بیس سال قبل قتل ہونے سے چند روز پہلے الیگزینڈر بلیو نے اپنے چھوٹے بھائی کو بتایا کہ ان کے خیال میں گلاسگو کے علاقے ویسٹ اینڈ میں واقع ان کے عالیشان فلیٹ کے باہر موجود جھاڑیوں سے انہیں دیکھا جا رہا ہے
اس وقت گیون بلیو نے اپنے اکتالیس سالہ بھائی کے خوف کو محض وہم سمجھ کر ان کے خیال کو مسترد کر دیا، تاہم انہوں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ وہ ان کے بھائی کی درخواست پر جارجیا کی عظیم الشان عمارت کے باہر کچھ حفاظتی روشنیاں نصب کرے
لیکن بدقسمتی سے روشنیوں کا انتظام ہونے سے پہلے ہی ایلکس گھر کے ڈرائیو وے میں وحشیانہ حملے کے بعد اپنے ہی خون میں لت پت پائے گئے
کاروں کے کامیاب سیلزمین کے سر میں چوٹیں آئیں تھیں، جو اس قدر خوفناک تھیں کہ جب ان کی والدہ انہیں ملنے ہسپتال پہنچیں تو وہ انہیں پہچان نہ سکیں۔ وہ دوباہ کبھی ہوش میں نہ آ سکے اور دو دن بعد 27 جون 2002 کو چل بسے
مقتول کے بھائی گیون، جن کی عمر اُس وقت اڑتیس سال تھی، نے معلومات فراہم کرنے کی اپیل کی تاکہ بھائی کی موت کے فوری بعد ان کے قاتل کو پکڑنے میں مدد مل سکے لیکن اس کے بعد سے انہوں نے دو دہائیوں میں بڑی حد تک خاموشی اختیار کیے رکھی
اب ایلکس کے قتل کے بیس سال مکمل ہونے پر اٹھاون سالہ گیون نے اس امید پر لب کشائی کی ہے کہ یہ کیس بالآخر حل ہو جائے گا
قتل سے پہلے کے دنوں میں بھائی کے خوف کو بیان کرتے ہوئے گیون نے کہا ”ایلکس نے مجھ سے کہا تھا کہ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو حفاظتی روشنیوں کا کام کرتا ہے؟ اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں کوئی مدد نہیں کر سکتا لیکن مجھے یہ احساس ہے کہ مجھ پر نظر رکھی جا رہی ہے“
گیون کا کہنا تھا ”میرے بھائی کو محسوس ہوتا تھا کہ انہیں کوئی جھاڑیوں سے دیکھ رہا ہے۔ ایلکس رات کو دس یا گیارہ بجے آتے تھے اور اندھیرا ہوتا تھا۔ روشنی بالکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے گھر کے ایک طرف کو چلے جاتے جو فلیٹس کے درمیان تقسیم تھی اور پھر اپنی کار عقبی حصے میں کھڑی کر دیتے۔ در اصل انہیں وہاں پایا گیا جس سے وہ گاڑی چلاتے ہوئے اندر داخل ہوتے“
’یہ تاریک ترین وقت اور ہفتے کی خاموش ترین رات تھی۔‘
گیون سمجھتے ہیں کہ ان کے بھائی کو ہتھوڑے جیسی بھاری چیز سے مارا پیٹا گیا اور ’حملہ آور یا حملہ آوروں نے چاقو بھی مارا جو انہیں مار دینا چاہتے تھے۔‘
سراغ رساں اس حملے کے بارے میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں سے پوچھ گچھ کر چکے ہیں۔ ایلکس کے اہل خانہ اور دوستوں نے معلومات دینے پر انعام کے لیے پچیس ہزار پاؤنڈ جمع کیے ہیں
پولیس کا ماننا ہے کہ قتل کی گتھی سلجھانے کی کلید تاجر کے پیچیدہ مالی پس منظر میں ہو سکتی ہے لیکن کبھی کسی پر مقدمہ نہیں چل سکا۔ اس ہفتے کے شروع میں پولیس اسکاٹ لینڈ کے ہومیسائڈ گورننس ریویو کے ڈیٹیکٹیو چیف انسپیکٹر (ڈی سی آئی) برائن گیڈس نے کہا کہ مقدمے پر نظر ثانی کی جا رہی ہے
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں اس دلی درد اور تکلیف کا احساس ہے جو بلیو خاندان کو گذشتہ دو دہائیوں میں برداشت کرنا پڑا کیوں کہ وہ الیگزینڈر کے معاملے میں جوابات اور انصاف کے منتظر ہیں۔‘
’پولیس سکاٹ لینڈ کبھی مقدمات کو بند نہیں سمجھتی اور وقت کا گزرنا قتل کے غیر حل شدہ مقدمات کی تفتیش میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘
بھائی کا کہنا تھا کہ موت کے وقت زندگی ایلکس کی تلاش میں تھی۔
ایلکس چند سال پہلے ناکام کاروباری منصوبے کے بعد دیوالیہ ہو کر گھر سے محروم ہو گئے تھے لیکن 2002 میں وہ اس ٹیکسی سینٹر میں حصہ دار تھے جس نے نجی سطح پر کاریں کرائے پر دینے کا کاروبار کرنے والوں کو گاڑیاں فروخت کیں
انہوں نے ستر لاکھ پاؤنڈ کا کاروبار کیا اور ڈنڈونلڈ روڈ پر واقع پر تعیش فلیٹ میں رہ رہے تھے
اپنی موت سے ایک یا دو سال پہلے ایلکس اپنی گرل فرینڈ فرانسیسی نژاد ریستوران مینیجر نورا بیکس سے الگ ہو گئے تھے۔ وہ تین سال تک ان کے ساتھ فلیٹ میں رہتی رہیں لیکن گیون کا کہنا ہے کہ اس جوڑے کی بعد میں دوبارہ دوستی ہو گئی اور ان کے درمیان اچھے تعلقات تھے
پچھلی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایلکس کے قرضے ان کی موت سے دو ہفتے قبل ادا کر دیے گئے تھے جس کا مطلب ہے کہ وہ ٹیکسی سینٹر میں اکثریتی شیئرز کی ملکیت کے قابل تھے لیکن گیون کے مطابق اس کام میں تاخیر ہو گئی اور اسے مکمل ہونے میں مزید دو ہفتے کا وقت درکار تھا
آخری بار جب گیون نے ایلکس کو زندہ دیکھا تو وہ ان کی موت سے پہلے اتوار کا دن تھا، جب دونوں بھائی ایک ڈرائیونگ رینج پر گالف کھیلنے کے لیے ملے تھے
دونوں بھائی ایک دوسرے کے قریب تھے۔ ایلکس 1996 میں گیون کی شادی میں ان کے شہ بالے بنے۔ ایلکس اکثر فٹبال میچ دیکھنے اور اپنی بھابھی اور تین سالہ بھتیجے کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے گاڑی پر بیس منٹ کا سفر کر کے اپنے بھائی کے گھر جاتے تھے
گیون کے بقول: ’ان کی حس مزاح بہت اچھی تھی۔ وہ بہت باتونی تھے، فطرتاً اچھے انسان تھے۔‘
گیون نے اپنے بھائی کو ’اپنے آپ کو جنون کی حد تک فٹ رکھنے والے شخص‘ کے طور پر بیان کیا جو ڈسکو ڈانسنگ اور کِک باکسنگ میں اچھے تھے اور پبز میں بیئر پینے کی بجائے اچھے کیفے میں کافی پینے کو ترجیح دیتے تھے
کاروباری شخصیت ایلکس کو آخری بار پیر 24 جون 2002 کو رات آٹھ بجے کے قریب بائرس روڈ کے بین سین نامی کیفے سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے چند گھنٹے بعد وہ آدھا میل کے فاصلے پر اپنے گھر میں بے ہوش پائے گئے
کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں قتل سے چند گھنٹے پہلے کافی کا گھونٹ بھرتے اور اسے دستاویزات پر انڈیلتے دیکھا گیا تھا۔ دوسروں کا قیاس ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے ایک بریف کیس اٹھا رکھا تھا جس میں تیس ہزار پاؤنڈ تھے اور ہو سکتا ہے کہ وہ گھر خریدنے کے اسکینڈل کا شکار ہوئے ہوں
گیون کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ایلکس کسی کیفے میں تھے جب انہوں نے شام کو اس وقت فون پر ان سے بات کی جب انہیں آخری بار دیکھا گیا تھا لیکن ان کے خیال میں اس کا امکان نہیں ہے کہ ان کے بھائی اتنی بڑی رقم ساتھ لے کر گئے ہوں گے
’ایلکس کے ساتھ یہ معاملہ تھا کہ وہ کسی شے کی نمائش نہیں کرتے تھے۔ در حقیقت وہ اپنے پاس بڑی رقم نہیں رکھتے تھے۔ اگر وہ اپنا بٹوہ نکالتے تو میں کسی بھی وقت ان کے ساتھ ہوتا۔ عام طور پر یہ کوئی کارڈ ہوتا تھا۔‘
ایک بچے کے والد گیون جو اس وقت ٹیکسی سینٹر میں کام کرتے تھے کو سب سے پہلے اس حملے کی اطلاع اس وقت دی گئی جب دو پولیس افسر ایلکسی کے بارے میں پوچھتے ہوئے دفتر میں آئے۔
وہ سدرن جنرل ہسپتال پہنچا جہاں انہوں نے دو دن تک ایلکس کے بیڈ پر نظر رکھی۔ وہ صرف کپڑے بدلنے کے لیے گھر واپس جانے کے لیے نکلتے اور جب ایلکس کی لائف سپورٹ مشین بالآخر بند کردی گئی تو وہ ان کے ساتھ تھے
گیون جو اب کارلیسل میں رہتے ہیں زیادہ تر دنوں میں ایلکس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت پر زیادہ توجہ نہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بھائی کے قاتل یا قاتلوں کو کبھی پکڑا نہیں گیا
گیون کا کہنا ہے کہ ’ایلکس کی موت کے ایک یا دو سال بعد صورت حال نے مجھے پاگل کر دیا کیوں کہ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اس کیس کو کیوں حل نہیں کیا؟ مجھے خاصا شک ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ظاہر ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ کیس حل ہو۔ مجھے امید ہے کہ کوئی آگے بڑھے گا۔‘
’مجھے عجیب لگتا ہے لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا میری عمر اڑتیس سال تھی۔ اب میں اٹھاون سال کا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی زندگی میں یہ کیس حل ہو جائے۔‘
’میرے بیٹے کی عمر چوبیس سال ہونے والی ہے اور حقیقت میں اس کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ یہ مایوس کن صورت حال ہے۔‘