امیزون کے جنگلات میں رہنے والے مقامی لوگ روزگار کی تلاش کے لیے اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں، جس کے باعث ان جنگلات کے لیے دفاعی لائن ختم ہو رہی ہے
تاپیر، چیتے اور ایرماڈیلو ان لگ بھگ چار سو تیس جانوروں کی اقسام میں شامل ہیں، جو برازیل کے اسی مشرقی امیزون میں پائی جاتی ہیں
بائیس سالہ لوئز ہینرک لوپیز فیریرا بھی یہیں رہتے ہیں اور مقامی سینکڑوں اقسام کے پھلوں کے درختوں سے مٹھائیاں، جام اور شراب تیار کرتے ہیں
فیریرا کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے، جو ثابت کر رہے ہیں کہ جنگلوں میں بسنے والی انسانی آبادی، جس کے لیے اقتصادی مواقع موجود ہوں، وہ جنگلات کی کٹائی سے بچاؤ کے علاوہ ان جنگلات میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں بھی مدد کر سکتی ہے
فیریرا، ٹاپاجوس اراپیونس نامی علاقے میں رہتے ہیں، جو 1.58 ملین ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور جس کا 90 فیصد حصہ جنگلات سے گھِرا ہے۔ یہ پرندوں کی تین سو ستر سے زائد اقسام، مچھلیوں کی نناوے سے زائد انواع اور تیرہ ہزار سے زائد لوگوں کا گھر ہے، جن میں مختلف برادریوں کے لوگ شامل ہیں
خود کو مقامی فرد کے طور پر شناخت کرانے والے فیریرا امیزوناس ریاست کے دارالحکومت ماناؤس میں پیدا ہوئے تھے، ان کا خاندان پندرہ برس قبل یہاں منتقل ہوا تھا اور اس کے بعد سے یہ جنگل ان کا اصل گھر بن چکا ہے
فریرا کہتے ہیں ”امیزون رہائش کے لیے بہت زبردست جگہ ہے، یہاں فطرت ہے، ہر چیز بہت جادوئی ہے، لیکن ہمارے لیے خطرات بھی ہیں جنہوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے اور جو ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں‘‘
ان جنگلات میں مقامی کمیونیٹیز کی طرف سے محفوظ علاقہ 1990ع کی دہائی کے اختتام پر قائم کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درخت کاٹنے والی کمپنیوں کے بے جا تجاوز کے خلاف دو دہائیوں تک کوشش کی گئی۔ یہ محفوظ شدہ علاقہ قدرتی ماحول کو بحال رکھتا ہے تاکہ لوگ اس کی زمین کو زراعت اور شکار، مچھلی پکڑنے اور جنگلی پودے اگانے کے لیے استعمال کر سکیں
فیریرا کہتے ہیں ”جنگلات کی کٹائی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ریاست پارا، جہاں یہ محفوظ علاقہ موجود ہے، سال 2001ع سے 2021ع کے دوران جنگلات کی بہت زیادہ غیر قانونی کٹائی کا شکار رہا۔ برازیلی صدر ژائر بولسونارو کے 2019ع میں اقتدار میں آنے کے بعد سے امیزون کے جنگلات گزشتہ پندرہ برس کے بدترین غیر قانونی کٹائی کا شکار بنے“
پی ایس اے کے کوارڈینیٹر کائیٹانو اسکانووینو کہتے ہیں ”برازیل کے امیزون جنگلات میں کٹائی کا 99 فیصد غیر قانونی ہے۔ اسی وجہ سے قانونی طور پر لکڑی پیدا کرنے والوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے“
ایک برازیلی این جی او ہیلتھ اینڈ ہیپینیس پراجیکٹ (پی ایس اے) ریاست پارا میں گزشتہ تیس برس سے کام کر رہی ہے اور اس وقت تیس ہزار سے زائد افراد کے ساتھ مل کر انہیں تربیت اور مالی معاونت فراہم کر کے انہیں اس قابل بنا رہی ہے کہ وہ جنگلات کو نقصان پہنچائے بغیر پائیدار طریقوں سے اپنا گزر بسر کر سکیں
ٹینیور فیسیلٹی نامی ایک این جی او کے چیف پروگرام آفیسر ڈیوڈ کیمووِٹز کا کہنا ہے ”ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب مقامی باشندے ہی اپنے جنگلات کا انتظام دیکھتے ہیں اور انہیں اس کے حقوق حاصل ہوتے ہیں تو وہاں درختوں کی کٹائی کی شرح بہت کم ہوتی ہے“
گزشتہ بیس برسوں کے دوران اقوام متحدہ کی مدد سے ہونے والی تین سو سے زائد اسٹڈیز کی سربراہی کرنے والے کیمووِٹز کہتے ہیں ”لاطینی امریکا اور کیریبیئن کے علاقے میں مقامی قبائل اور آبادیاں جنگلات کے سب سے بڑے محافظ ہیں“
اسے یقینی بنانے کے لیے کیمووِٹز نے کہا ”ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ فعال معیشت اور ایک ایسی فضا مہیا کی جائے، جہاں نوجوان باشندے ٹھہرنا چاہیں“