سیاست، نیوٹریلٹی اور سکیورٹی پرنٹنگ پریس

وسعت اللہ خان

اگر گجرات کے چوہدری (پنجاب کے سئید برادران) بھی آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ”گَل زیادہ ہی ودھ گئی اے مختاریا“

اگر سابق لاٹھی ٹیک جرنیل بھی اپنے اپنے ڈرائنگ رومز سے باہر آ کر حاضر سروس جرنیلی حکمتِ عملی پر تھڑے بازی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب اچھا نہیں ہے

مگر محض باتوں یا بیانات کے بل پر تو خلیج کی ٹھیک ٹھیک گہرائی نہیں ماپی جا سکتی

عمران خان غیر ملکی سازش، امپورٹڈ حکومت اور نیوٹریلٹی کو گالی بنانے والا جو منجن پچھلے ڈھائی ماہ سے بیچ رہے ہیں اس کے گاہک دراصل کتنے ووٹر ہیں؟

یا شہبازی حکومت نے معیشت کی طویل المیعاد بہتری کے نام پر آئی ایم ایف کا تیار کردہ جو جمال گوٹا عام آدمی کو پلایا ہے، اس سے کس قدر اقتصادی افاقہ ہوگا یا پھر چار سے چھ ماہ بعد قرضئی مارفین کے ایک اور امپورٹڈ انجکشن کی ضرورت پڑے گی؟

اس سب کا جزوی اندازہ اگلے ڈیڑھ ماہ میں ہو جانا چاہیے، جب پنجاب اسمبلی کی بیس خالی سیٹوں پر ضمنی انتخاب کے نتائج سامنے آئیں گے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بلدیاتی نتائج واضح ہونے کے بعد آج سے سندھ میں اور اگلے ماہ پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج واضح ہوں گے

یہ الگ بات کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنی سوکن سمجھتی آئی ہیں اور تب تک نچلی سطح پر روکھی سوکھی جمہوریت بانٹنے سے بھی کتراتی ہیں، جب تک اعلٰی عدلیہ سر پر جوتا نہ لہرانے لگے

چونکہ صوبائی اسمبلیوں پر سیاسی تنظیموں کا ہی غلبہ ہوتا ہے، لہٰذا صوبائی اسمبلیاں پورا زور لگا دیتی ہیں کہ بلدیاتی سوکنیں اختیاراتی پلاؤ میں شریک کی ضد پر قائم رہنے کے بجائے پھینکی ہوئی چند ہڈیوں پر راضی ہو جائیں

اس دوران عمران خان کو کسی نے صحیح مشورہ دیا ہے کہ مون سون گزرنے کے بعد جب مطلع قدرے صاف ہو جائے اور موجودہ ملی جلی سرکار کی معاشی پالیسیوں کے ددوڑے عوام کی کھال پر ابھرنے شروع ہوں، تب تک ایکسیلریٹر پر پاؤں ہلکا رکھیں

چنانچہ عمران خان کا احتجاجی ٹرک فی الحال 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کے ابتدائی جوش سے گزر کے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ پر آ گیا ہے

میچ کے شروع میں پورا زور لگا کے تھکنے کے بجائے آخری 10 اوورز میں پاور پلے کتنا مفید ہوتا ہے؟ یہ بات عمران خان کو عمران خان سے بہتر کون بتا سکتا ہے

رہی بات کہ نیوٹرلز اب کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔ اگر کچھ سوچ رہے ہیں تو اس سوچ میں غیر جانبداریت اور عملیت پسندی کی مقدار کس تناسب سے ہے؟ اس کا اندازہ بھی ستمبر سے ہونا شروع ہو جائے گا

بہت سے وہمی تجزیہ باز اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ شیر اپنا نام خرگوش رکھ لے، تب بھی جنگل کے دیگر جانور اس سے بے تکلفی برتنے کا رسک نہیں لیتے

ممکن ہے قومی سیاست میں ہر ممکن غیرجانبداری برتی جا رہی ہو، کیونکہ پاکستان اس وقت جس معاشی عذاب سے گزر رہا ہے، اس کے ہوتے کوئی مہم جوئی یا نیا تجربہ مسائل کی اوجھڑی اپنے ہی گلے میں ڈالنے جیسا ہے

تجربے بازی بھرے پیٹ پر ہی سجتی ہے۔ ایسے مواقع پر سیاسی حکومتیں ہی بہترین ڈھال ثابت ہوتی ہیں اور بادشاہ گروں کے لیے کسی نڈھال حکومت سے بہتر ڈھال ممکن نہیں

مگر یہ نیوٹریلٹی یکطرفہ خیرسگالی نہیں۔ اس کے بدلے سیاسی حکومتیں بھی ان معاملات میں مسلسل نیوٹرل رہتی ہیں، جن کا تعلق براہِ راست سکیورٹی آپریٹس کی دکھتی رگ سے ہو

مثلاً حالیہ دنوں میں جبری لاپتگی کی تازہ لہر ابھری ہے۔ جن گستاخیوں پر عام لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اگر اسے معیار مان لیا جائے تب تو تحریکِ انصاف سالم اور آدھی مسلم لیگ (ن) اب تک لاپتہ ہو جانی چاہیے تھی

مگر کمہار پر بس نہ چلنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ گدھے کے کان بھی نہ اینٹھے جائیں

کوئی بھی پالیسی مسلسل اپنانے کے باوجود خاطر خوا نتائج نہ نکلیں تو پھر عوام الناس بھی اس پالیسی کو زندگی کے دیگر تلخ معمولات کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ جبری لاپتگی کی پالیسی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے

اس کا مسلسل اور بے مہار استعمال چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کے موثر ہونے پر صرف عوام ہی سوالیہ نشان نہیں بلکہ ریاستی و حساس اداروں نے بھی نظامِ انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے

یعنی مملکت کا ایک ستون دوسرے ستون کو بے توقیر کر کے سمجھ رہا ہے گویا وہ کوئی بہت بڑی قومی خدمت کر رہا ہے

عدم تحفظ سے احساسِ تحفظ پیدا کرنے کی متواتر کوششیں سوائے جھنجھلاہٹ دو چند کرنے کے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں۔ مگر یہ دلیل وہاں کون سنے گا، جہاں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ چھاپنے کے جملہ حقوق بھی سکیورٹی پرنٹنگ پریس کے پاس ہوں!

(بشکریہ بی بی سی اردو)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close