات جاری کی گئیں، جو قابلِ افسوس ہے
بیان میں کہا گیا 6 نومبر 2019 کو طے پانے والے خفیہ معاہدے میں دو اہم نکات کا ذکر کیا گیا تھا
پہلے نکتے کے مطابق نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے کچھ بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات غیر مشروط طور پر واپس لینا تھا، جو حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل کرائم ایجنسی کو لکھے گئے خط جس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی جانب سے 2007 میں جائیداد کے حصول اور اس کے بعد ملک ریاض کے بیٹے کو 2016 میں فروخت کرنے کا حوالہ دیا گیا تھا، کے بعد نیشنل کرائم کرائم ایجنسی نے برطانیہ کے متعدد بینک اکاؤنٹس کے لیے حاصل کیے تھے
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی ہدایت پر ملک ریاض کے کاروبار، بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ پر واجب الادا قرض کے بدلے ان بینک اکاؤنٹس کے مواد کی ادائیگی کی جائے
خفیہ معاہدے میں ایک ہائیڈ پارک پلیس کی فروخت اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو اسی قرض کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کا بھی ذکر کیا گیا تھا
بیان میں کہا گیا کہ نیشنل کرائم ایجنسی کو اس عمل کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے رازداری کی بھی ’ضرورت‘ تھی اور معاہدے اور حکومت نے متعلقہ معاہدے اور اس سے منسلک معلومات دونوں کو خفیہ رکھنے کا وعدہ بھی کیا تھا
بیان میں کہا گیا کہ ’خاندان اس عمل کو قابل افسوس سمجھتا ہے کہ حکومت پاکستان نے اپنے ہی وعدے کی خلاف ورزی کی ہے، جو انہوں نے نیشنل کرائم ایجنسی اور دیگر فریقین دونوں سے کیا تھا‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ خاندان نے اس بات پر زور دیا کہ معاہدہ ایک سول معاملہ تھا اور یہ جرم کی تلاش کی نمائندگی نہیں کرتا تھا، اور اس پر عوامی مفاد کے لیے کیا گیا تھا
یاد رہے کہ دسمبر 2019 میں نیشنل کرائم ایجنسی نے 19 کروڑ پاؤنڈز کا تصفیہ قبول کیا تھا، جس میں برطانیہ کی ایک پراپرٹی ون ہائیڈ پارک ڈبلیو ٹو ٹو ایل ایچ، لندن شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈز تھی اور اس کے علاوہ اس میں ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں موجود تمام فنڈز شامل تھے۔
نیشنل کرائم ایجنسی کو 10 کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ رقم کے حامل 8 بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئےتھے، جن پر شبہ تھا کہ یہ بیرون ملک میں رشوت اور بدعنوانی سے حاصل کیے گئے تھے۔
دسمبر 2018 میں ہونے والی سماعت کے بعد اس سے منسلک ایک فرد کے پاس موجود 2 کروڑ پاؤنڈز منجمد کردیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ مارچ 2018 کے اوائل میں جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی۔