ہم جب بھی ایلیٹ کلاس کا ذکر کرتے ہیں تو ذہن میں مختلف مہنگے برینڈ، گاڑیاں اور دولت کی بےتحاشہ نمائش کا خیال آتا ہے۔ لیکن اس کتاب میں ایک انوکھی کلاس کا ذکر ہے، جس نے ایلیٹز کا اسٹینڈرڈ امیج ہی پلٹ کر رکھ دیا ہے
یہ کتاب ایسپریشنل کلاس کے متعلق سوشیالوجسٹ الیزبتھ ہلکٹ کی ریسرچ پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ریسرچ خصوصاً امریکہ کی ایسپرشنل کلاس پر ہوئی ہے لیکن الیزبتھ کا ماننا ہے کہ یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے، کلچر مختلف ہونے پر چیزوں کی چوائس مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ان کے مقاصد اور ویلیوز ایک ہی ہیں۔ اس بار تفریق محض اکنامک نہیں ہے، اس بار کلچرل کیپیٹل cultural capital (اس میں عقل و شعور، کمیونیکیشن، ایجوکیشن، شخصیت، سوچ وغیرہ شامل ہیں) زیرِ بحث ہے۔
الیزبتھ نے تھورسٹین ویبلن کی کتاب ”تھیوری آف لیژر کلاس“ جو ۱۸۸۹ میں اس وقت کی ایلیٹ کلاس کی خرچ کرنے کی عادات (consumption) کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے لکھی گئی تھی، سے متاثر ہوکر اکیسویں صدی میں موجود نئے ایلیٹز یعنی اسپریشنل کلاس کے لائف اسٹائل سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ الیزبتھ اسے “کریٹو کلاس” بھی کہتی ہیں۔
کتاب، خرچ کرنے کی دو اقسام کے گرد گھومتی ہے:
1- conspicuous consumption
2- inconspicuous consumption
انڈسٹریلائزیشن سے پہلے مہنگی اشیاء یا محض اشیاء خریدنے کی حیثیت صرف لیژر کلاس کی تھی، اس وقت امیر طبقے کے پاس اپنی کلاس کی نمائش کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ لیکن انڈسٹریلائزیشن کے بعد وہ چیزیں جو کبھی کسی ایک طبقے تک محدود تھیں اب تقریباً سب کی پہنچ میں ہیں۔ اشیاء کی نمائش اب اسٹیٹس سمبل نہیں رہی۔ ہلکٹ کے پاس موجود ڈیٹا کے مطابق اس وقت امریکہ کی مڈل کلاس conspicuous consumption کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ جبکہ ٹاپ 1%, 5%, 20% کلاس کی خرید و فروخت کے پیٹرن میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ان کا رجحان inconspicuous consumption کی طرف دیکھا گیا ہے، حتیٰ کہ ان کی اشیاء خریدنے کی سکت مڈل کلاس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
الیزبتھ کی ریسرچ کے مطابق ایسپریشنل کلاس میں محض وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ایلیٹ یا امیر طبقے میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مالی طور پر زیادہ رئیس نہیں (اپر مڈل کلاس کہہ سکتے ہیں) لیکن ثقافتی اعتبار سے بہت امیر ہے۔ اور یہی کلچرل کیپیٹل اس نئی کلاس کو ایلیٹ کلاس کے ساتھ ملاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بل گیٹس جو کہ بلینیر ہے اور ڈینیل کانیمن نوبل انعام یافتہ سائیکالوجسٹ ہیں، ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ڈنر کرتے ہیں، دونوں کی اِنکم میں فرق ہے ،لیکن وہ کیا چیز ہے جو ان دونوں میں کامن ہے؟
ان کے نظریات، انٹلیکٹ، نالج۔
ڈجیٹل دور میں اگر نالج اور انفارمیشن ہی معیشیت ہے تو یہی وہ کرنسی ہے جس کی بدولت اس نئی کلاس کو وجود ملا ہے۔ یہ نئی کلاس برینڈ نہیں خریدتی، بلکہ ارگینک کاٹن سے بنے کپڑے، ٹوٹ ہینڈ بیگ، ماحول کو آلودہ نہ کرنے والے پراڈکٹ اور سادہ زندگی ان کا فیشن ہے۔ ماحول کو صاف رکھنا، یوگا، صحتمند کھانا، بہتر انسان بننا، اعلیٰ پائے کا ادب پڑھنا، بہترین معلوماتی پوڈکاسٹ سننا، اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ڈگری، اعلیٰ اخبارات کا مطالعہ، پیداواری اہلیت، تخلیقیت، باخبر رہنا، سادہ زندگی اس نئی کلاس کا نیا فیشن ہے۔ یہی وہ inconspicuous consumption ہے جس میں ایسپرشنل کلاس انویسٹ کر رہی ہے۔ انسانیت اور اعلیٰ صحتمند اقدار (higher healthy values) بھی فیشن اور کلاسزم کا حصہ بن گئی ہیں۔ جس طرح ہم پہلے زمانے کے امیروں کو ان کے نمائشی انداز کے لیے برا کہتے تھے، آپ ایسپرشنل کلاس کی اس گہری تفریق کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے ، کیونکہ ان کی ویلیوز اور رہن سہن تو انسانیت پسند ہیں۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس میں کیا برائی ہے یہ تو بہت اچھی اقدار ہیں!
الیزبتھ کہتی ہیں بیشک یہ اچھی اقدار ہیں لیکن ان اقدار کو جدید دور میں حاصل کرنے کے لیے ”وقت“ کی ضرورت ہوتی ہے اور ”وقت“ خریدنے کے لیے ”پیسوں“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مڈل کلاس کے پاس پیسے ہیں لیکن صرف چیزیں خریدنے کے لیے کیونکہ وقت خریدنا ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس بار تفریق محض دولت کی نہیں بلکہ کلچرل کیپیٹل کی ہے۔ الزبتھ نے اسپریشنل کلاس کے رویے اور ان کے باقی کے طبقات اور ان کے مسائل کی جانب نظراندازی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ ڈجیٹل میڈیا کی آمد کے بعد اشیاء کی فراوانی اور نمائش، لامحدود تصاویر، وڈیوز، کانٹینٹ کے عام ہونے کے بعد خاص کیا رہے گا؟
اس کتاب میں اس کا جواب تھا۔ منیمل-ازم، معلومات، جانکاری، مطالعہ، این-پی- آر پوڈ کاسٹز، صحت، خاندان کے ساتھ وقت، اعلیٰ تعلیم، ماحولیاتی معلومات، ابلاغ، تعلق وغیرہ، یہ اب اسٹیٹس سمبل ہیں۔
آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ منٹ نکال کر سوچیں کہ آپ اپنا وقت اور توانائی کن چیزوں میں انویسٹ کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی ترجیحات میں وہ چیزیں شامل ہیں جن پر اس نئی اسپریشنل کلاس کی گرفت ہے، کیا آپ کو اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے، اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے؟ بیشک ایسپرشنل کلاس پاکستان میں بھی موجود ہے!
اس کتاب میں اور بھی کئی معلومات ہیں جنہیں ایک مضمون میں لکھنا ممکن نہیں تھا- ایک مغربی اخبار میں الیزبتھ کا انٹرویو پڑھا تو ان کی کتاب پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی، خالص سوشیولوجی کی زبان میں لکھی اس کتاب کو پڑھنے میں دقّت ہوئی لیکن سوچا کیوں نہ ان کی ریسرچ کو سرسری طور پر قلم زد کیا جائے۔