امریکہ: جہاں قیدیوں سے معمولی اجرت پر کام کروا کر حکومت اربوں کماتی ہے

ویب ڈیسک

مونٹریل کارموچے میکسیکو کے سفید ساحلوں اور سمندری چٹانوں کی تعریف کرتے ہیں اور ٹیلی فون پر اسے چھٹیاں گزارنے کے لیے ایک اچھے مقام کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جب کہ وہ یہ بھی چھپانے کے کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود کبھی وہاں نہیں گئے کیونکہ وہ دراصل امریکی جیل میں قید ایک قیدی ہیں

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان کی کہانی اور ان کی تنخواہ (جو فی ڈیل چھ ڈالر کا معمولی کمیشن ہے) کو اس ہفتے امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) اور شکاگو یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں امریکی جیلوں میں قید افراد کے کام کی دستاویزات پیش کی گئی ہیں

’کیپٹیو لیبر: ایکسپلائیٹیشن آف انکارسیریٹڈ ورکرز‘ نامی اس رپورٹ کی مرکزی مصنفہ اے سی ایل یو کی محقق جینیفر ٹرنر کہتی ہیں ”قیدیوں کو اکثر غیرمحفوظ حالات میں کام کے عوض کم پیسے ادا کیے جاتے ہیں حالانکہ وہ ان ریاستوں اور وفاقی حکومت کے لیے اربوں ڈالر کماتے ہیں“

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی جیلوں میں موجود قیدیوں میں سے دو تہائی جیل میں ہی نوکری کرتی ہیں اور سالانہ گیارہ ارب ڈالر سے زائد لاگت کی اشیا بناتے اور خدمات سرانجام دیتے ہیں

رواں ہفتے امریکی سول لبرٹیز یونین اور یونیورسٹی اَف شکاگو کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق قیدی اکثر غیر محفوظ صورتحال میں کام کرتے ہیں جس سے امریکہ کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں اربوں ڈالر بناتی ہیں اور بدلے میں انہیں تھوڑا ہی معاوضہ ملتا ہے

واضح رہے کہ امریکہ میں قید کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں بارہ لاکھ سے زائد افراد ریاستی اور وفاقی جیلوں میں قید ہیں

رپورٹ کے مطابق ان میں سے دو تہائی افراد کے پاس جیل میں ملازمتیں ہیں اور وہ ہر سال گیارہ ارب ڈالر سے زائد مالیت کی اشیا اور سروسز فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے بڑی اکثریت 80 فیصد سے زائد جیلوں کی صفائی کرنے والوں، باورچیوں، الیکٹریشنز اور پلمبرز کے طور پر محض صفر ڈالر سے 1.24 ڈالر فی گھنٹہ اجرت لینے والے ملازم کے طور پر کام کرتی ہے

اس حوالے سے جیل خانہ جات کے بیورو نے اے ایف پی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ”کام کے پروگرام قیدیوں کے بے کارپن کو کم کرنے کا ذریعہ اور قیدی کو ملازمت کے حصول کے لیے مفید مہارتوں، کام کی عادات اور تجربات کو بہتر بنانے/ یا تیار کرنے کا موقع ہیں، جو رہائی کے بعد ان کے لیے ملازمت میں مددگار ثابت ہوں گے“

اے سی ایل یو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2004 میں ان کے کام کے ذریعے ریاست اور وفاقی حکومت کو ملنے والے منافع کا کم سے کم تخمینہ 9 ارب ڈالر تھا

ایلانوئے کی ایک قیدی لتاشیا ملنڈر نے اس رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا ”ہم جیل میں جو بھی کام کر رہے ہیں وہ ہمیں واقعی فائدہ نہیں پہنچا رہا، اس سے جیل کے نظام کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ میں 450 ڈالر کمانے کے لیے پورا سال کام کرتا ہوں۔ اگر وہ یہی پیسے اس کام کے لیے کسی شہری کو دیں تو یہ اس کی ایک ہفتے کی تنخواہ ہوگی“

تقریباً پچاس ہزار قیدی وہ سامان اور خدمات فراہم کرتے ہیں جو دیگر سرکاری اداروں کو فروخت کی جاتی ہیں۔ بشمول ہسپتالوں کے لیے چادریں دھونا یا سرکاری ملازمین کے لیے وردی بنانے جیسی ملازمتیں

نیشنل پرزن انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے مطابق 2021ع میں اس مزدوری کی مالیت 2.09 ارب ڈالر تھی

لیکن اس کے کم ترین ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اوریگن میں گاڑیوں کی رجسٹریشن ایجنسی قیدیوں کو لائسنس پلیٹیں بنانے کے لیے چار سے چھ ڈالر یومیہ ادا کرتی ہے، جب کہ آزاد ملازمین کے لیے یہی اجرت 80 ڈالر ہے

علاوہ ازیں مونٹریل کارموچے سمیت پانچ ہزار سے بھی کم قیدی نجی کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں، جن کے گاہکوں کو اکثر مصنوعات کی تیاری کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوتا

اس کام میں تھوڑی زیادہ اجرت ملتی ہے، جس کی مانگ قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن قیدیوں کی زیادہ تر آمدنی حکومت ان کی قانونی فیس کی ادائیگی کی مد میں ضبط کر لیتی ہے

رپورٹ کے مصنفین ب
نے بتایا کہ ملازمت سے قطع نظر جو کام قیدیوں کو دیا جاتا ہے، انہیں اس کی کوئی تربیت نہیں ہے۔ عام طور پر وہ ان کاموں سے انکار نہیں کر سکتے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سازوسامان کی کمی ہے

جیل خانہ جات کے بیورو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک اولین ترجیح ہے

بیان میں کہا گیا ہے کہ صرف ان قیدیوں کو پروگرام کے کاموں میں لگایا جاتا ہے، جو جسمانی اور ذہنی طور پر اس کے قابل ہیں۔ ان پروگراموں کے لیے صحت اور حفاظت کے لیے مناسب کم از کم معیارات پر پورا اترنا ضروری ہے

اس مطالعے کی شریک مصنفہ شکاگو یونیورسٹی کی کلاڈیا فلورس نے کم از کم اجرت کے نفاذ سمیت متعدد اصلاحات کی سفارش کرتے ہوئے کہا ”امریکہ کی بہت سی جیلوں میں قید مزدوروں کے حالات زندگی بنیادی ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close