امریکہ کی معروف اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے نے ایک مقالے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے شروع کیے گئے احساس پروگرام کو دنیا میں غربت کے خاتمے کے پروگرامز میں ایک منفرد پروگرام قرار دیا ہے، جس میں غربت کے خاتمے کو صرف کیش ٹرانسفر تک محدود نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختلف چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے
یونیورسٹی کے فریمین سپوگلی انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر رواں ماہ شائع ہونے والے مقالے کے محقق مائیکل باربر اور مقیط شہزاد ہیں
مائیکل 2001 سے 2005 تک برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مشیر رہے ہیں، جبکہ مقیط کنسلٹنگ کمپنی ڈلیوری ایسوسی ایٹس سے منسلک ہیں
انہوں نے اپنے مقالہ میں احساس پروگرام کا دنیا بھر میں ایسے پروگراموں کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے، اور اس بات پر تجزیہ کیا گیا ہے کہ احساس پروگرام پاکستان میں ماضی میں غربت کے خاتمے کے پروگراموں سے کیسے مختلف ہے
تحقیقی مقالے میں پاکستان میں غربت کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان دنیا کا 51واں غریب ترین ملک ہے جس کی 35 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے
مقالے میں اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ملک کے امیر لوگ ٹیکس کم دیتے ہیں اور ٹیکسوں کا سارا بوجھ مڈل کلاس اور غریب لوگوں پر ڈالا گیا ہے جبکہ ملک کی آبادی میں ہر سال دو فیصد اضافہ ہو رہا ہے، جو دنیا میں آبادی کے اضافے کی شرح کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے
مقالے کے مطابق پاکستان میں غربت کے خاتمے کے پروگراموں پر جی ڈی پی کا صرف دو فیصد لگایا جاتا ہے جو پڑوسی ممالک جیسے سری لنکا اور بھارت سے کم ہے
اسی طرح غربت کے خاتمے کے حوالے سے جو منصوبے بنائے جاتے ہیں، ان پر باقاعدگی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ غربت کے خاتمے کے منصوبے کامیاب بنانے کے لیے باقاعدہ ڈیزائن اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں منصوبوں کی تاریخ
تحقیقی مقالے میں تقسیم ہند کے بعد غربت کے خاتمے کے منصوبوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور سب پہلا پانچ سالہ منصوبہ 1956 سے لے کر 1960 تک ’ویلج ایڈ پروگرام‘ کے نام سے بنایا گیا جس کے تحت دیہی علاقوں میں سکول، مراکز صحت اور پینے کے پانی کے منصوبے شامل تھے
اس کے بعد 1970 میں ملک میں سیاسی حالات تب خراب ہوگئے جب بنگلہ دیش جدا ہوگیا اور اس کے بعد 1973 میں عالمی منڈی میں تیل کے بحران کے نتیجے میں پاکستان میں بھی بحران پیدا ہوگیا
انہی حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ذولفقار علی بھٹو نے غربت کے خاتمے کے لیے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگایا اور اسی دور میں ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ جیسے پروگرامز کا آغاز بھی ہوا لیکن زیادہ توجہ لینڈ ریفارمز پر تھی
مقالے کے مطابق ضیاءالحق کے دور میں بیرون امداد میں اضافے کے ساتھ ملک کے معاشی حالات بھی بہتر ہوگئے تاہم غربت کے خاتمے پر کم دھیان دیا گیا اور زیادہ دھیان زکوۃ پر مرکوز رکھا گیا
تاہم مقالے کے بعد 1990ع میں غربت بڑھتی گئی اور اسے ختم کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں لیے گئے لیکن اس دور میں بیت المال ادارے کی بنیاد رکھی گئی جو زیادہ تر زکوۃ پر دھیان دیتا ہے
بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام
مقالے کے مطابق 2008ع میں بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے اجرا سے غربت کے خاتمے کے پالیسیوں میں خاطر خواہ تبدیلی آگئی اور اس پروگرام سے پچاس لاکھ سے زائد افراد مستفید ہونا شروع ہوگئے
اسی پروگرام کے تحت پھر وسیلہ تعلیم پروگرام کا اجرا کیا گیا جس میں غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیے گئے اور یہی بی آئی ایس پی بعد میں احساس پروگرام کو چلانے کے لیے ایک بنیادہ ادارہ بن گیا
احساس پروگرام کیسے مختلف ہے؟
مقالے میں محققین نے اس بات پر بھی تجزیہ کیا ہے کہ احساس پروگرام ماضی میں شروع کیے گئے پروگراموں سے کیسے مختلف ہے
اس میں بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام میں سوشل پروٹیکشن کے ایک سو چونتیس چھوٹے منصوبے شامل کیے گئے ہیں اور اس پروگرام کو صرف ایک کیش ٹرانسفر پروگرام تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ اس میں صحت، تعلیم اور طرز زندگی پر بھی دھیان دیا گیا ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں غربت کے خاتمے کا ایک ’بہترین پروگرام‘ ہے
مقالے کے مطابق احساس پروگرام میں صحت، تعلیم، بے روزگاری اور صحت کے مسائل کو چار ستون کے تحت رکھا گیا، اور ان مسائل کو ان کی متعلقہ وزارتوں کو حل کرنے کے لیے دیا گیا
احساس پروگرام کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں غربت کے مختلف پیرایوان کا احاطہ کیا گیا ہے اور اسی ڈیزائن کی وجہ سے اس پروگرام کی مدد سے آئندہ آنے والے نسلوں میں غربت کا خاتمہ ممکن بنایا جائے گا
مقالے کے مطابق: ’احساس پروگرام صرف کیش ٹرانسفر کا پروگرام نہیں ہے بلکہ اس پروگرام کو ڈیزائن سائنٹیفک طریقے سےکیا گیا ہے تاکہ غربا کی کیش ٹرانسفر کے ذریعے مدد بھی کیا جا سکے اور ساتھ میں وہ مستقبل میں غربت سے نکل بھی سکیں۔ احساس پروگرام دنیا میں غربت خاتمے کے پروگرامز میں ایک منفرد پروگرام ہے۔‘
مقالے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احساس پروگرام میں کرپشن پر کنٹرول کرنے کے لیے باقاعدہ ایک مکینزم بنایا گیا ہے تاکہ اس فلاحی پروگرام سے صرف مستحق افراد مستفید ہو سکے۔