انسان بچت سے کبھی امیر نہیں ہوتا، ہاں فضول خرچی سے اور بغیر کمائے کھانے سے غریب ضرور ہوسکتا ہے
آپ اگر ٹیکسی کا کرایہ بچا کر بس میں سفر کرلیں، کپڑے ضرورت سے کم خریدیں یا بچوں کی تعلیم پر سمجھوتہ کریں یا کم غذائیت کا کھانا کھائیں یا پھر ڈاکٹر سے علاج کے پیسے بچائیں اور دوا کے بجائے صرف دعا پر گزارا کریں تو امیر نہیں ہوں گے، بس گزارا کرلیں گے
اگر آپ کی آمدن اخراجات سے کم ہے تو اس سے نمٹنے کے دو ہی طریقہ کار ہیں۔ ایک یہ کہ آمدن کو بڑھایا جائے اور دوسرا یہ کہ اخراجات کم کرلیے جائیں۔ دوسرا طریقہ شروع میں تھوڑا آسان ہے، ایک ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی ہے اور بعد میں کٹھن۔ کیونکہ جن ضروریات اور آسائشوں کی عادت آپ کو ہے، آپ کب تک ان سے صبر کرلیں گے؟ کب تک ’’پرہیز‘‘ کا بہانہ کرکے پیزا چھوڑیں گے؟ کچھ خاص وقت بعد یہ کہہ کر کہ ’’ایسے پتہ نہیں کب تک چلے گا‘‘ آپ صبر کا دامن چھوڑ دیں گے اور دوبارہ اپنے طریقہ پر آجائیں گے
پہلا طریقہ آمدن بڑھانے کا ہے۔ اس کےلیے نیا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ محنت کرنی پڑے گی اور وقت دینا پڑے گا۔ چونکہ یہ طریقہ تھوڑا مشکل ہے اور آمدن بھی ایک خاص وقت کے بعد ہی ہوگی، اس لیے مختصر حکمت عملی میں فضول خرچی ختم کرنا اور بچت کرنا ہی ہے۔ یہ مختصر پالیسی کا دورانیہ اس وقت ختم ہوجائے گا جب آپ کا دوسرا ذریعہ آمدن کچھ دینا شروع کرے گا یا موجودہ آمدن بڑھ جائے گی۔ اس وقت تک چونکہ لانگ ٹرم پالیسی میں اپنے ذرائع آمدن بڑھانا ہی ہے۔ معیشت کا یہ سادہ اصول بالکل سادہ سے شہری سے لے کر معاشیات کے ماہرین تک کو پتہ ہے وہ یہ کہ اپنی توانائی آمدن بڑھانے پر صرف کی جائے نہ کہ اخراجات کم کرنے پر۔۔۔
اگر انفرادی معیشت سے نکل کر میکرو اکنامکس کی بات کریں تو ملکی سطح پر بھی ہوبہو یہ ہی منطق ہے
ہماری درآمدات (اخراجات) چونکہ برآمدات (آمدن) سے زیادہ ہیں تو اس لیے ہمارا اکاؤنٹ خسارے میں ہے۔ اکاؤنٹ میں پیسے نہیں تو باہر سے ضروری اشیاء مثلاً ایندھن، ادویہ، غذا وغیرہ بھی نہیں منگوا سکتے۔ اس کے بھی دو حل ہیں کہ درآمدات کم کرنا اور برآمدات بڑھانا۔ اس کا حل ہمارے اہل اقتدار نے بھی بچت ہی نکالا ہے، یعنی درآمدات کم کی جائیں جبکہ برآمدات کو بڑھانا اک شجر ممنوع ٹھہرا ہے
احسن اقبال نے تو بچت کے لیے چائے کو چن بھی لیا ہے۔ لیکن یہ ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی بھی جزوی قابل عمل ہے۔ اور اگر نظر دوڑائی جائے ہمارے درآمدات اور برآمدات پر تو چائے کم از کم پہلی دس اشیاء میں تو آتی ہی نہیں، کوئی سولہویں نمبر پر ہے اور تقریباً 800 ملین ڈالر سالانہ ہمارے خزانے سے نکالتی ہے اور 22 کروڑ عوام میں سے تقریباً 90 فیصد لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ درآمدات ڈیٹا میں گاڑیاں جو کہ سالانہ 3.3 بلین ڈالر کی ہیں اور اس سے صرف 2 فیصد براہ راست اور زیادہ سے زیادہ 10 فیصد لوگ متاثر ہوں گے
اس کے بعد موبائل فونز کا نمبر ہے، جو کہ ڈھائی بلین ڈالر کے آتے ہیں۔ ان کے متاثرین کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں لیکن یہ چائے نوشوں سے خاصی کم ہی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہینڈ بیگز، کپڑے، جوتے، کتوں بلیوں کی خوراک اور بہت کچھ جو کہ صرف اور صرف فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیا ہم ان کی برآمدات پر پابندی لگا کر اپنا کام آسان نہیں کرسکتے، جو کم از کم ثانوی ضروری اشیاء میں آتی ہیں اور کچھ حصہ فضول خرچی میں بھی؟ اگر حکومتی ذمے داران، بچت پالیسی کے ساتھ ساتھ معاشی پالیسی کا اعلان بھی کردیتے اور برآمدات کےلیے بھی کوئی چیز چن لیتے، جیسے چائے، تو بہت بہتر تھا۔ یا کم از کم یہ معاشی پالیسی پر کام شروع کرنے کی ہی نوید سنا دیتے
آپ درآمدی اشیاء کا متبادل لوگوں کو کیا دیں گے؟ کیا ہمارے پاس اپنی چائے کاشت کرنے کا کوئی پلان ہے؟ ہم کب تک خود موبائل فونز اور گاڑیاں خود بنا پائیں گے؟ یہ پابندیاں اور بچتیں کب تک چلیں گی؟ کب تک لوگ چائے کے بغیر، پرانے موبائل اور گاڑی کے ساتھ رہ پائیں گے؟ کب تک اپنی پسند کے کپڑے جوتوں کے بغیر گزارا کریں گے جبکہ وہ انہیں خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں۔ حب الوطنی میں یہ روزہ کب تک نبھے گا؟ ان کا صبر ٹوٹے گا اور اسمگلنگ کا بازار گرم ہوجائے گا۔ حکومت ان اشیاء پر حاصل ہونے والے ٹیکس سے بھی ہاتھ دھوئے گی اور ڈالرز بھی جیب سے اڑ جائیں گے
تو بچت کی پالیسی کو وقتی طور پر اہمیت دیجئے۔ بچت سے پہلے فضول خرچیوں کو روکیے۔ اور اس میں پہل بھی حکومت کرے۔ مگر کچھ لمبے عرصہ کی پالیسی بھی بنائیے۔ ملک میں پراپرٹی کے علاوہ بھی کاروبار پر توجہ دیجئے۔ سستی توانائی دیجئے۔ انجینئرنگ کے کام کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ ماڈرن ایگریکلچر کی طرف آئیں اور ایک لمبی معاشی پالیسی دیں تاکہ آنے والے دس، پندرہ سال میں پاکستان کم از کم دیوالیہ کے خطرہ سے نکل سکے۔ کیونکہ بچت سے نہ تو کوئی انفرادی شخص کبھی امیر ہوا ہے اور نہ ہی قومیں، ہاں فضول خرچی سے اور بغیر کمائے کھانے سے غریب ضرور ہوسکتا ہے
بشکریہ: ایکسپریس نیوز