ہم میں سے اکثر کا واسطہ ایسے کسی دوست سے پڑا ہوگا جس نے بتایا ہوگا کہ اس نے ہمارے ہم شکل کو دیکھا ہے، ایک ایسا شخص جو بالکل ہماری طرح دِکھتا تھا۔۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ذرا تصور کیجیے کہ کیسا لگے گا اگر آپ خود اپنا ایک جڑواں شخص بنا سکیں، جو بالکل ہی آپ جیسا ہو مگر رہے گا صرف ڈجیٹل دنیا میں!
ہم ایک ایسے عہد میں رہ رہے ہیں جہاں جو چیز حقیقی دنیا میں موجود ہے اس کی شبیہ یا نقل ڈجیٹل دنیا میں بھی پائی جاتی ہے، چاہے وہ ہمارے شہر ہوں، کاریں یا گھر ہوں، حتیٰ کہ ہماری اپنی ذات تک
آج کل میٹاورس کا بہت چرچا ہے، اب ایک ایسی ڈجیٹل دنیا آباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، جس میں آپ اپنا جڑواں بنا سکیں گے
’ڈجیٹل توام‘ طبعی طور پر موجود کسی چیز کی ہو بہو نقل ہوتی ہے، مگر ایک خاص مشن کے ساتھ، اور مشن ہے اصل یا حقیقی شخص کو اس کی شخصیت، کام اور رویے کے بارے میں رائے دینا تاکہ حقیقی شخص کو مزید بہتر بننے میں مدد دی جا سکے
ابتدا میں ایسے توام صرف تھری ڈی کمپیوٹر ماڈل ہونے تک محدود تھے، لیکن اب مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ایسی ڈجیٹل چیزیں تیار کر لی گئی ہیں جو مستقل سیکھ رہی ہیں اور اپنے اصل کو بہتر بنانے میں مدد دے رہی ہیں
ٹیکنالوجی تجزیہ نگار راب اینڈرلے کا خیال ہے ”ہم سوچنے والے انسانی ڈجیٹل توام اس عشرے کے اختتام سے پہلے بنا لیں گے. ایسی جڑواں شخصیتیں بنانے سے پہلے بہت زیادہ سوچنے اور ان کے اخلاقی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سوچنے کی حامل ہماری نقول ہمارے باسز کے لیے بڑی کارآمد ہوں گی“
ذرا سوچیے کہ اگر کسی روز آپ کی کمپنی آپ کا ڈجیٹل توام بنا کر آپ سے کہے کہ ’ہاں بھئی، ہمارے پاس آپ کا ڈجیٹل توام آ گیا ہے، جو تنخواہ بھی نہیں مانگتا تو پھر ہم آپ کو کام پر کیوں رکھیں؟‘
اینڈرلے کا خیال ہے کہ آنے والے میٹاورس دور میں فیصلہ کن سوال ڈجیٹل توام کی ملکیت کا ہوگا
اواٹار کی شکل میں انسانی توام بنانے کا سفر شروع ہو چکا ہے مگر اس وقت یہ اپنی ابتدائی اور خام حالت میں ہیں
مثال کے طور پر میٹا (سابق فیسبک) کے ورچوئل پلیٹ فارم ’ہورائزن ورلڈز‘ میں آپ اپنے اواٹار پر اپنا چہرہ لگا سکتے ہیں لیکن آپ اس کی ٹانگیں نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی میں اے آئی کی محقق پروفیسر سینڈرا واچر کہتی ہیں ”اس میں سائنس فِکشن والے ناولوں کی جھلک ہے اور اس وقت یہ اسی مرحلے پر ہے“
ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی قانون کی تعلیم حاصل کرے گا، بیمار پڑے گا، یا کسی جرم کا ارتکاب کرے گا، اس کا انحصار اب بھی فطرت (نیچر) اور پرورش (نرچر) کے سوال پر ہے‘
اس کا انحصار خوش قسمتی یا بد قسمتی، دوستوں، فیملی، ان کے سماجی معاشی پس منظر اور ماحول اور ان کی ذاتی پسند نا پسند پر ہو گا۔‘
البتہ وہ وضاحت کرتی ہیں کہ ”اس وقت اے آئی ان پیچیدہ باتوں کے بارے میں پیشگوئی کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا کسی شخص کی زندگی کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس کی زندگی کا آغاز سے انجام تک کا ماڈل تیار کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا، یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسا ہو بھی سکے گا“
اس کی جگہ اس وقت مصنوعات، ان کی تقسیم اور شہری منصوبہ بندی کے شعبے ایسے ہیں جہاں پر ڈجیٹل توام خاصے تفصیلی اور ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں
فارمولا ون ریسنگ میں میکلارن اور ریڈ بُل کی ٹیمیں اپنے کاروں کے ڈجیٹل ٹوئنز استعمال کرتی ہیں
بین الاقوامی ڈاک کمپنی ڈی ایچ ایل اپنے گودام اور سپلائی چین کا ایک ڈجیٹل نقشہ تیار کر رہی ہے تاکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے خدمات فراہم کر سکے
اسی طرح سے ہمارے شہروں کی نقلیں یعنی ان جیسے شہر ڈجیٹل دنیا میں آباد کیے جا رہے ہیں۔ شنگھائی اور سنگاپور دونوں ہی کے ڈجیٹل جڑواں موجود ہیں۔ یہ نقول بنانے کا مقصد ان شہروں کے ڈیزائن، عمارتوں، سڑکوں اور آمدورفت کے وسائل کو بہتر بنانا ہے
سنگاپور کے ڈجیٹل جڑواں کا ایک مقصد لوگوں کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے جہاں آلودگی کم ہو، دوسری جگہوں پر اس ٹیکنالوجی سے ایسے مقامات کی نشاندہی میں مدد لی جا رہی ہے جہاں پر کوئی نیا ڈھانچہ کھڑا کیا جا سکے، مثلاً کوئی زیر زمین ٹرین لائن وغیرہ۔ دنیائے عرب میں نئے شہر بسائے جا رہے ہیں، حقیقی دنیا میں بھی اور ڈجیٹل ورلڈ میں بھی
فرنچ سافٹ ویئر کمپنی داسالٹ سسٹمز کا کہنا ہے کہ اس کی ڈجیٹل جڑواں بنانے والی ٹیکنالوجی میں ہزاروں کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے
یہ کمپنی دوسرے اداروں کو مستقبل کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں مدد دے رہی ہے، ان میں جیٹ پیکس، فلوٹِنگ ویلز والی موٹر سائیکلیں اور اڑنے والی کاریں شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک حقیقی نمونہ بھی موجود ہے مگر اس میں نکھار ڈجیٹل اسپیس کے اندر لایا جا رہا ہے
لیکن ڈجیٹل ٹوئن کی اصل قدر و قیمت صحت کے شعبے میں سامنے آ رہی ہے
دا سالٹ کا ’لیوِنگ ہارٹ‘ (زندہ دل) ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت انسانی دل کا بالکل صحیح نمونہ تیار کر کے ڈاکٹر اس پر مختلف آلات اور طبی ساز و سامان استعمال کر رہے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ مختلف حالتوں میں اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں
اس منصوبے کا آغاز ڈاکٹر اسٹیو لیوِن نے ذاتی وجوہ کی بنا پر کیا تھا۔ ان کی بیٹی کو دل کی بیماری تھی اور چند برس قبل جب ان کی عمر تیس برس سے کچھ کم تھی تو ان کے ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ بہت بڑھ گیا۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے دل کا ڈجیٹل نمونہ یا ورچوئل ریئلیٹی بنائیں گے
امریکہ میں بوسٹن چلڈرن ہاسپٹل میں اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر حقیقی مریضوں کی دل کی حالت کے بارے میں تفصیل اکٹھی کی جا رہی ہے جبکہ لندن کے اورمنڈ اسٹریٹ ہسپتال میں انجینیئروں اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ایسے آلات کی آزمائش میں مصروف ہے جو کم پائی جانے والی قلبی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج میں معاون ہو سکیں
یہ فرم اب مزید انسانی اعضا جیسا کہ آنکھیں اور دماغ وغیرہ کی ڈجیٹل نقل تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے
داسالٹ سسٹمز کے عالمی امور کی ڈائریکٹر سیویرِن ٹراؤلیٹ کہتی ہیں ”ایک وقت آئے گا جب ہم ڈجیٹل جڑواں بنا لیں گے اور ہم امراض سے بچانے والی ادویات تیار کر سکیں گے اور جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو ایسی دوا دے گا جو صرف آپ کے لیے بنی ہو گی“
انسانی اعضا کے ڈجیٹل نمونے تیار کرنے سے بھی بہت بڑا منصوبہ پوری زمین کا ڈجیٹل ورژن بنانا ہے
امریکی سافٹ ویئر فرم اینوِیڈیا ’اومنیِورس‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم چلاتی ہے، جس کا مقصد ورچوئل دنیائیں اور ڈجیٹل ٹوئنز بنانا ہے
اس کا ایک بہت بڑا منصوبہ زمین کا ہمزاد تیار کرنے سے متعلق ہے جس کے تحت زمین کی تمام سطح کی اعلیٰ معیار کی تصاویر کو یکجا کیا جا سکے
اس منصوبے کا نام ’ارتھ ٹُو‘ ہے جو ڈیپ لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس (کمپیوٹر) کی مدد سے زمین کے ماحول کے ڈجیٹل نمونے تیار کرے گا اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دے گا
اس برس مارچ میں یورپی کمیشن نے یورپی خلائی ادارے سمیت دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر زمین کا ایک ڈجیٹل توام بنانے کا اعلان کیا، اس جڑواں زمین کا نام ڈیسٹینیشن ارتھ رکھا گیا ہے
اسے توقع ہے کہ سنہ 2024ع کے آخر تک وہ مشاہدے اور تجربے سے اتنی معلومات جمع کر لے گا، جس کی بنیاد پر زمین کا ڈجیٹل ٹوین تیار ہو جائے گا
اس جڑواں کی مدد سے سیلابوں، خشک سالی، گرمی کی لہروں، زلزلوں، آتش فشاں پھٹنے اور دیگر قدرتی آفتوں پر نظر رکھی جائے گا اور متعلقہ ملکوں کو انسانی جانیں بچانے کے لیے ٹھوس منصوبہ سازی میں مدد دی جائے گی۔
(اس رپورٹ کی تیاری میں بی بی سی اردو میں شائع ٹیکنالوجی رپورٹر جین ویکفیلڈ کے فیچر سے مدد لی گئی ہے)