ذائقے اور معیار کے اعتبار سے اپنی ایک الگ پہچان رکھنے والے پاکستانی آموں کی مانگ امریکا، یورپ سمیت خلیجی ملکوں میں بڑھ رہی ہے اور دنیا بھر سے نئے آرڈرز کی موصولی کے بعد اگرچہ 25 مئی سے برآمد کا عمل شروع ہو چکا ہے، تاہم رواں برس جہاں ٹرانسپورٹ کرائے بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے تمام آرڈرز کی ترسیل میں مشکلات آ رہی ہیں، وہیں زرعی ماہرین کے مطابق آم کی پیداوار میں بھی لگ بھگ پچاس فیصد کمی دیکھی گئی ہے
عبدالرزاق گذشتہ پچیس برس سے آم کی کاشتکاری سے منسلک صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار عبدالرزاق کا کہنا ہے ”میں گذشتہ دو دہائی سے زائد عرصے سے آم کی کاشتکاری کر رہا ہوں لیکن رواں برس جو آم کے ساتھ ہوا، ایسا بحرانی سال میں نے پچیس سال میں نہیں دیکھا۔ سخت موسم، وائرس (کالا تیلو) اور پانی کی شدید کمی اس بحران میں مزید اضافے کی وجہ بنے، جس سے رواں برس اس فصل کی پیداوار تقریباً پچاس فیصد تک کم ہو کر رہ گئی ہے“
یہ بحرانی حالت اتنی شدید ہے کہ عبدالرزاق اب آم کو چھوڑ کر کسی اور فصل میں اپنی قسمت آزمائی کا سوچ رہے ہیں
لیکن اس حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس بحران کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے
ایسے میں حکومت کو اب پیداوار کو بڑھانے کے لیے کون سے ایسے ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں، جن سے نہ صرف اس صنعت سے جڑے لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ خاندان معاشی تباہی اور بدحالی سے بچ سکیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی اس صورتحال سے دھچکا نہ لگے
اس حوالے سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے حکام کے علاوہ اس صنعت سے جڑے دو تجربہ کار ایکسپورٹرز وحید احمد اور جمشید بشیر سے آم کی فصل کو درپیش چیلنجز سے متعلق بات کی ہے۔
اس حوالے سے تجربہ کار ایکسپورٹرز اور فروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سربراہ وحید احمد کا کہنا ہے کہ آم کی تو ابتدا ہی اس خطے سے ہوئی، جسے آج دنیا پاکستان اور بھارت کے نام سے جانتی ہے
انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سُنایا کہ جب ایک بار برطانیہ میں ملکہ سے ان کا تعارف کروایا گیا تو ملکہ نے فوراً کہا کہ وہ پاکستان کے آموں کو پسند کرتی ہیں
وحید احمد کے مطابق اس وقت پاکستانی آم چالیس سے زائد ممالک کو برآمد ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد قرنطینہ کے اصول سخت ہونے کے باوجود بھی امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا میں بھی آم اب بھی جا رہا ہے
دوسری جانب ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق پاکستان دنیا میں آم پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر اس کی برآمدات کا حصہ تقریباً 3.5 فیصد بنتا ہے۔ سرکاری حکام نے بھی آم کی فصل میں نمایاں کمی کی توقع کی تصدیق کی ہے
اس صنعت سے جڑے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس کے سیزن جو ہوا، ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا
ان کے مطابق اگر گذشتہ برس سو ایکڑ سے تقریباً ایک سو سے ایک سو تیس گاڑیاں آموں کی ہو جاتی تھیں تو رواں برس صرف تیس، چالیس یا پچاس گاڑیاں ہی مل پائیں
وحید احمد کہتے ہیں ”یہ پاکستان کی ایک سو ارب روپے کی صنعت ہے، جس سے چار سے ساڑھے چار لاکھ خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے“
ٹی ڈی اے پی کے مطابق گذشتہ برس پاکستان نے 149 ملین کلو گرام آم برآمد کیے تھے، جس کی پاکستانی روپے میں قیمت ساڑھے بائیس ارب بنتی ہے جبکہ رواں برس آم کی پیداوار میں پچاس فیصد کمی متوقع ہے
ان حکام کے مطابق کم پیداوار کے تناظر میں اس برس برآمدات کا ہدف بھی کم کر دیا گیا ہے
آم کی پیداوار میں کمی کی وجوہات کے بارے میں وحید احمد کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کا ہماری فصل پر بڑا اثر (مرتب ہوا) ہے
ان کے مطابق ”ہماری فصل 18 لاکھ ٹن ہے، جس میں سندھ کا حصہ 29 فیصد، ایک فیصد خیبر پختونخوا جبکہ 70 فیصد پنجاب کا ہے“
وحید احمد کے مطابق پہلے سیزن سندھ سے شروع ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ پنجاب کا رخ کرتا ہے
ان کے مطابق اس بار بہار نہیں آئی جس سے فلاورنگ نہیں ہو سکی
وحید احمد، کاشتکار عبدالرزاق کی اس بات سے متفق ہیں کہ پانی بھی وقت پر نہیں مل سکا، جس سے پیداوار مزید متاثر ہوئی جبکہ دیگر عوامل میں انہوں نے ڈیزل کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا ذکر کیا
وحید احمد کے مطابق سنہ 2013ع سے گلوبل وارمنگ کے اثرات پاکستان پر بڑھتے نظر آر ہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ صرف آم ہی نہیں بلکہ دیگر فصلوں پر بھی اس کے اثرات پڑے ہیں
ان کے مطابق پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی کمی ہے۔ اچھے بیج نہیں اور کاشتکار پیدوار بڑھانے کے جدید طریقوں سے بھی واقف نہیں ہیں
وحید احمد کے مطابق اس وقت پاکستان میں پیداور کی قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ جہاں پاکستانی کاشتکار فی ایکڑ میں دو سے ڈھائی سو درخت آم کے اگاتا ہے، وہیں دنیا میں ایک ایکڑ میں پچیس سے تین ہزار تک درخت اگائے جاتے ہیں
پیداوار کی کمی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے وحید احمد کہتے ہیں ”اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ سب اب صوبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ زراعت کو آگے بڑھائے، فوڈ سکیورٹی سے نمٹیں، اب کاشتکاروں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بیسٹ پریکٹسز کو فالو کر سکیں“
عبدالرزاق کے خیال میں اب کاشتکار کے لیے نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں اور ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس کم کرے، پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور وائرس سے نمٹنے کے لیے کاشتکاروں کو مؤثر دوائیاں دے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے
عبدالرزاق کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ بروقت اقدامات اٹھائے کیونکہ اس وقت بہت بحرانی کیفیت ہے۔ ان کے مطابق اگر نقصان کم نہ ہوا تو پھر کسی اور کاروبار کی طرف چلے جائیں گے
آم کی ایکسپورٹ کرنے والی کے پی انٹرنیشنل کمپنی کے مالک جمشید بشیر کہتے ہیں ”اس بار بہار آنے سے پہلے ہی گرمیاں شروع ہو گئیں جس سے آموں کی پولی نیشن نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی“
تاہم جمشید بشیر کے مطابق، اس بار جہاں پیداوار کم ہوئی، اس سے آم کا سائز بڑھا ہے جو حوصلہ افزا ہے
جمشید بشیر کے مطابق اگر صیحح وقت پر آم کو اسپرے کیا جائے اور زراعت کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جائے تو آم کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے
جمشید بشیر کہتے ہیں ”پیداوار بہتر کرنے کے لیے ڈرپ اریگیشن کا طریقہ بھی اچھا ہے جس کے ذریعے آم کو جتنا پانی چاہیے ہوگا، اتنا ہی اسے مل سکے گا“