سری لنکا کے وزیراعظم کا کہنا ہے ”سری لنکا پیٹرولیم کارپوریشن واجب الادا بھاری قرضوں کی وجہ سے نقد ادائیگی پر بھی درآمدی ایندھن خریدنے سے قاصر ہے“
سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے بدھ کو ملکی قانون سازوں کے ہمراہ بیان جاری کیا ہے کہ خوراک، ایندھن اور بجلی کی کئی ماہ سے جاری کمی کے بعد ملک کی مقروض معیشت تباہ ہو چکی ہے
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سری لنکا کے وزیر اعظم نے یہ بات ملک کے برے حالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہی، جب ملک قرضہ دینے والے عالمی اداروں سے مدد لینے کی کوشش کر رہا ہے
وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو بتایا ”سری لنکا صرف ایندھن، گیس، بجلی اور خوراک کی کمی کا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ ہماری معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے“
سری لنکن وزیر اعظم وکرما سنگھے کا یہ دعویٰ کہ معیشت تباہ ہو چکی ہے، اس کا مقصد ناقدین اور اپوزیشن کے قانون سازوں کو باور کروانا تھا کہ انہیں مشکل کام وراثت میں ملا ہے اور صورتحال کو جلد ٹھیک نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ معیشت پر بھاری قرضوں کا بوجھ ہے۔ سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں کمی ہوئی ہے اور وبائی مرض کے اثرات کے سمیت اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ ملک کی دو اہم اپوزیشن جماعتوں کے قانون سازوں پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا
وکرما سنگھے کا کہنا تھا ”سری لنکا پیٹرولیم کارپوریشن واجب الادا بھاری قرضوں کی وجہ سے نقد ادائیگی پر بھی درآمدی ایندھن خریدنے سے قاصر ہے“
انہوں نے قانون سازوں کو بتایا ”سیلون پیٹرولیم کارپوریشن اس وقت 70 کروڑ ڈالر کی مقروض ہے۔اس کے نتیجے میں دنیا میں کوئی بھی ملک یا تنظیم ہمیں ایندھن فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ نقد رقم لے کر ایندھن فراہم کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں“
واضح رہے کہ سری لنکا کے معاشی بحران کے خلاف کئی دن جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد وکرمے سنگھے نے مئی میں عہدہ سنبھالا تھا۔ اس سے پہلے ان کے پیشرو حکومت چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ غیر ملکی کرنسی کے بحران کی وجہ سے برآمدات بند ہو چکی ہیں جس سے ملک میں خوراک، ایندھن، بجلی ادویات جیسی دوسری ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ان حالات میں لوگ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے ہونے پر مجبور ہیں
سری لنکا کے وزیر اعظم کے مطابق ”اگر معیشت کی تباہی کو شروع میں ہی کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے تو آج ہمیں اس مشکل صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن ہم نے یہ موقع گنوا دیا۔ اب ہم ممکنہ طور پر مکمل نیچے گرنے کے آثار دیکھ رہے ہیں“
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سری لنکا کے وزیر اعظم کا کہنا تھا ”ملک کو بگڑتے ہوئے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مزید غیر ملکی امداد کی خاطر چین، جاپان اور بھارت کو ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔“ ان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سری لنکا کی حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے
وزیر اعظم نے ملکی پارلیمان کو بتایا ”ہمیں بھارت، جاپان اور چین کی مدد کی ضرورت ہے جو ہمارے تاریخی اتحادی ہیں۔ ہم نے ڈونرز کانفرنس کا منصوبہ بنایا ہے جس میں ان ملکوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ سری لنکا کے بحران کا حل تلاش کیا جا سکے“
ان کا کہنا تھا ”بھارت کا اعلیٰ سطح کا وفد اضافی امداد پر مذاکرات کے لیے جمعرات کو کولمبو پہنچے گا جبکہ امریکی وزارت خزانہ کی ٹیم اگلے ہفتے سری لنکا کا دورہ کرے گی“
وکرما سنگھے نے کہا ”اس ہفتے سری لنکا کے تجارتی دارالحکومت کولمبو پہنچنے والی آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ قرضہ دینے والے ادارے کے ساتھ سٹاف کی سطح کا معاہدہ ممکنہ طور پر مہینے کے آخر تک ہو جائے گا“
خیال رہے کہ سری لنکا نے اپریل میں 12 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کی ادائیگی معطل کر دی تھی، آئی ایم ایف سے تقریباً تین ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ اخراجات پورے کرنے سمیت مالیاتی خلا پُر کر سکے
کیا پاکستان بھی اسی طرف جا رہا ہے؟
جنوبی ایشائی ملک سری لنکا میں حالیہ ہفتوں میں معاشی مشکلات کے بعد مظاہرے، حکومت کی تبدیلی اور اقتصادی مسائل کے بعد پاکستان میں بھی معاشی مشکلات کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آ رہے ہیں
ماہرین معاشیات جہاں سری لنکا کو معاشی طور پر دیوالیہ پن کے دھانے پر کھڑا دیکھتے ہیں، وہیں پاکستانی معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے کی خبر سنا رہے ہیں
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معروف ماہر معاشیات سلمان شاہ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ عالمی مالاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رقم ملنے میں تاخیر اچھی نہیں ہوگی
انہوں نے کہا ”اگرچہ پاكستان اور سری لنکا كے معاشی حقائق مختلف ہیں، تاہم خطرہ ہمارے بھی بہت قریب ہے، اور آئی ایم ایف سے پیسے جلد نہ ملے تو گڑ بڑ ہو سکتی ہے“
انہوں نے كہا كہ آئی ایم ایف كے ساتھ معاہدے پر دستخط ہونے تک پاكستانی معیشت كو خطرات لاحق رہیں گے
سری لنکا میں روز بروز بگڑتی معاشی صورت حال نے پاکستانیوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے
اسلام آباد کے رہائشی پینتالیس سالہ منیب شیخ کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے موجودہ حالات پاکستان سے متعلق ان کی پریشانی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں
انہوں نے کہا: ’ہماری معیشت بھی اتنی اچھی نہیں ہے، ڈر لگتا ہے اگر ہم بھی سری لنکا کے اسٹیج پر پہنچ گئے تو کیا بنے گا؟‘
شدید معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں اس سال مئی میں حکومت کی تبدیلی بھی بہتری کا سبب نہ بن سکی، اور آج بھی وہاں لوگوں کو اشیا ضروریہ کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے
دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں اتحادی حکومت اقتصادی طور پر ناکام نظر آتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور مہنگائی میں 28 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، توانائی کا بحران گھریلو زندگی کے ساتھ صنعتوں پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے
وفاقی وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، جو عوام کی تشویش اور مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔‘
واضح رہے کہ اقتصادی مسائل کے باوجود 2019ع سے قبل تک سری لنکا کی معیشت بہتر تھی، اور اس کا انحصار بڑی حد تک سیاحت کی صنعت پر تھا
تاہم 21 اپریل 2019 کو ایسٹر کے موقعے پر دارالحکومت کولمبو کے چھ چرچوں اور مہنگے ہوٹلوں میں کئی بم دھماکے ہوئے، جو ڈھائی سو سے زیادہ اموات کا باعث بنے، ان واقعات نے سری لنکا کی سیاحت کی صنعت کو ہلا کر رکھ دیا، اس کے بعد 2020 کے دوران دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا پھیلی جس نے رہی سہی کسر پوری کر دی
سری لنکا میں معاشی بدحالی نے پاکستان کی ڈانواڈول اقتصادیات سے متعلق بھی کئی سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں
ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں ’سری لنکا کی معیشت کا انحصار سیاحت کی صنعت پر تھا، جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی صنعت کبھی بھی نہیں رہی‘
ان کے بقول ’پاكستان كافی حد تک اپنی غذائی ضروریات اندرون ملک سے ہی پوری کرتا ہے، جبکہ سری لنکا کو خوراک بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید كہا كہ دونوں معیشتوں میں مشتركہ عناصر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بے ہنگم غیر ملکی قرضے شامل ہیں
ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ سری لنکا نے غیر ملکی قرضے حاصل کیے اور انہیں انفراسٹرکچر کے مشکوک منصوبوں پر خرچ کیا، جبکہ پاکستان میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والے قرضوں کو بجلی کے ایسے منصوبوں پر لگایا گیا جو ملکی ضرورتوں کے برعکس تھے
ان کے بقول ’پاکستان اور سری لنکا دونوں نے بہت زیادہ بیرونی قرضے حاصل کیے، لیکن ان سے ملکی معیشتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے بھی سری لنکا میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا، جبکہ پاکستان میں زیادہ بڑا بل گندم اور تیل کی درآمد کا بنتا ہے
ڈاكٹر خاقان نجیب نے كہا: ’پاكستانی معیشت كا حجم سری لنكن معیشت كے مقابلے میں بہت بڑا ہے، اور اسی وجہ سے كولمبو میں حالات تیزی سے خراب ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان کے پاس اس وقت 8.9 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں، جبکہ سری لنکا میں یہ حجم کم ہو کر پانچ کروڑ ڈالر تک آ گیا تھا۔‘
ان کے مطابق پاکستان کے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اور چین جیسے دوست ہیں، جو مشکل وقت میں ہمیشہ اسلام آباد کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ’اس کے برعکس سری لنکا کے پاس ایسے دوست نہیں ہیں جو اسے اس مشکل صورت حال میں نکال سکتے۔‘
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی امکان نہیں رہا
انہوں نے کہا: ’پاکستانی معیشت اگلے تین مہینوں تک محفوظ ہے، تاہم اس کے بعد کے لیے حکومت کو معاشی میدان میں مضبوط اور دور رس فیصلے کرنا ہوں گے۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب نے پاکستانی معیشت کے محفوظ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان کو جلد ہی چین کی طرف سے 2.3 ارب ڈالر ملیں گے، جس سے غیر زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سعودی عرب کی پاکستانی بینکوں میں جو رقوم رکھی ہوئی ہیں، کے دو گنا ہونے کی صورت میں حالات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔‘