جب سربیا کا ایک سرکاری وفد سنہ 2016 میں ’گوانتانامو بے‘ جیل میں منصور عدیفی سے ملنے آیا تو منصور کو اس وقت سربیا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا
گوانتانامو بے کے بدنام زمانہ قید خانے میں منصور کی جوانی کے چودہ قیمتی سال برباد ہو چکے تھے اور اس دوران انہیں کبھی کوئی ملاقاتی ملنے نہیں آیا تھا
منصور کو سربیا کے بارے میں فقط اتنا معلوم تھا کہ سربیا کی افواج نے 1990ع کی دہائی میں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ منصور نے کہا کہ جیل میں قید وہ تمام قیدی، جنہیں 2016ع میں رہائی ملنی تھی، وہ اس حقیقت (سربین افواج کے ہاتھوں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام) سے آگاہ تھے اور اسی لیے کوئی بھی سربیا نہیں جانا چاہتا تھا
منصور عدیفی کی عمر اس وقت صرف اُنیس سال تھی، جب انہیں افغانستان سے اٹھایا گیا تھا اور بتیس سال کی عمر تک بغیر کسی الزام کے اس بدنام زمانہ جیل میں قید رکھا گیا
گذشتہ سال امریکہ نے باضابطہ طور پر ان کے بارے میں اپنے اندازوں (الزامات) کو غلط تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا منصور کا کبھی القاعدہ سے تعلق رہا ہے یا نہیں
اس اعتراف کے بعد انہیں دنیا کے دیگر ممالک سے قیدیوں کی آبادکاری کے خفیہ معاہدوں کے تحت رہائی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا
منصور رہائی کے بعد قطر جانا چاہتے تھے جہاں ان کا خاندان رہتا تھا۔ یا وہ عمان جانا چاہتے تھے جس نے گوانتانامو بے سے رہائی پانے والے سابق قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے شہرت حاصل کی تھی۔ لیکن جب گوانتانامو بے کیمپ نمبر چھ کے ایک کمرے میں اُن کی سربیا کے وفد سے ملاقات کا وقت آیا تو منصور عدیفی نے اس ٹیم کو اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ منصور نے وفد کے اراکین کی باتیں سنیں اور آخر میں بڑے سائشتہ انداز میں نہ کر دی
میں نے ان سے کہا ”آپ کا بہت بہت شکریہ، لیکن میں تاریخ جانتا ہوں“
منصور عدیفی کے مطابق وفد کے سربراہ نے انہیں یقین دلایا کہ سربیا میں مسلمانوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے ساتھ ایک عام شہری کی طرح سلوک کرے گی۔ اُن کی تعلیم مکمل کرنے میں انہیں مالی امداد دینے اور پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم کرنے کے وعدے بھی کیے گئے۔ اور ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کی یقین دہانی کروائی گئی
ملاقات کے بعد منصور عدیفی نے گوانتانامو میں امریکی حکام کو بتایا کہ وہ سربیا نہیں جانا چاہتے۔ لیکن انتظامیہ نے اس سارے نظام پر اپنے دائرہِ اختیار کے بارے میں انہیں واضح طور پر بتاتے ہوئے کہا ”آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، آپ سربیا جا رہے ہیں“
انتالیس سالہ منصور عدیفی بڑی ہنس مکھ اور کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ بچگانہ پن جو کم عمری ہی میں قید کر دیے جانے کی وجہ سے ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ بلغراد تک پہنچنے کا اُن کا طویل سفر یمن سے شروع ہوا، جہاں انہوں نے ایک پسماندہ ترین گاؤں میں پرورش پائی، جہاں پانی یا بجلی جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔ نوعمری میں وہ اسکول ختم کرنے اور کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دارالحکومت صنعا آ گئے
انہوں نے 2001ع میں آئی ٹی ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے اسائنمنٹ کے لیے افغانستان کا سفر کیا تھا، جس کا انتظام صنعا کے ایک تعلیمی ادارے نے کیا تھا
منصور کے افغانستان پہنچنے کے چار ماہ بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور القاعدہ کے ارکان کی گرفتاریاں شروع کر دیں۔ طالبان اور القاعدہ کے سرگرم اراکین کو گرفتار کرنے کے لیے بڑے بڑے نقد انعامات دینے کے اعلانات کیے جانے لگے اور مطوب افراد کی نشاندہی اور گرفتاری سے متعلق پمفلٹ طیاروں سے گرائے جانے لگے
منصور عدیفی کا کہنا ہے کہ وہ شمالی افغانستان میں جس کار میں سفر کر رہے تھے اس پر عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کر دیا۔ اس سے چند روز بعد ہی انہیں یمن واپس جانا تھا مگر انہیں گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا
منصور عدیفی کو پہلے قندھار میں امریکہ کے خفیہ عقوبت خانے میں لے جایا گیا، جہاں ان کا کہنا ہے کہ انہیں برہنہ کر کے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تفتیش کی گئی اور ان پر مصری القاعدہ کمانڈر ہونے کا الزام لگایا گیا۔ قندھار سے انہیں گوانتانامو بے لے جایا گیا
بدنام زمانہ جیل میں ان کے چودہ سال کی داستان ’ڈونٹ فارگیٹ اَس‘ کے عنوان سے گذشتہ سال کے آخر میں شائع ہونے والی ایک یادداشت میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ اس میں جسمانی تشدد، نفسیاتی دباؤ اور قید کے دوران اُن کے بھائی اور بہن کی موت کی خبریں ان تک پہنچا کر اُن کو ذہنی اذیت پہنچائی گئی۔ انہوں نے کیمپ میں ابتدائی ایام سے ہی خود انگریزی سکھانا شروع کر دی اور ساتھ ہی کچھ کمپیوٹر سائنس اور کاروبار سے متعلق بھی پڑھانا شروع کر دیا
لیکن یہ کہانی ان کی رہائی کے کچھ ہی دیر بعد ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ جولائی 2016ع میں ایک رات اندھیرے میں بلغراد میں اترتے ہیں اور خفیہ سروس کے ذریعے شہر کے مرکز میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ان کو پہنچا دیا جاتا ہے۔ جہاں بعد میں انہیں نگرانی کے کیمرے ملے۔ منصور عدیفی نے اس فلیٹ میں پہلی رات جاگ کر گزاری اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہے
فروری میں ایک رات دیر گئے بلغراد کے اپنے موجودہ فلیٹ میں بیٹھے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں تھک چکا تھا لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، بھوک لگی تھی لیکن میں کھانا نہیں کھا سکا
انہوں نے کہا ”گوانتانامو میں تنہائی تھی، لیکن یہ تنہائی اور بے بسی کی ایک نئی قسم تھی“
اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے عدیفی ’گوانتانامو 2.0‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسی جگہ، جہاں وہ بالکل تنہا ہیں اور وہاں سے کہیں جا نہیں سکتے۔ شہر میں وہ جہاں جاتے ہیں پولیس ان کا پیچھا کرتی ہے، جس کسی سے بھی وہ دوستی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پولیس اسے خبردار کر دیتی ہے
مختلف ممالک میں گوانتانامو کے نصف درجن سابق قیدیوں نے بھی اسی طرح کے تجربات بیان کیے ہیں۔ سفری دستاویزات نہ ہونے، پولیس کی مداخلت اور سفری پابندیوں کی وجہ سے مجبور وہ کسی ملک یہاں تک کہ ایک شہر سے باہر بھی نہیں جا سکتے، جس کی وجہ سے کام تلاش کرنا، خاندان سے ملنا یا تعلقات قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے
منصور نے کہا ”ہماری زندگی میں خوش آمدید۔۔ یہ گوانتانامو کے بعد کی زندگی ہے“
نام نہاد بحالی کے معاہدوں نے سابق قیدیوں کو دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ سربیا، سلوواکیہ، سعودی عرب، البانیہ، قازقستان، قطر اور دیگر جگہوں پر۔۔۔ کچھ کو برطانیہ سمیت اپنے آبائی ممالک میں واپس بھیجا گیا اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کیونکہ چند قیدیوں کو اجنبی جگہوں پر بھیج دیا گیا تھا
منصور عدیفی کو یمن واپس جانے سے روک دیا گیا تھا، جہاں ان کا خاندان رہتا ہے کیونکہ امریکی کانگریس نے فیصلہ کیا تھا کہ قیدیوں کو غیر مستحکم ممالک میں واپس بھیجنا سکیورٹی کا خطرہ ہے۔ یمن نے بھی عدیفی کو پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا ہے اور سربیا نے بھی، اسی طرح وہ بلغراد میں عملاً غریب الوطن ہیں
گوانتانامو کے بارے میں بہت سی چیزوں کی طرح جس معاہدہ کے تحت انہیں وہاں پہنچایا گیا تھا، وہ اب بھی رازداری میں پوشیدہ ہے۔ عدیفی کی وکیل بیتھ جیکب کہتی ہیں ”میں سرکاری طور پر کچھ نہیں جانتی کیونکہ امریکہ وکلا کو کچھ نہیں بتاتا“
میرے پاس اپنے موکلوں کے بارے میں زیادہ تر معلومات میں ان کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا کیونکہ اسے خفیہ قرار دے دیا گیا ہے، اور میرے پاس جو کچھ ہے وہ بہت زیادہ ترامیم کے بعد دیا گیا ہے۔ پانچ صفحات کی دستاویزات ایسی ہی ہیں، جیسے سیاہی کے سمندر میں تیرتے ہوئے چند الفاظ ہوں۔۔۔
منصور عدیفی کے خیال میں بحالی کا معاہدہ ایک غیر مرئی جال کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ اسے یقین نہیں ہے کہ یہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ وہ سربیا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اس کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اور وہ پیشگی اجازت کی درخواست کے بغیر بلغراد نہیں چھوڑ سکتا
ان کا کہنا ہے کہ پولیس بھی ان کے پیچھے ہے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ فون پر سننے کا سافٹ ویئر نصب ہے۔ انہیں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا وہ جمعہ کی نماز میں شاذ و نادر ہی شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ انہیں بس کے ذریعے قریب ترین مسجد تک بھی طویل سفر کر کے جانا پڑتا ہے
ان کے پاس رہائش کا اجازت نامہ ہے اور اسے کرایہ اور مزید تعلیم کے لیے مالی امداد ملتی ہے لیکن کام تلاش کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ گوانتانامو میں گزارے گئے پندرہ برسوں کی وضاحت نہیں کر سکتے، لہٰذا وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مشکلات سے دوچار ہیں
وہ ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہنے پر مجبور ہیں، جو حکومت نے ان کے لیے شہر کے نواح میں تلاش کیا ہے اور یہاں کچھ اور مسلمان بھی رہتے ہیں لیکن یہاں حلال گوشت کسی جگہ دستیاب نہیں ہے
وہ زیادہ تر کھانا گھر پر اکیلے ہی کھاتے ہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے وہ قریب میں موجود شاپنگ مال جا کر بس ادھر ادھر گھوم کر اپنا وقت گزارتے ہیں
جب منصور عدیفی کسی خاندان کے قریب سے گزرتے ہیں، تو وہ بہت دیر تک انہیں تکتا رہتا ہے
وہ کہتے ہیں ”میں بے بس محسوس کرتا ہوں۔ ایک دن مال میں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سِیپ کی مانند ہوں، جو اندر سے خالی ہے“
جب وہ سنہ 2016ع میں بلغراد آئے تو کچھ ہی عرصے کے بعد منصور عدیفی نے امریکی میڈیا کو اپنا پہلا انٹرویو دیا اور بتایا کہ وہ اپنی نئی زندگی سے خوش نہیں ہیں
اس کے ردعمل میں سربیا کے ایک اخبار نے پورے صفحے پر ایک کہانی شائع کی اور اس میں عدیفی کو القاعدہ کا ’جہادی‘ اور ’سزا یافتہ دہشت گرد‘ کہتے ہوئے انہیں میزبان ملک کے لیے زحمت قرار دے دیا
وہ بتاتے ہیں کہ جن سے انہوں نے دوستی کرنے کی کوشش کی انھیں پولیس نے متنبہ کر دیا۔ ان کے پاس واٹس ایپ پر ہونے والی اس بات چیت کے اسکرین شارٹس بھی ہیں، جن میں ان سے گفتگو کرنے والے لوگ ان سے ہونے والی بات چیت کی وضاحت دیتے ہیں
یہ ان کے پہلی بار یہاں آنے کے چند ہفتوں کے بعد کیفے جانے سے لے کر اب حال ہی میں کیے جانے والے وزٹ کے بعد تک ہونے والی بات چیت تھی۔ اور پولیس نے بظاہر سربیا کے ان باشندوں کے گروہ سے سوالات کیے تھے، جو کہ ان کی میز کے قریب بیٹھے ہوئے تھے
انہوں نے مسجد میں ملنے والے ایک مسلمان لڑکے سے کیفے میں بھی گذشتہ برس ملاقات کی تھی
انہوں نے اسے روکا اور اس سے پوچھا، کیا تم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے منصور کو جانتے ہو؟
منصور عدیفی کہتے ہیں ”میں نے اس شخص سے کہا کہ میرا نمبر ڈیلیٹ کر دو۔۔۔ میں نہیں چاہتا کسی کو بھی میری وجہ سے تکلیف ہو“
سنہ 2018ع میں پی بی ایس فرنٹ لائن کو انٹرویو دینے کے بعد منصور عدیفی کو پولیس نے گرفتار کیا اور انہیں مارا پیٹا
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہمراہ لینگوئج کی کلاسیں لینے والے اُن کے دو دوستوں کو بھی گرفتار کیا گیا
”جب میں نے اپنے ساتھ موبائل مرمت کرنے والے کورس میں ایک خاتون کے ساتھ لائبریری میں بات چیت کی تو اسے بھی افسران کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا“
عدیفی کے پاس اب بھی وہ پیغامات ہیں، جو اس خاتون نے انہیں بھیجے ،جس میں وہ پوچھتی ہیں کہ سادہ کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں نے اسے خبردار کیوں کیا؟
اسی وجہ سے منصور عدیفی اپنا زیادہ تر وقت اپنے فلیٹ میں اکیلے گزارتے ہیں۔ وہ بہت ہی کم اپنے ہمسایوں سے بات چیت کرتے ہیں اور مال میں بھی کم جاتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”ایسا میں تب سے کر رہا ہوں، جب گذشتہ برس گھر سے باہر نماز پڑھنے کی وجہ سے پولیس نے اس جگہ کو گھیر لیا تھا“
منصور عدیفی کا کہنا ہے ”کچھ عرصے بعد آپ سب چھوڑ دیتے ہیں مایوس ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ تنہا ہیں، میں اب زیادہ تر اپنے آپ میں ہی رہتا ہوں“
عدیفی کے لیے قریبی دوست کا متبادل بلغراد میں گوانتا ناموبے کے سابقہ قیدیوں کا بین الاقوامی نیٹ ورک ہے۔ اس نے انہیں ملنے میں مدد کی اور وہ انہیں بھائی کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں یا پھر فون پر بات کرتے ہیں
اس گروپ کا زیادہ تر مواد غیر سیاسی ہوتا ہے تاکہ میزبان ملکوں میں کوئی بھی خطرے میں نہ آئے
منصور عدیفی کہتے ہیں ”ہم گانے گاتے ہیں، لطیفے سُناتے ہیں، ایک دوسرے کو تصاویر بھیجتے ہیں، ایک دوسرے کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ہم گوانتا ناموبے کی یاداشتوں پر بات کرتے ہیں، کپڑوں اور خوراک پر بات کرتے ہیں“
عدیفی کا کہنا ہے کہ یہ ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے
منصور عدیفی گوانتا ناموبے کے ان سابقہ قیدیوں میں سے سب سے زیادہ جس سے گفتگو کرتے تھے، وہ سبرے القریشی ہیں۔ یہ ان کے یمنی دوست ہیں جنہوں نے تقریباً تیرہ برس اس قید خانے میں گزارے۔ انہیں سیمے میں زبردستی آباد کیا گیا۔ یہ قزاقستان کا وہ شہر ہے جہاں ماضی میں جوہری تجربے کیے گئے تھے
القریشی کو سنہ 2014ع میں قزاقستان منتقل کیا گیا تھا۔ ان کے ہمراہ تین اور قیدی بھی تھے۔ ان میں عاصم تھے، عبداللہ الخالقی بھی تھے، جو کہ وہاں پہنچنے کے چار ماہ بعد گردے فیل ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ ان میں لطفی بن علی بھی تھے جو کہ طبی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور انہیں موریطانیہ منتقل کیا گیا جہاں گذشتہ برس ان کی وفات ہو گئی
بن علی چلے گئے تو القریشی سیمے میں اکیلے رہ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں زندگی جیل سے زیادہ بدتر تھی۔ انہوں نے قزاقستان کے صدر اور وزیراعظم کو، امریکی سفارتخانے کو اور آئی سی آر سی کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں انہوں نے رہائی کے لیے یا پھر گوانتاناموبے میں واپس بھجوا دینے کی درخواست کی مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا
القریشی کہتے ہیں ”گوانتانامو یہاں سے بہتر جگہ تھی کیونکہ وہاں مجھے امید تھی کہ ایک دن میں بہتر جگہ پر جاؤں گا“
انہوں نے بتایا ”جب حکومتی وفد قزاقستان سے آیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھ سے وہاں ایک شہری جیسا سلوک کیا جائے گا۔ لیکن وہ ایک جھوٹ تھا، نہ کوئی آئی ڈی ہے نہ خاندان نہ دوست۔ میں یہاں پھنس گیا تھا جس کا کوئی اختتام نہیں تھا“
القریشی جب اپنے فلیٹ سے نکلتے ہیں تو اکثر پولیس انہیں روک لیتی ہے اور ان سے شناختی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں، جو ان کے پاس نہیں ہیں
کبھی کبھار انہیں پولیس تھانے لے جاتی ہے، جہاں انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک آئی سی آر سی سے کوئی نہیں آتا ان کو جانے نہیں دیا جاتا
انییں چہرے پر آنے والے زخم کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ زخم سادہ لباس میں ملبوس ایک پولیس والے کی طرف سے گھونسا مارنے کی وجہ سے آیا تھا۔ پولیس افسر نے انہیں اس وقت گھونسا مارا تھا جب تلاشی کی غرض سے انہوں نے اپنی جیکٹ اتارنے سے انکار کر دیا تھا
انہوں نے بتایا کہ اُن کے دوست لطفی بن علی کی طرح انہیں بھی علاج کے لیے دارالحکومت جانے کی اجازت نہیں ہے
وہ جب پولیس اسٹیشن پہنچے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ جس شخص نے اُن پر حملہ کیا تھا اس کا کیا ہوا تو انہیں جواب ملا کہ ”بکواس بند کرو اور اپنے گھر جاؤ، تم یہاں کچھ نہیں ہو“
القریشی کہتے ہیں ”اس واقعے نے سیمے میں میرے وجود کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ ایک زندگی مکمل طور پر مقامی حکام کے رحم و کرم پر گزری جو مجھے سزا یافتہ دہشت گرد سمجھتے ہیں۔“
القریشی نے کہا ”پہلا درد گھونسے کا ہے، دوسرا درد یہ ہے کہ آپ کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ آپ کی کوئی وقعت نہیں ہے، کوئی حیثیت نہیں ہے اور آپ کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے“
القریشی پر امریکی حکام نے کوئی فرد جرم عائد نہیں کی، جس نے الزام لگایا کہ وہ القائدہ کا رکن ہے جس نے افغانستان میں ایک تربیتی کیمپ میں شرکت کی تھی۔ ان کو پاکستان کے شہر کراچی میں القاعدہ کی ایک کمیں گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا لیکن وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ کبھی القاعدہ کے رکن رہے ہیں
گوانتانامو میں حراست کے دوران القریشی نے مصوری شروع کی اور بہت سی تصاویر بنائیں جنہیں بعد میں ضبط کر لیا گیا۔ اس نے سیمی میں یہ مشق جاری رکھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ واحد چیز ہے جو انہیں اپنا دماغی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اسے آن لائن کچھ آرڈر کرنے کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا پینٹ اور کینوس تک اس کی رسائی محدود ہے
انہیں اپنا کام سابق قیدیوں کی بنائی گئی تصاویر کی ایک نمائش میں بھیجنے کی دعوت دی گئی، لیکن ان کے پاس قزاقستان کی کوئی شناختی دستاویزات نہیں ہیں، اس وجہ سے وہ اپنی تصاویر کی تصدیق نہیں کروا سکے اور نمائش میں نہیں بھیج پائے
القریشی نے بین الاقوامی ادارے آئی سی آر سی سے کہا ”کیا میں اپنی بنائی ہوئی پینٹگز جلا دوں؟“ ان کی طرف سے جواب ملا ”ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمہارے سر پر چھت ہے اور تمہیث کھانے کے لیے خوراک میسر ہے“
سات سال پہلے القریشی کی شادی ہوئی تھی، جو ان کے خاندانوں والوں نے یمن میں ایک خاتون سے کروائی تھی لیکن وہ اس خاتون سے ابھی تک نہیں مل پائے ہیں کیونکہ انہیں سیمی سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ خاتون قزاقستان نہیں آ سکیں
وہ قزاقستان کے حکام سے کئی مرتبہ یہ التجا کر چکے ہیں کہ انہیں قزاقستان سے جانے کی اجازت دی جائے لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سات سال سے وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب انہیں اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملے گا
گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ میں مجموعی طور پر 779 افراد رہے جن میں سے صرف بارہ پر فرد جرم عائد کی گئی اور فقط دو کو سزا سُنائی جا سکی
قانون کی درس گاہ سیٹن ہال یونیورسٹی لا اسکول کی جانب سے امریکی محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے 2006 کے تجزیے کے مطابق اُس برس جیل میں بچ جانے والے 517 قیدیوں میں سے صرف پانچ فیصد کو دراصل امریکی فورسز نے حراست میں لیا تھا۔ جبکہ 86 فیصد کو یا تو پاکستان یا افغانستان میں شمالی اتحاد کے عسکریت پسند اتحاد نے گرفتار کیا تھا اور ’ایک ایسے وقت میں امریکہ کے حوالے کر دیا تھا جب امریکہ نے مشتبہ دشمنوں کو پکڑنے کے لیے بڑی بڑی رقوم ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔‘
عدیفی کہتے ہیں ”میں ایک پیکیج ڈیل تھا جو امریکہ کو فروخت کیا گیا اور پھر سربیا کو فروخت کر دیا گیا۔۔ یہ عدیفی کا مقدر تھا جو غلط وقت پر غلط جگہ پر پھنس گیا تھا!“
سنہ 2007ع میں گوانتانامو کے انتظامی جائزہ بورڈ میں، سات سال قید میں گزارنے کے بعد، منصور عدیفی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کا ’جہادی‘ اور ’بیٹا‘ تھا اور ’امریکہ کا دشمن ہونا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘
اب ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اشتعال انگیز بیان دراصل ان کی طرف سے ایک احتجاج تھا۔ انتظامی جائزہ بورڈ فرضی عدالتی سماعتیں تھیں، جن میں قیدیوں کا کوئی وکیل موجود نہیں تھا
انہوں نے کہا کہ انہیں جائزہ بورڈ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے یہ پوچھ گچھ یا تفتیش کا حصہ ہے۔ ’ہمارے لیے سب کچھ پوچھ گچھ تھی۔ تو میں نے سوچا، آج میں انہیں شکست دینے جا رہا ہوں، میں انہیں بتانے جا رہا ہوں، میں تمہارا دشمن ہوں‘
عدیفی اس وقت تک اپنے ساتھی قیدیوں کے غیر رسمی رہنما بن گئے۔ بھوک ہڑتالوں اور دیگر مظاہروں کا اہتمام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو محافظوں میں ایک عرفیت حاصل کی، ’مسکراتے ہوئے پریشان کن۔‘
انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم کے لیے بھی وقف کر دیا، روانی کے ساتھ انگریزی بولنے اور لکھنے کے لیے بھی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے گوانتانامو کے بارے میں اپنی یادداشت دو بار لکھیں۔ کاغذ کے ممنوعہ ٹکڑوں پر لکھا ہوا پہلا مسودہ ضبط کر کے تباہ کر دیا گیا تھا
جب انہیں احساس ہوا کہ قانونی خطوط کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے تو وہ گھنٹوں کیمپ کے کلاس روم میں بیٹھا کرتے تھے، ان کے پاؤں فرش سے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے تھے لیکن وہ خطوط لکھتے رہے جو بعد میں اس کی کتاب کی بنیاد بن گئے
عدیفی اب سربیا میں حراست کے بعد کی زندگی کی جدوجہد کے احوال پر مبنی ایک نئی کتاب پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے بلغراد کے فلیٹ کی ایک دیوار رنگین چپکنے والی پرچیوں سے بھری ہوئی ہے جس میں ایسے واقعات بیان کیے گئے ہیں، جو وہ اپنی کتاب میں شامل کریں گے
ان یاداشتوں میں پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ ریکارڈ کی گئی ہے، دوست بنانے اور بیوی تلاش کرنے کی ان کی کوششوں کو کیسے ناکام بنایا گیا ہے اور صدر بائیڈن کی توجہ ان کی حالت زار کی طرف مبذول کرانے کی کوششوں کی تفصیل بھی شامل ہے
ہر روز وہ مختلف آن لائن اور واٹس ایپ چیٹ گروپوں میں دیگر سابق قیدیوں سے بات چیت کرتے ہیں، جن کی تعداد مجموعی طور پر ایک سو سے زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو عدیفی کی طرح پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے
انسانی حقوق کی عالمی تنطیم ایمنسٹی یو ایس اے میں سکیورٹی اور انسانی حقوق کی ڈائریکٹر ڈیفنی ایویتار نے کہا کہ امریکہ نے ان افراد کے لیے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں کوئی اعتراف، کوئی معاوضہ، کوئی حقیقی بحالی نہیں ملی
اس کے بعد انہیں کسی اور صورتحال میں منتقل کرنا، جہاں ان پر پابندی ہے، سفر نہیں کر سکتے، روزی کما نہیں سکتے، آگے نہیں بڑھ سکتے- یہ نامناسب ہے
منصور عدیفی کے لیے گوانتانامو کے بعد ایک نئی زندگی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ بیوی تلاش کریں اور اُن کا اپنا ایک خاندان ہو۔ یہ وہی ہے جس کے بارے میں وہ رات کو سوچتے ہیں جب ان کی پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن سربیا میں کسی سے ملنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق انہیں ایک مسلمان عورت سے شادی کرنی چاہیے اور روایتی طریقے سے اس کے خاندان کے ذریعے اس سے ملنا چاہیے لیکن بلغراد میں مسلم کمیونٹی میں انضمام کی ان کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ کمیونٹی میں دہشت گردی سے وابستہ ہونے کا خوف وسیع ہے
انہوں نے کہا کہ عدیفی کو 2019ع میں بیرون ملک ایک خاتون کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ ان کا تعلق ایک اچھے خاندان سے تھا اور انہوں نے ایک سال تک بات چیت کی جبکہ انہوں نے سربیا کے حکام سے اس خاتون سے ملنے کے لیے سفر کرنے کی اجازت کی اپیل کی
انہوں نے کہا کہ وہ ان کی پہلی محبت تھی۔ آخر میں انہوں نے حکام سے درخواست کی کہ وہ انہیں اس کے پاس جانے کی اجازت دیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بالآخر، اس خاتون کے گھر والوں کا صبر ختم ہو گیا اور ان کی کسی اور سے شادی کر دی گئی۔‘
منصور عدیفی کہتے ہیں ”میں نے اب تک جو بدترین تکلیف محسوس کی وہ کال کوٹھڑی نہیں تھی، یہ گوانتانامو میں پندرہ سال نہیں تھے، یہ وہ وقت تھا جب میں نے کسی ایسے شخص کو کھو دیا جسے میں پیار کرتا تھا“
”گوانتانامو میں وہ آپ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ آپ کی روح کو چھو نہیں سکتے۔ محبت ایک ایسا درد ہے جو آپ کی روح کو چھوتا ہے اور آپ کو بہت تکلیف ہوتی ہے“
جولائی 2004 میں گوانتانامو میں قیدیوں کے پہنچنے کے دو سال سے زائد عرصہ بعد پینٹاگون نے قیدیوں کی حیثیت کا پہلا باضابطہ جائزہ شروع کیا اور اڑتیس افراد کو ’این ای سی‘ یا ’غیر دشمن جنگجو‘ کی حیثیت سے رہائی کے لیے کلیئر کر دیا
اس حیثیت نے موثر طور پر تسلیم کیا کہ یہ افراد القاعدہ یا طالبان سے وابستہ نہیں تھے اور انہوں نے امریکہ کے خلاف اقدامات نہیں کیے تھے۔ امریکہ نے کہا کہ اسے شبہ ہے کہ وہ مشرقی ترکستان کی تحریک آزادی کے رکن ہیں جو ایک چھوٹا عسکریت پسند گروپ ہے جو چینی خطے کی آزادی کے لیے وقف ہے جسے سنکیانگ بھی کہا جاتا ہے
ان افراد کو ان کے آبائی ملک چین واپس بھیجنا غیر محفوظ تھا جہاں اویغوروں کو ریاست کی طرف سے جبر کا شکار ہیں، لہذا امریکہ نے البانیہ کی حکومت کے ساتھ انھیں البانیہ کے حوالے کرنے کا معاہدہ کیا۔ بالآخر انھیں 2006 میں رہا کیا گیا اور رات گئے البانوی دارالحکومت تیرانا میں پہنچا دیا گیا
آزاد ہونے پر ان کی ابتدائی خوشی اس وقت کم ہو گئی جب انہیں سیدھا شہر کے نواح میں ایک گندے پناہ گزین کیمپ میں لے جایا گیا جہاں انھیں ایک سال سے زیادہ وقت گزارنا تھا
باون سالہ اویغور ابو بکر قاسم نے بتایا کہ یہ ایک نئی دنیا تھی۔ ابو بکر قاسم اب تیرانا کے مضافات میں ایک پسماندہ اور غریب علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہے ہیں
انھوں نے کہا کہ پانچ سال ہم گوانتانامو میں گرمی میں تھے اور اچانک ہمیں شدید سردی میں البانیا پہنچا دیا گیا۔ ہر روز ہم بھاری لباس پہنتے تھے اور کیمپ میں موجود اجنبیوں کے درمیان بے ذائقہ کھانا کھاتے تھے۔‘
قاسم نے ہمیشہ مشرقی ترکستان کی تحریک آزادی کا رکن ہونے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کے راستے ترکی جا رہے تھے جب عسکریت پسندوں نے انہیں اٹھا کر امریکہ کے حوالے کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منصور عدیفی کی طرح قاسم اور البانیہ جانے والے دیگر سابق قیدیوں سے بھی مالی امداد، پاسپورٹ، شہریت اور اپارٹمنٹس کا وعدہ کیا گیا تھا، جو ان کے لیے تیار تھے، لیکن اصل میں ایک بہت مختلف حقیقت ان کی منتظر تھی
گوانتانامو میں 2002 سے 2006 تک حراست میں لیے گئے ازبک ذاکر حسام نے کہا کہ گوانتانامو میں اس وقت چھ کیمپ تھے اور البانیا میں پناہ گزین کا ساتواں کیمپ تھا۔ حسام نے کہا کہ ایک کمرے میں چار یا پانچ افراد تھے، کیمپ کے ارد گرد خاردار تاریں تھیں اور ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور نہ ہی اچھا کھانا تھا۔ حکام نے ہمیں بتایا کہ ان کا واحد کام ہمیں سیاسی اور جسمانی طور پر محفوظ رکھنا ہے اور یہی تھا
پناہ گزین کیمپ میں ایک سال تک رہنے اور متعدد مظاہروں کے بعد تیرانا میں سابق قیدیوں کو اپارٹمنٹس میں منتقل کر دیا گیا۔ اب وہ گوانتانامو کے بعد کی زندگیوں میں عدیفی اور القریشی سے بھی آگے ہیں اور بعض حوالوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ کئی نے شادی کی ہے یا دوبارہ شادی کی ہے
قاسم اور حسام دونوں کے بچے ہیں۔ وہ کرایہ اور بلوں کے لیے ماہانہ مالی امداد سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی مقامی برادریوں میں ضم ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی اکثریتی والے ملک میں پہنچ گئے
لیکن دوسرے طریقوں سے وہ سربیا، سلوواکیہ اور قازقستان میں سابق قیدیوں کی طرح پابندیوں کے تحت رہتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی پاسپورٹ یا ورک پرمٹ نہیں ہے، لہذا وہ اپنی معمولی مالی امداد کی تکمیل کے لیے سفر نہیں کرسکتے یا قانونی طور پر روزی نہیں کما سکتے
قاسم نے کہا” یہ آزادی نہیں ہے۔۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم جیل سے باہر ہیں، لیکن ہم آزاد نہیں ہیں“
انہوں نے کہا کہ قاسم کی اہلیہ ’سستی ترین سبزیاں، سستے ترین پھل، وہ سبزیاں خریدتی ہیں جو تھوڑی خراب ہوتی ہیں‘۔
’ہم مارکیٹ میں نہیں خرید سکتے کیونکہ ہمارے پاس پندرہ دن میں پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ تو ہم جہاں بھی بچت کر سکتے ہیں کرتے ہیں. ہم یہاں اکیلے ہیں، ہم غیر ملکی ہیں، ہمارا کوئی خاندان نہیں ہے جو مدد کر سکے۔ ‘
مالی امداد سے مشکل سے گزارا ہوتا ہے لیکن وہ مستقل ایک غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں، کیونکہ یہ صرف سابق قیدیوں سے منسلک ہے نہ کہ ان کے اہل خانہ سے۔ جب قاسم کے دوست اور ساتھی سابق قیدی علاء عبد المقوط مزاروہ پانچ ماہ قبل کوویڈ سے انتقال کر گئے تو ان کی اہلیہ حتیچے کو البانوی حکومت کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ امداد فوری طور پر منقطع کر دی جائے گی۔ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ جس سرکاری کرائے کے مکان میں رہتی تھیں وہ ان سے ستمبر میں خالی کرا لیا جائے گا
قاسم کی طرح علاء کو بھی 2005 میں غیر دشمن جنگجو قرار دینے کے بعد بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حتیچے ذاتی طور پر وزارت داخلہ کے پاس اپنے کیس کی درخواست کرنے گئیں لیکن انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ان کے پیغامات کا جواب نہیں ملا ہے
وہ وکیل کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اپنے تین بچوں کی کفالت کے لیے اسے کل وقتی کام تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی، جبکہ ان کی دیکھ بھال کی جائے گی۔ انھیں سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پناہ اور کھانا نہیں کھلا سکے گی۔ ان کی دوسری پریشانی یہ ہے کہ وہ مستقبل میں ظلم و ستم کا نشانہ بنیں گے کیونکہ ان کے والد گوانتانامو میں تھے
انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کے آنے والے دنوں سے خوفزدہ ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ گوانتانامو کا داغ ان کے ساتھ رہے گا
’حسام نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے۔ ‘یہ زندگی کے ہر حصے میں اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، آپ یہ انتخاب نہیں کر سکتے کہ کہاں رہنا ہے، آپ بیرون ملک اپنے خاندان سے ملنے کے لیے سفر کرنے کا انتخاب نہیں کر سکتے، آپ یہ انتخاب نہیں کر سکتے کہ کہاں کام کرنا ہے۔ ہر کوئی شناختی کارڈ اور دستاویزات اور آپ کے کام کی تاریخ مانگتا ہے۔
حسام ہر ہفتے ایک وسیع جنک مارکیٹ (کوڑا بازار) میں جاتا ہے جہاں وہ الیکٹرانک اور میکنیکی اشیاء کی تلاش کرتا ہے جو وہ خرید سکتا ہے، مرمت کر سکتا ہے اور دوبارہ فروخت کر سکتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ، ریڈیو، ڈرلز، کچھ بھی وہ کھول سکتا ہے اور ٹھیک کر سکتا ہے۔ لیکن چیزوں کا انتخاب بہت مشکل کام ہے اور ان منافع بھی بہت معمولی ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ فروری کے ہفتے کے آخر میں مارکیٹ کا دو گھنٹے کا دورہ صرف خراب سپیکروں کا ایک جوڑا ہی مل سکا۔
وہ سب سے بڑھ کر چاہتا ہے کہ وہ اپنی میکانیکی مہارتوں کی بنیاد پر ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہو، اور اپنے دو معذور بچوں کے لیے بہتر زندگی فراہم کرسکے، جو فی الحال مناسب دیکھ بھال حاصل نہیں کر سکتے۔ اسے 2020 میں پتہ چلا کہ اس کا نام ‘ورلڈ چیک’ پر درج ہے۔ یہ ایک عالمی فہرست یا ‘ڈیٹا بیس’ ہے جو اس وقت ان کے لیے بے معنی تھا۔ یہ فہرست بینک صارفین کے مجرمانہ پس منظر کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کس شخص کا نام اگر اس فہرست میں شامل ہو جائے تو وہ شخص کچھ نہیں کر سکتا اور جو کمپنی یہ فہرست بناتی ہے وہ اس کو نہیں بتاتی کہ اس کا نام اس فہرست میں شامل ہے۔
اس سال یہ بات سامنے آئی کہ گوانتانامو کے بہت سے سابق قیدیوں کو ڈیٹا بیس میں شامل کیا گیا ہے جن میں سے بہت سے اس کے ‘دہشت گردی’ کے زمرے میں شامل ہیں باوجود اس کے کہ ان پر کبھی کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
اب ایک برطانوی قانونی فرم کی مدد سے انہیں آہستہ آہستہ کچھ ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔ حسام کو 3000 ڈالر ملے۔ قاسم کو 3000 ڈالر ملے۔ منصور عدیفی کو ابھی تک ادائیگی نہیں ملی ہے، وہ اس پیشکش پر اختلاف کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ وکلاء 30 فیصد لیتے ہیں تو یہ بہت کم ہے۔
گذشتہ ماہ عدیفی کو منی ٹرانسفر سروس ویسٹرن یونین کی وضاحت کے بغیر منقطع کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس سروس کا استعمال یمن میں اپنے اہل خانہ کو تھوڑی رقم گھر بھیجنے کے لیے کر رہے تھے تاکہ وہ اپنی والدہ کے ماہانہ طبی اخراجات کی ادائیگی میں مدد کر سکیں اور ساتھ ہی بیرون ملک سے کام کے لیے عطیات یا ادائیگیاں وصول کر سکیں۔ کمپنی کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے ویسٹرن یونین نے کہا کہ وہ عدیفی یا بی بی سی کو یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا نام کیوں کاٹ دیا گیا۔ ایک ترجمان نے کہا کہ کمپنی ‘اپنی ریگولیٹری اور تعمیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں بہت محتاط ہے’ اور انہوں نے عدیفی سے رابطہ کیا تھا۔
عدیفی کو یقین ہے کہ یہ گوانتانامو ہے۔ اس کی غیر قانونی حراست کا طویل سایہ اس کی زندگی کے اتنے حصوں پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ اس کا ہر وقت پیچھا کرتا ہے۔
انھوں نے بڑے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ ‘یہ آپ کے ساتھ ہر لمحہ موجود رہتا ہے۔’
’امریکہ نے آپ کو 15 سال کی سزا دی اور پھر باقی دنیا آپ کو ساری زندگی سزا دے رہی ہے۔‘
گوانتانامو پہنچنے کی 20ویں سالگرہ کے چند روز بعد فروری میں ایک رات عدیفی امریکی ریاست ورجینیا میں طلبا کے ایک گروپ سے گوانتانامو میں تیار کردہ فن کے بارے میں ویڈیو ٹاک دینے کے لیے اپنا اپارٹمنٹ میں تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے ایک مناسب کونا دیکھ کر اپنی چھوٹی سی تحریری میز وہاں منتقل کی۔
عدیفی شاذ و نادر ہی انٹرویو دینے یا بات کرنے کی پیشکش مسترد کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک کتاب ہے جسے وہ متعارف کرانا چاہتے ہیں اور وہ گوانتانامو کے بارے میں نوجوان نسلوں کو آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔.
عدیفی نے گوانتانامو کے قیدیوں کے فن پاروں کی فہرست اور فنکاروں کے بارے میں تعارفی کلمات کے بعد ان فن پاروں کو اپنے ساتھ جیل سے باہر لے جانے کے لیے ان کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔
عدیفی سے گوانتانامو کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے گئے۔ لیکن وہ خوش دلی سے ہر ایک کا جواب دیتے رہے۔ ایک طالب علم نے پوچھا ’آپ نے کس وقت ہار مان لی؟‘
عدیفی نے کہا کہ کوئی ہار نہیں مان رہا تھا، جس لمحے آپ ہار مان جاتے ہیں آپ ہار جاتے ہیں۔
’ہم پینٹ کرتے ہیں اور وہ پینٹنگز کو دور لے جاتے ہیں۔ ہم لکھتے ہیں اور وہ ہمارے الفاظ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ہم بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور وہ ہڑتال توڑ دیتے ہیں۔ ہم دوبارہ بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب دو بار لکھی۔ انہوں نے پہلی بار اسے چھین لیا اور اس نے میرا دل توڑ دیا۔ لیکن میں نے اسے دوبارہ لکھا ہے۔‘
عدیفی گوانتانامو کے بارے میں اکثر لیکچر دیتے ہیں۔ بہت سے طالب علم اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب یہ واقعات پیش آئے تھے.”
عدیفی نے ایک امریکی مصنف کی مدد سے بلغراد میں اپنا مسودہ مکمل کیا اور یہ گذشتہ سال کے آخر میں شائع ہوا۔ انھوں نے کاروبار میں بیچلر کی ڈگری بھی مکمل کر لی ہے۔ ان کا مقالہ سابق قیدیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ ہے جو سماجی زندگی اور لیبر مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہوئے جہاں بھی انہیں بھیجا گیا تھا۔ گوانتانامو اب بھی عدیفی کی دنیا کا احاطہ کرتا ہے۔ شاید ہی وہ ایسا کچھ کرے جو اس کی حراست کے اثرات سے نکلنے کی کاوش نہ ہو۔
جب آن لائن بات ختم ہوئی تو عدیفی نے بتی بجھائی اور اپنے فلیٹ کو ٹھیک کیا۔ رات ہو چکی تھی لیکن وہ بات کرنا چاہتا تھا۔ بات چیت ایک بار پھر خاندان کی طرف مڑ گئی اور ایک موقعے پر عدیفی نے ایک باپ کی نقل کرنا شروع کر دی جو اپنے چھوٹے بچوں کو کھیت میں کام کرنے اور اپنا رویہ درست کرنے کا کہہ رہا تھا۔ جلد ہی وہ اس تصور میں اتنا غرق ہو گیا کہ کمرے کے ارد گرد اپنے خیالی بیٹے اور بیٹی کا پیچھا کرنے کے لیے کود پڑا، ایک خوشی اور مسرت کا تصور کر کے ہنس رہا تھا اور اپنے بچوں کے خیالی نام پکار تھا۔
پھر اس نے اپنے خیالات پر قابو پا لیا اور رک گیا اور کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔
عدیفی کے لیے اس تصور کو حقیقت میں بدلنا گوانتانامو سے واحد حقیقی فرار ہوگا۔ اس دن تک وہ اپنی زندگی کے عجیب مرحلے میں بند رہے گا جس کی وضاحت اس کی طویل غیر قانونی حراست سے ہوتی ہے۔
بڑی افسردہ آواز میں عدیفی نے کہا کہ ’میں کچھ بھی کروں، میرے ارد گرد شک ہوگا۔ لوگ صرف یہ یقین نہیں کر سکتے کہ امریکہ غلطی کرے گا۔‘
اپریل میں عدیفی کے وکیل کو ان کی حکومت کی طرف سے ایک خفیہ ای میل موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ منصور کے ساتھ حکومت کا معاملہ اب ختم ہو گیا ہے اور ’پروگرام بند کیا جا رہا ہے۔‘
وکیل نے متعلقہ حکومتی اہلکار سے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عدیفی پر کام کرنے، گاڑی چلانے اور سفر کرنے کی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ حکومتی اہلکار نے جواب دیا کہ اس پر غور اگلے اجلاس میں کیا جائے گا۔
عدیفی کو سربیا بھیجنے کے تقریبا چھ سال بعد حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا گیا کہ ان پر پابندیاں عائد تھیں۔ غیر اعلانیہ سہی لیکن ان پر سخت پابندیاں تھیں۔ ابھی تک وہ اس بارے میں حتمی جواب کے منتظر ہیں۔۔
بشکریہ: بی بی سی اردو