پاکستان کے سرکاری امور کی انجام دہی، اداروں کے درمیان رابطوں اور فیصلہ سازی کے لیے فائلوں کا نظام رائج ہے۔ اس روایتی طریقہ کار میں پرنٹ شدہ کاغذ کو ایک فائل میں لگا کر باضابطہ اس کو نمبر دیا جاتا ہے اور وہ فائل ایک میز سے دوسری میز اور ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگاتی ہے اور اس وقت تک محو سفر رہتی ہے جب تک وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر داخل دفتر نہیں کر دی جاتی‘م
اس عمل میں دن بھی لگ سکتے ہیں، مہینے بھی سال بھی، اور بہت سال بھی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فائل کس نوعیت کی ہے
اس سارے عمل کا مشاہدہ آپ سرکاری دفاتر میں اپنے کسی کام یا سرکاری فیصلہ سازی کے دوران ضرور کر ہی چکے ہونگے
سرکاری دفاتر میں اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ فلاں فائل فلاں افسر کی میز پر ہے۔ جب آپ اس متعلقہ افسر کے پاس پہنچیں تو ممکن ہے کہ پتہ چلے کہ فائل گم ہو گئی ہے یا فائل کو فلاں افسر کی منظوری درکار ہے لیکن فائل کو وہاں تک پہنچنے کے لیے ’پہیے‘ لگانے پڑیں گے
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سرکاری افسر اپنے اسٹاف کو اہم فائل تھما کر کسی دوسرے افسر کو دینے کا کہے اور وہ راستے میں فائل کھول کر دیکھے، تصویر بنائے اور اسے کسی ایسے حلقے کو لیک کر دے جس سے اس فائل کے ذریعے کیے جانے والے فیصلوں سے بظاہر نقصان پہنچ رہا ہو، لابی متحرک ہو جائے اور وہ فائل کسی ایک افسر کے پاس دب جائے
یہ سب اس لیے ہے کہ پاکستان میں صدیوں پرانا سرکاری دفتری نظام اور فائلوں کے ذریعے چلتا ہے
فائلوں کے اس نظام کے گورکھ دھندے کی وجہ سے ایک ایک فائل کئی کئی سو صفحات تک پہنچ جاتی ہے، جس سے کاغذ کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور قومی خزانے کے اربوں روپے بھی ان فائلوں پر خرچ کر دیے جاتے ہیں
جبکہ فائل کو ایک وزارت سے دوسری وزارت بھیجنے کے لیے رائیڈر، گاڑی یا موٹرسائیکل اور اس کے لیے پیٹرول کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس وجہ سے وزارتوں کا بہت سا بجٹ تو ان کاموں میں خرچ ہو جاتا ہے
سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے اس فائلوں کے نظام کو بدلنے کی کوشش تو ایک عرصے سے ہو رہی تھی لیکن پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں ڈجیٹل پاکستان پروگرام کے بعد اب جا کر اس کے نتائج سامنے آئے ہیں
نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے چالیس وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں ای-آفس کا نظام نافذ کر دیا ہے اور اب دفتری امور اسی نظام کے تحت انجام دیے جا رہے ہیں
ای-آفس کیا ہے؟
فائلوں کے روایتی نظام میں پرنٹ شدہ فائل سرکاری وزارتوں کی غلام گردشوں میں گھومتی ہے جبکہ ای آفس میں فائل کمپیوٹر پر تیار ہوتی ہے
کمپیوٹر میں موجود مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے سرکاری اداروں کے درمیان خط و کتابت، فائلوں کی ترسیل و وصولی اور ان کے اسٹیٹس کے بارے میں معلومات دستیاب ہوتی ہیں
تمام اسٹیک ہولڈرز نہ صرف اس سے آگاہ رہتے ہیں بلکہ نوٹیفیکیشن اور ٹائم فریم کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے
اس کے علاوہ اپنے حصے کا کام کر کے بروقت آگاہ نہ کرنے والا سب کی نظروں میں بھی آ جاتا ہے
نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید حسنین کاظمی اس حوالے سے بتاتے ہیں ”ای آفس کے ذریعے سرکاری امور کی انجام دہی اور فیصلہ سازی میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ سرکاری معلومات کے چوری یا لیک ہونے کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ فائل کس نے کب بھیجی، کب اگلے بندے کے پاس پہنچی، کسی نے کیا نوٹ لکھا اور کب آگے روانہ کی اس سب کا ٹریک ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک فائل کب سے کب تک ایک افسر کے پاس رہی اس لیے اب کہا جا سکتا ہے کہ فائل دبائی نہیں جا سکتی“
وہ کہتے ہیں ”حکومت سالانہ اربوں روپے کاغذ کے لیے خرچ کرتی تھی جبکہ فائلیں ایک وزارت سے دوسری وزارت بھجوانے کے لیے رائیڈر بھی رکھے جاتے رہے ہیں۔ اس میں ٹائم بھی لگتا تھا اور پیسے بھی ضائع ہوتے تھے۔ اب کمپیوٹر پر ایک کلک کے ذریعے آپ نہ صرف فائل بھیج سکتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ متعلقہ افسر نے اس پر کیا فیصلہ لیا ہے“
تاہم یہ ابھی شروعات ہے، پاکستان میں ابھی تک ای آفس کا پہلا ماڈیول ہی تیار ہوا ہے، جسے وزارتوں کے اندرونی کام کاج اور بین الوزارتی سرکاری امور کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ابھی یہ نظام چالیس وزارتوں اور ڈویژنز میں لاگو ہوا ہے جلد ہی اسے وزارتوں کے ماتحت اور ملحقہ اداروں میں بھی لاگو کیا جا رہا ہے
اس کے بعد دیگر پروگرام جیسے کہ فنانس اینڈ بجٹ ماڈیول، پروجیکٹ ماڈیول، ای آر ماڈیول اور انونٹری اینڈ پروکیورمنٹ ماڈیول پر کام شروع ہوگا
سید حسنین کاظمی نے بتایا ”ای-آفس کے نظام کے تحت صرف وفاقی وزارتوں کے اندرونی امور ہی ڈجیٹل نہیں ہوئے بلکہ اگر کسی مسئلے پر کوئی شہری کسی بھی وزارت میں جا کر کوئی درخواست دیتا ہے تو اسے بھی سکین کرکے ای-آفس نظام کا حصہ بنا دیا جاتا ہے اور اسے باضابطہ ڈائری نمبر الاٹ کیا جاتا ہے تاکہ شہری کو بھی اس کی درخواست سے متعلق آگاہی ملتی رہے“
ای-آفس کے نظام کا سفر
چار نومبر 2002 کو اس وقت کے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمان نے وفاقی حکومت کے تمام امور کو فائلوں سے نکال کر کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے سلسلے میں قائم ’الیکٹرانک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ای گورننس حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کو نئی جہت دے گی کیونکہ اس سے حکومتی امور میں شفافیت آئے گی۔‘
یہ آئیڈیا انہوں نے 2000 میں اس وقت کے ملک کے چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف کو حکومتی اصلاحات کے سلسلے میں دیا تھا جس پر دو سال بعد عمل درآمد کا آغاز ہوا لیکن بیس برس گزر جانے کے بعد منزل قریب دکھائی دی بلکہ پہلے زینے پر قدم رکھ دیا گیا ہے
پھر مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیراعظم آفس سمیت کچھ اداروں میں ای آفس کا نظام متعارف کروایا تھا
اس کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں اس حوالے سے پیش رفت سامنے آئی، وزارتوں میں سابق دور حکومت میں ای آفس کا نظام متعارف کروایا گیا تھا وہاں پہلے مرحلے میں اسے فعال بنا دیا گیا۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام تک ای آفس پر منتقلی کا کام آخری مراحل میں تھا، جو اب پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔