کچھ دن پہلے ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ ایران اور بھارت کے ساتھ پاکستانی سرحد پر صحرائی ٹِڈی دَل موجود ہیں اور یہ پاکستان میں داخل ہو کر فصلوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ س خبر کے بعد پاکستان کے کاشتکاروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے
ضلع بدین کے خادم حسین کا شمار بھی ان کاشتکاروں میں ہوتا ہے جن کی فصلوں کو صحرائی ٹڈی دل نے نقصان پہنچایا تھا۔ خادم حسین کہتے ہیں ’’دو سال پہلے مکڑ (سندھی میں ٹڈی دل کو مکڑ یا ماکڑ کہا جاتا ہے) نے ہماری اور کئی غریب کاشتکاروں کی فصلیں تباہ کر دیں اور اب پانی نہ ہونے کے باعث ہمارے کھیت خشک ہو رہے ہیں۔ ٹڈی دل کی پاکستان ممکنہ آمد کی دل کی آمد کی خبر سنی تو بہت پریشان ہو گئے کہ ہم لوگ اب کہاں جائیں‘‘
یاد رہے کہ دو برس قبل فروری 2020 میں صحرائی ٹڈی دل نے پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ سندھ میں تباہ کاری کے بعد پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں یہ حملہ آور ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹڈی دل کھڑی فصلیں چٹ کر گئے تھے، سبزہ اجاڑ دیا تھا اور پھل دار درختوں کا صفایا کر ڈالا تھا
اُس وقت عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صحرائی ٹڈی دل کے حملے کی وجہ سے پاکستان کی فصلوں کو پہنچنے والا مجموعی نقصان ایک ہزار ارب روپے کے برابر ہو سکتا ہے۔ ڈی آئی خان میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ یہ مناظر کاشتکاروں کے لیے بہت خوف ناک تھے
کیا ایک بار پھر خطرہ ہے؟
ڈپارٹمننٹ آف پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی ) کے ڈی جی عابد اللہ دتہ کے مطابق اس وقت پاکستان کو ٹڈی دل سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس وقت پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں ٹڈی دل کی کوئی سرگرمی نہیں ہے جبکہ ایران اور افغانستان میں بھی ٹڈی دل کی صورتحال پرسکون ہے اور ان کی تعداد کم ہونے کے باعث ان سے خطرہ نہیں ہوگا
تاہم ڈی جی عابد اللہ دتہ کا کہنا تھا کہ مون سون کی بارش کے دوران پاکستان کے صحرا چولستان اور تھرپارکر میں ٹڈی دل ظاہر ہو سکتے ہیں
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مستقبل میں ٹڈی دل کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ڈی پی پی کے پاس وسائل کا کافی ذخیرہ موجود ہے
اقوام متحدہ کے ادارہء خوراک و زراعت سن 1945ع سے کام کر رہا ہے اور تمام دلچسپی رکھنے والے ممالک کو ٹڈی دل کی عمومی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ وہ ممالک جہاں ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ہے، وہاں بروقت معلومات فراہم کی جاتی ہیں
ٹڈی دل سے خطرہ اور بجٹ میں مختص رقم
مقامی سطح پر محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے پاس پاکستان کے تمام صحرائی علاقوں میں ٹڈی دل کی نگرانی اور کنٹرول کی کارروائیوں کو مؤثر بنانے کا مینڈیٹ ہے۔ تاہم تاریخ میں پہلی بار پاکستانی بجٹ میں ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے بھی فنڈز رکھیں گے ۔بجٹ 2022 میں ٹڈی دل ایمرجنسی اور تحفظ خوراک منصوبے کے لیے 80 کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے
عابد اللہ دتہ نے بتایا کہ لوکسٹ ایمرجنسی اینڈ فوڈ سیکیورٹی (LEAFS) پروجیکٹ ورلڈ بینک کی جانب سے تیار اور منظور کردہ پروگرام ہے جس کی مالیت تقریباً 96 ملین ڈالر ہے۔ اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے تمام صوبوں میں ٹڈی دل کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مستقل اور پائیدار بنیادوں پر قومی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔اس پراجیکٹ کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے ایف اے او تیکنیکی معاونت فراہم کرے گا
اس منصوبے کے چار حصے ہیں:
🔹نگرانی اور کنٹرول
🔹 معاش کا تحفظ اور بحالی
🔹ابتدائی انتباہ، تیاری اور خوراک کی حفاظت
🔹پراجیکٹ مینجمنٹ، نگرانی اور تشخیص
صحرائی ٹڈی دَل کی افزائش کا موسم
صحرائی ٹڈی دل موسم گرما اور موسم بہار میں انڈے دیتے ہیں۔ ایک مادہ ایک دن میں اپنی دم ریت میں گاڑ کر 1دس سے پندرہ سینٹی میٹر لمبی ایک مخصوص تھیلی میں 95 سے 158 انڈے دیتی ہے۔ ایک مربع میٹر میں تقریباً ایک ہزار انڈوں والی تھیلیاں موجود ہوتی ہیں جن سے دو سے تین ہفتوں کے بعد بچے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تو اس بڑے پیمانے پر افزائش کی وجہ سے اس کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے
ممبر کوارڈینیشن آف پاکستان ایگریکلچر ریسرچ سسٹم اور ڈیپارٹمننٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے سابق ڈی جی فلک ناز نے بتایا کہ صرف ٹڈی دل کی موجودگی سے خطرہ نہیں ہوتا لیکن ان کی سرگرمی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جب یہی بالغ ٹڈی دل جوڑی کی صورت میں ہوتے ہیں تب ان کی اندرونی جسمانیت اور رویہ تبدیل ہو جاتا ہے اور ٹڈی دل کی نسل افزائش پاتی ہے۔ ایسے میں یہ خوراک بھی زیادہ لیتے ہیں اور ان کی پرواز بھی بڑھ جاتی ہے
ٹڈی دل پاکستان کہاں سے آتے ہیں؟
صحرائی ٹڈی دل پاکستان میں مشرق اور مغرب کی جانب سے اور بعض اوقات یہ جنوب مغرب یعنی سعودی عرب اور یمن وغیرہ سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ایران کی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ٹڈی دل کی بہار کے موسم میں بریڈنگ ہوتی ہے۔ اس موسم میں سروے بھی کیے جاتے ہیں۔ جون میں وہاں ٹڈی دل کی سرگرمی ختم ہو جاتی ہے۔ بھارت کے ساتھ سرحد پر چولستان اور تھرپارکر کے علاقے میں اور انڈیا کی گجرات اور راجستان کی بیلٹ پر جون سے دسمبر تک ٹڈی دل کی موجودگی کی توقع ہوتی ہے۔ ایف اے او کے سروے کے مطابق بھارت کے بارڈر کے قریب ٹڈی دل موجود تو ہیں لیکن ان کی افزائش کی شرح بہت معمولی ہے
ٹڈی دل کئی بار بریڈنگ کریں تو اس صورت میں زیادہ تعداد کی وجہ سے وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ان کی نئی نسل کی پیدائش میں بھی کم از کم 2 ماہ لگ جاتے ہیں۔اگر ابھی پہلی نسل جون میں شروع ہو گی اور ستمبر میں دوسری نسل پیدا ہو گی، تو دو نسلوں میں یہ اس قابل نہیں ہونگے کہ اکتوبر میں یہ فصلوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں
ٹڈیوں کے جھُنڈ ایک مربع کلومیٹر سے کئی سو مربع کلومیٹر تک پھیلے ہو سکتے ہیں۔ ہر مربع کلومیٹر کے غول میں کم از کم 40 ملین اور بعض اوقات 80 ملین ٹڈی بالغ ہو سکتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کے اوپر بھی بیٹھے ہوتے ہیں
ٹڈی دَل کے فوائد
ڈپارٹمننٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے مطابق صحرائی ٹڈی دَل کو انسانوں اور جانوروں کے لیے خوراک کا ایک بہترین غذائی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج کل کیمیکل کے استعمال کی وجہ سے انہیں کھانا اچھا خیال نہیں ہے۔ کچھ حکیم ٹڈیوں کو ناریل کے تیل میں ڈال کر اور زخموں اور موچ پر مرہم کے طور پر لگاتے ہیں۔