کرکٹ کے کھیل پر روایت پسندی کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے، جس نے کھیل کے قوانین اور انداز تبدیل کرنے کو ایک طویل عرصہ روکے رکھا لیکن اب جدید دور میں وقت کی رفتاری نے اس بند کو توڑ دیا ہے
یون آج بات پانچ روز کی روایتی ٹیسٹ کرکٹ سے ہوتی ہوئی صرف ساٹھ گیندوں کے مقابلے تک آ پہنچی ہے
ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ اور کیریبیئن کرکٹ لیگ نے چند روز قبل ایک نئے فارمیٹ کے ٹورنامنٹ کا اعلان کیا ہے اور اس کا نام 6ixty رکھا گیا ہے
سکسٹی 6ixty کیا ہے؟
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ ساٹھ گیندوں کا فارمیٹ ہے، جس میں دنیا بھر سے کرکٹرز حصہ لیں گے۔ اس سلسلے کا پہلا ٹورنامنٹ 24 سے 28 اگست تک سینٹ کٹس اینڈ نیوس میں کھیلا جائے گا۔ل
اس فارمیٹ میں بیٹگ کرنے والی ہر ٹیم کے پاس چھ وکٹیں ہوں گی۔ چھٹی وکٹ گرنے کا مطلب آل آؤٹ ہوگا
اس فارمیٹ میں ہونے والی ساٹھ گیندوں میں سے پہلی تیس گیندیں ایک اینڈ سے کرائی جائیں گی، جبکہ بقیہ تیس گیندیں دوسرے اینڈ سے کرائی جائیں گی م، جبکہ کوئی بھی بولر دو سے زیادہ اوورز نہیں کرا سکے گا
بالنگ کرانے والی ٹیم اگر مقررہ وقت میں اپنے اوورز مکمل نہیں کر پائے گی تو اس کے ایک کھلاڑی کو آخری چھ گیندوں کے دوران میدان سے ہٹا لیا جائے گا
ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کا یہ دعوٰی ہے کہ یہ فارمیٹ ٹی ٹین کرکٹ کو بدل کر رکھ دے گا اور یہ ایک تیز رفتار فارمیٹ ثابت ہو گا
لگ بھگ ایک صدی ہعنی چورانوے سال تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلے جانے کے بعد دنیا نے ون ڈے انٹرنیشنل کی شکل میں نیا فارمیٹ دیکھا تھا لیکن ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل کے بعد منظرِ عام پر آنے والے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نہ صرف بین الاقوامی سطح پر کھیلی جا رہی ہے بلکہ اس طرز کی کرکٹ نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تقریباً ہر بڑے ملک میں فرنچائز کرکٹ کی شکل میں منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے
بات ٹی ٹوئنٹی تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اسے مزید مختصر کر کے ٹی10 تک لے جایا گیا اور پھر انگلینڈ کے میدانوں میں ایک سو گیندوں والے نئے ایونٹ ’دی 100‘ کے ذریعے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرنی کی کوشش کی گئی اور اب اسے ساٹھ گیندوں تک سکیڑا جا رہا ہے
اس حوالے سے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کمنٹیٹر بازید خان کہتے ہیں ”کرکٹ میں جو نت نئی تبدیلیاں آرہی ہیں ان سے لڑنا بیوقوفی کی بات ہوگی کیونکہ دنیا اسی جانب چل پڑی ہے اور یہ سلسلہ نہیں رک سکتا کیونکہ اس میں مالی معاملات بہت نمایاں ہیں“
انہوں نے کہا کہ ”براڈ کاسٹرز اور کھلاڑی خوش ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹی 10 چھوٹے فارمیٹ میں پیسہ بہت زیادہ ہے“
صحافی اور تجزیہ کار عثمان سمیع الدین اپنی گفتگو کا آغاز ازراہِ تفنن اس دلچسپ فقرے سے کرتے ہیں کہ ”اس کھیل میں جو آخری فارمیٹ ہو گا وہ ہو گا ون بال۔ یعنی صرف ایک گیند کا فارمیٹ کھیلا جایا کرے گا“
عثمان سمیع الدین انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ڈیوڈ لائیڈ کے ایک فقرے کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں، جب دونوں کپتان ٹاس کرنے جائیں گے اور جو ٹاس جیتے گا وہی میچ کا فاتح کہلائے گا
عثمان سمیع الدین کہتے ہیں ”اس وقت جس رفتار سے نئے فارمیٹس سامنے آ رہے ہیں اس میں آئی سی سی بھی کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ آئی سی سی ممبرز باڈی ہے۔ ممبر جو چاہیں گے وہی ہوگا“
انہوں نے بتایا ”میری آئی سی سی کے چند ممبرز سے جو بات ہوئی ہے مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان ون ڈے انٹرنیشنل کو ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ون ڈے انٹرنیشنل سے سپر لیگ کو نکال دیا گیا ہے اور سنہ 2027ع کے ورلڈ کپ کے لیے عالمی رینکنگ کی بنیاد پر ڈائریکٹ کوالیفکیشن ہوں گی“
عثمان سمیع کہتے ہیں ”کرکٹ کیلنڈر میں اس قدر پریشر آ گیا ہے کہ اس وقت جو فرنچائز لیگ پہلے سے موجود ہیں، ان کے علاوہ نئی لیگ بھی آنے والی ہیں، جن میں جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں“
ان کا خیال ہے کہ ’ان حالات میں جس فارمیٹ پر دباؤ پڑے گا وہ ون ڈے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق آئی سی سی کے ممبرز ورلڈ ٹیسٹ کرکٹ چیمپیئن شپ سے خوش ہیں‘
انہوں نے تجزیہ کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ”مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ ون ڈے فارمیٹ میں ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں آئی سی سی ایونٹس تو ہوں گے کیونکہ ان سے کرکٹ بورڈز کو پیسے ملتے ہیں البتہ دو طرفہ ون ڈے سیریز کم ہوتی چلی جائیں گی اور یہ سیریز ان ہی دنوں میں ہوا کریں گی جب ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی ہونے والی ہوگی“
سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان بھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ون ڈے انٹرنیشنل کا مستقبل روشن نہیں
وہ کہتے ہیں ”ٹیسٹ کرکٹ کو پسند کرنے والوں کا اپنا حلقہ موجود ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ اب چونکہ تقریباً ہر ٹیسٹ میچ کا نتیجہ آنے لگا ہے لہٰذا لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ البتہ ون ڈے کرکٹ، ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ آپ کو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو صرف ون ڈے کو فالو کرتے ہوں، آپ کو ایسے لوگ زیادہ ملیں گے جو ٹیسٹ کو پسند کرتے ہیں یا پھر ٹی ٹوئنٹی کو“
بازید خان کا کہنا ہے ”بعض اوقات ون ڈے انٹرنیشنل کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بے مقصد یا بے معنی میچز ہوں۔ لوگوں کو اس میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آتی کہ دو ملکوں کے درمیان ہونے والی سیریز کون جیتا ہے“
بازید خان کہتے ہیں کہ ʹٹی ٹوئنٹی اور ٹی 10 کے آنے کے باوجود ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ نہیں دیکھی جا رہی۔‘
’انگلینڈ اور ان تمام ملکوں میں جہاں ٹیسٹ میچ کی روایت اب بھی موجود ہے وہاں اب بھی شائقین سٹیڈیم میں آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ٹی وی پر بھی ٹیسٹ میچ دیکھے جا رہے ہیں لیکن کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ انھیں اپنی نوجوان نسل کو ٹیسٹ کرکٹ سے بھی منسلک رکھنا ہے۔‘
’ٹی ٹوئنٹی اور ٹی 10 کرکٹ ساتھ ساتھ چلتی رہے گی لیکن ٹیسٹ کرکٹ کی دلچسپی کو برقرار رکھنا اور کرکٹرز کو اس جانب راغب رکھنا بھی کرکٹ بورڈز کی ذمہ داری ہے تاکہ کھلاڑی یہ نہ سوچے کہ مجھے ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنی۔‘
بازید خان کہتے ہیں کہ ʹکرکٹ اس وقت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اوور لیپ ہو رہی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز نیوزی لینڈ سے چل رہی ہے جس میں ایک ہفتے کا وقفہ دے کر انگلینڈ کی ون ڈے سیریز ہالینڈ میں کھیلی گئی۔‘
’آنے والے دنوں میں آپ کو ٹیسٹ کرکٹ کے کھلاڑی الگ کرنے ہوں گے اور ایسے کھلاڑی کم نظر آئیں گے جو ریڈ بال اور وائٹ بال بیک وقت کھیلنے والے ہوں۔‘
عثمان سمیع الدین کہتے ہیں کہ ’اس وقت کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیشنل کرکٹ بمقابلہ فرنچائز کرکٹ ہے۔ اگلے دس پندرہ سال میں ایسی صورتحال پیدا ہونے والی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کے مقابلے میں ڈومیسٹک فرنچائز کرکٹ کی اہمیت زیادہ ہو جائے گی، جیسا کہ ہم فٹبال میں دیکھ رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ʹآئی پی ایل میں ٹیمیں بڑھنے کی وجہ سے میچز کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اس کے دورانیے میں اضافہ ہوا ہے۔ پی ایس ایل میں جب ٹیمیں بڑھیں گی تو اس کا دورانیہ بھی بڑھے گا۔
بگ بیش کا یہ حال ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹیو یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ہم جنوری میں اپنی ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلیں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ڈیوڈ وارنر اور پیٹ کمنز اور ان جیسے دوسرے بڑے کھلاڑی بگ بیش میں کھیلیں جو آسٹریلیا کی طرف سے ون ڈے میں مصروف ہونے کی وجہ سے بگ بیش نہیں کھیل پاتے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’انگلینڈ کرکٹ بورڈ بھی چاہتا ہے کہ اس کے تمام بہترین کھلاڑی دی 100 کھیل سکیں۔ دراصل تمام کرکٹ بورڈز نے دیکھ لیا ہے کہ ان کی فرنچائز لیگز سے پیسے بن رہے ہیں لہٰذا وہ بھارت پر انحصار کیے بغیر اپنی لیگ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں‘
بازید خان کہتے ہیں ʹفرنچائز کرکٹ کی بھرمار کی وجہ سے یہ تجویز بھی سامنے آ چکی ہے کہ ملکوں کے درمیان ہونے والے انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچوں پر مشتمل دوطرفہ سیریز کو ختم کر دیا جائے اور صرف اس کا ورلڈکپ ہر دو سال بعد کروایا جائے کیونکہ کھلاڑی ویسے ہی ٹی ٹوئنٹی کی ڈومیسٹک فرنچائز لیگ میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا ”دو طرفہ سیریز میں اکثر یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میچز کی تعداد بڑھانے کے لیے ٹیسٹ میچوں کی تعداد کم کر دی جاتی ہے“