سسی، ہیر، سوہنی، صاحباں، کیا ان سب کے باپوں نے انہیں سمجھایا نہیں ہوگا؟ بھائیوں نے کس کس طرح ان کے منت ترلے کیے ہوں گے؟ جب یہ سب نہیں مانی ہوں گی تو پھر انتہائی قدم اٹھایا گیا ہوگا
انجام کیا ہوا؟ جو بھی ہوا، چھوڑ دیں، پراں کریں۔۔۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے کبھی سوچا ان کی عمریں کیا تھیں؟
ہر داستان میں صرف یہی ملے گا کہ فلانے سوداگر، فلانے زمیندار کی بیٹی جب جوان ہوئی تو رانجھے، مہینوال یا پنوں تک اس کی خبر پہنچی اور پھر ساری آگے کی کارروائی شروع ہوئی۔ کوئی خواب میں دیکھ کے عاشق ہو گیا، کسی نے حسن کے چرچے دور دور تک پھیلے سنے، جو کچھ بھی ہوا بات صرف ایک لفظ بول کر نمٹا دی گئی کہ ’جوان ہوئی‘
ان کے مقابلے میں جو کوئی بھی آیا، اسے ولن بنایا گیا اور آج تک داستانوں میں سب سے مشہور پیار کا دشمن کیدو رہا ہے۔ کون تھا کیدو؟ ہیر کا چاچا تھا
آپ سب میں سے کون مرد ایسا ہے، جو دیکھے کہ میرے بھائی کی بیٹی ایویں کسی آوارہ چرواہے سے روز ملنے جاتی ہے اور وہ اسے روکے نہ؟ اور وہ اپنی ہیر کی عمر کیا ہوگی؟ وہ لوگ کیوں ملتے تھے؟ کیا رانجھا صرف بانسری بجاتا رہتا تھا؟
تقریباً یہ سارے لوگ داستان کے انجام میں فوت ہو جاتے ہیں۔ کبھی آج تک آپ نے حساب لگایا کہ فوتگی کے ٹائم ان کی عمریں کیا ہوں گی؟ یہ جو منہ زور دریا میں ڈوب جانا تھا، یا وہ صاحباں کے بھائیوں سے تیر کھانے کا سین تھا وہ خودکشی نہیں تھی؟ جانتے بوجھتے ہوئے کیوں اتنے بڑے پنگے لیے ان لوگوں نے؟ اور جس جس نے ان کو روکا تھا وہ آج تک بدنام ہیں۔ مائی ہیر کے مزار بن گئے، کیدو غریب کے نام کی اینٹ تک نہیں ملتی
نئے پرانے جتنے شاعر ہیں، یہ سب کس جوانی کی بات کرتے ہیں؟ سولہ برس کی بالی عمریا کو سلام، وہ گانا کس نے نہیں سنا؟
اگر تین چار سو برس پرانے بلوغت کے معیار کو شاعر اب تک نہیں بدل سکے، ان کی محبوبہ کم سنی کے معیار سے کبھی آگے نہیں نکل سکی، کچی کلی اور کم سن دوشیزہ جیسے واہیات الفاظ بلکہ ’خواہشات‘ کو ہم چیلنج نہیں کر سکے تو کس منہ سے ان بچوں کو روکتے ہیں، جو انڈے سے باہر نکلتے ہی بھاگ کے شادی کر لیتے ہیں؟
کبھی ہمارے کسی شاعر یا داستان گو نے پختہ عمر کی عورت سے اظہارِ عشق فرمایا ہے؟ پچیس، چھبیس یا تیس سال کی محبوبہ کسی افسانے میں پائی گئی ہے؟ فلموں میں چالیس برس کی اچھی خوبصورت خاتون کو زبردستی بیس کا بنا کر ان کے اردگرد کہانی گھماتے رہیں گے۔۔۔ کہانی کو پختہ عمر کی طرف کیوں نہیں لے کر جاتے؟
ہمارا سارا کلچر جوانی، جوبن، عشق، فنائی قسم کی محبت اور طوفانی معاشقوں سے بھرا پڑا ہے، لیکن بچہ کوئی ان سے متاثر ہوگا تو ہم کہیں گے باپ کی پگڑی رول دی، ماں روتے روتے مر گئی۔۔۔ او مطمئن قسم کے لوگو! بچوں کو ساری زندگی یہی فلمیں گانے ڈرامے کہانیاں دکھاتے ہو اور جب وہ کر جائیں کچھ، تو قصور بھی انہی کا ہے؟
عدالتیں کیوں ایسے کیسوں میں فیصلہ نہیں کر سکتیں؟ ان کے ہاتھ پاؤں ہمارے ہی نصابوں نے باندھے ہوتے ہیں
ایسے کسی بھی کیس میں ہم لوگ سب سے پہلے بَلّی کا بکرا ڈھونڈتے ہیں، اس کا تعین کر لیں تو ہر کوئی اپنی کند چھری سے اسے ذبح کرتا ہے
کیا واقعی ماں باپ یا اولاد ایسی کسی شادی میں قصوروار ہوتے بھی ہیں؟
مجھے یاد ہے، نویں دسویں میں ایک بار میں نے بھی اماں ابا سے شادی کی فرمائش کی تھی۔ جواب مل گیا کہ کھلاؤ گے کہاں سے؟ وہ لوگ کیوں دیں گے لڑکی؟ بات ختم ہو گئی
اگر میں گھر سے بھاگ جاتا یا اس لڑکی کو بھگا لیتا تو ہم دونوں کے ماں باپ قصوروار ہو جاتے؟ یا ہمارا قصور ہوتا؟
قسمت ہے، صرف قسمت، مقدر! جو گھیر گھار کے حالات ایسے کرتا ہے کہ انہونی ہو جاتی ہے۔ بچے کسی کے نہیں ہوتے۔ آپ کی بھول ہے اگر آپ کو وہ بڑے فرمانبردار لگتے ہیں۔ اپنا بچپن بالکل بھول گئے آپ؟ جوانی بھی یاد نہیں؟؟؟
ایک سوتر کی کسر سے خدا نے کتنی انہونیوں سے بچایا ہوگا، وہ سب یاد کر لیں اور ایویں سوشل میڈیا کے چسکے میں کسی غریب کی مٹی نہ خراب کریں
ضرورت ٹھوس قانون کی ہے اور وہ بن نہیں سکتا۔ گنجائش جہاں بھی ہوگی وہاں اگر مگر ہوگا، مثالیں ہوں گی، نظیر ہو گی۔۔۔ بس ادھر پھر قانون کا پانی بھی مر جائے گا
باقی دل چاہتا ہے تو اپنے ادب، شاعری، مائتھالوجی اور لوک داستانوں میں تھوڑی سی ترمیم کر لیں، ماں باپ اور اولاد کے درمیان تعلقات کو بہتر لیں، ورنہ وہی ہائے گل اور ہائے دل ہوگا، سمجھ نہ آنے والی شادیاں ہوں گی اور سمجھ دانی طاق پہ دھری مسکراتی رہے گی
بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو