سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط52)

شہزاد احمد حمید

اس سے پہلے کہ کوئی اور بولتا میرا دوست سندھو بول پڑا، ”بلائنڈ ڈولفن جسے سندھی ’بِلھن‘ کہتے ہیں، میرا اور اُس کا ساتھ ازل سے ہے۔ کہتے ہیں یہ مچھلی تبت سے نکلے کچھ اور دریاؤں میں بھی پائی جاتی تھی لیکن اب صرف مجھ میں اور دریائے گنگا میں ہی باقی بچی ہے۔ اس ڈولفن کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور ڈبلیو ڈبلیو ایف(WWF) کی رپورٹ کے مطابق اب دریائے سندھ میں تقریباً ایک ہزار سے بھی کم ڈولفن بچی ہیں۔ البتہ سندھ وائلڈ لائف محکمے نے اس کی نسل بچانے کے لئے نہایت سنجیدہ کوشش کی ہے جو بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ ڈولفن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ قدرت کا کمال دیکھیں یہ سندھ کے گدلے پانی میں ہی زندہ رہتی ہے۔اس کے نوکیلے، لمبے اور نمایاں دانت نچلے جبڑے میں ہوتے ہیں۔ منہ کھلا ہو یا نہ ہو اس کے دانت نظر آتے ہیں۔ جِلد گندمی۔ نر کی لمبائی 2 سے 6 میٹر جبکہ مادہ کی لمبائی 2 سے7 میٹر تک ہوتی ہے۔ اوسط عمر پچیس (25) تا تیس (30) برس ہے۔ مادہ نر سے لمبائی میں بڑی ہوتی ہے۔ افزائشِ نسل جنوری تا مئی ہے۔ حمل کا دورانیہ نو (9) ماہ ہے۔ چند ماہ تک ماں بچوں کی نگہبانی کرتی ہے اور پھر بچے اپنی دنیا خود تلاش کرتے ہیں۔ دریائی کیڑے مکوڑے اس کی خوراک ہیں۔ اس انسان دوست مچھلی کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کا شکار عام تھا اور لوگ اس کا گوشت کھا بھی لیتے تھے لیکن اب اس کے شکار پر سخت پابندی ہے۔ اس کا تیل مختلف ادویات بنانے کے کام آتا ہے۔“

پانی کا سفر بھی عجیب ہے۔ ڈراتا بھی ہے، اچھالتا بھی ہے اور سر میں درد بھی جگاتا ہے۔ ہم سبھی نے سر درد کی شکایت کی تو حضور بخش کہنے لگا، ”سائیں! آپ ایسے سفر کے عادی نہیں ہیں۔ پہلی بار بحری سفر کرنے والوں کی اکثریت کو سر درد یا چکر آنے کی شکایت ہوتی ہے۔ ایسا ہونے کی ایک بڑی وجہ لگاتار پانی کی لہروں کو دیکھنا بھی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں سر درد ٹھیک ہو جائے گا۔ رات آپ کو الائچی والا قہوہ پلاؤں گا تو آپ کو سرور آ جائے گا اور سر درد سے بھی پکی نجات مل جائے گی۔“ کہا اس نے ٹھیک تھا، تھوڑی دیر میں ہی سر درد کم ہوتے ہوتے غائب ہو گیا ہے۔

پانی کے سفر کی پہلی شام ڈھلنے لگی ہے۔ کوہِ سلیمان کے پیچھے ڈوبتے سورج کی شعاؤں نے سندھو کے پانی کو بنفشی رنگ میں نہلا دیا ہے۔ سورج ڈوبنے سے پہلے ہی ہمیں آج کا سفر ختم کرنا ہے۔ کسی مناسب جگہ خیمہ گاہ لگانی ہے۔ ایک جزیرہ نما جگہ کشتی لنگر انداز ہوئی ہے۔ جزیرہ کیا ہے؟ خشک زمین کا ایک ٹکڑا ہے، جس کے ایک طرف گھنے درخت اور کچھ جھاڑیاں ہیں جبکہ باقی زمین خشک اور بنجر اور دو اطراف پانی۔ خیمے لگائے جارہے ہیں۔ارد گرد ویران اور سنسان ہے۔ ہمارے سامنے چند پرندے فضاء سے اتر کر سامنے اپنے گھونسلوں میں گھس گئے ہیں۔ ماحول نے نین کے چہرے پر خوف سا طاری کر دیا ہے۔ڈرا میں بھی ہوا ہوں۔

خیمے گاڑ دئیے گئے ہیں۔ چاچا اور گاموں لکڑیاں اکھٹی کرنے چلے گئے ہیں۔ حضور بخش کھانا بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ مشتاق اس کی مدد کر رہا ہے۔ مکس سبزی بنائی جائے گی۔ کمال یہ ہے کہ سندھو کے کنارے مچھلی کی بجائے مکس سبزی کا کھانا۔ بہر حال مقصد اس سے بڑا ہے سندھو کی سیر، ڈولفن کا درشن اور مہمان پرندوں کی یاترا۔

سالن تیار ہوا تو روٹیاں بیلنے کا کام شروع ہے۔ رات نے پڑاؤ ڈال لیا ہے۔ اندھیرے نے ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ بس ستارے رات کو روشن کرنے میں مصروف ہیں، ان کی محفل آسمان کی وسعتوں پر سجنے کو تیار ہے۔ آسمان صاف اور تازہ ہوا خنک ہے۔ چندا ماموں بھی اس محفل کو رونق بخشنے والے ہیں۔ جیسے جیسے رات اس ویران جزیرے میں اتر رہی ہے خاموشی ڈراؤنی ہونے لگی ہے۔ خاموشی میں اگر آواز ہے تو سندھو کی لہروں کی یا ہوا کی، جو درختوں سے ٹکرا کر سیٹی بجا رہی ہے مگر اس سیٹی میں خوف ہے۔

کھانے کے بعد چائے کا دور ختم ہوا تو ہمارے ناخدا دریائی موسیقی کی محفل سجانے کی تیاری میں ہیں۔ موسیقی کے آلات میں کچا گھڑا، اسٹیل کا تھال اور گڑوی ہیں۔ چاچا کی آواز گونجی وہ سرائیکی کا ایک دوہڑہ گا رہا ہے، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے؛ ”نہ ہم زمین کے مالک ہیں نہ مال مویشی رکھتے ہیں۔ ہم تو ٹوکرے بنانے والے ہیں۔ ہم لئی کی نرم شاخوں سے ٹوکرے بناتے ہیں۔“

دریائی موسیقی شہر سے دور، انسانی بستیوں سے پرے، دریا کی لہروں پر ہی گائی اور سنائی جاتی ہے۔ دریا واسیوں کی مخصوص موسیقی۔ سادہ، حقیقت کے قریب اور خالص۔ مغربی موسیقی کے چار سر ہیں جبکہ ہماری روایتی موسیقی کے سات اور دریائی موسیقی کے کئی سر ہیں۔ یقین کریں ان تین آلات کی موسیقی خون کے رویں رویں اور نس نس میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ تصور کریں چاندنی رات، ستاروں سے سجا آکاش، خاموشی، تنہائی، دریا کا کنارا، لہروں کا جل ترنگ، کھلے آسمان تلے دریائی موسیقی کی محفل، نین کا ساتھ، سادہ اور خالص لوک گیت، آپ اس سرور کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔۔

یہ بات بھی ذہن میں محفوظ کر لیں عظیم سندھو کے کوزہ گر بھی مشہور ہیں۔ ایسے ہی ایک کوزہ گر کو اس دریا نے موسیقی کا ایسا وردان دان کیا، سروں کی کہکشاں اُس کے گلے میں اتار کر اُس کو امر کر دیا ہے۔ اس گمنام کوزہ گر نے خواجہ فرید ؒ کا کلام ایسا گایا کہ ملک کے کونے کونے میں مشہور ہو گیا۔ اس کوزہ گر کو سارا ملک ”پٹھانے خاں“ کے نام سے جانتا ہے۔ پٹھانے خاں نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا، ”میری سوز و آواز میں سندھو کا جل ترنگ ہے۔“

موسیقی کی یہ محفل اپنے اختتام کو پہنچی تو چندا ماموں ہر طرف اپنی نرم نرم چاندنی پوری طرح سے پھیلا چکا ہے۔ دب اکبر صحرائی اور دریائی مسافروں کو راہ دکھانے کا قدرتی نظام فلک پر تاروں کے جھرمٹ میں صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہ خدائی نظام کا حصہ ہے جو دریاؤں اور صحراؤں میں مسافروں کو راہ سے بھٹکنے نہیں دیتا ہے۔ قدرت کا جی پی ایس سسٹم۔ دوست اپنے اپنے خیموں میں چلے آئے ہیں۔ میں کب سویا یاد نہیں البتہ صبح باس نے آواز دی، خیمہ سے باہر آیا تو وہ بولے، ”میاں اگر نماز پڑھ سکتے ہو تو پڑھ لو، ابھی کچھ وقت ہے۔“ میں مسکرا دیا۔ وضو کیا اور اللہ کے دربار میں جھک گیا

نماز سے فارغ ہوا تو دیکھا چاچا گاموں اور حضور بخش ناشتہ بنانے کی تیاری میں لگے ہیں۔ مشتاق اور قاسم نقوی بھی خیمے سے باہر آ گئے ہیں۔ باس بولے، ”جاؤ اور جا کے عافیہ کو بھی اٹھا دو۔ ہمیں جلدی روانہ ہونا ہے۔چڑھتے سورج کا ایک منظر ہم اٹک پل پر دیکھ آئے ہیں۔ آج نیا منظر ہے دریا کے کنارے۔ طلوعِ آفتاب میں ابھی کچھ وقت ہے اور دور سندھو کے پانیوں پر ہلکی ہلکی سی دھند سی چھائی ہے۔ دور افق پر ایسے لگ رہا ہے، جیسے بادلوں کے کچھ ٹکڑوں نے اپنا رنگ بدل لیا ہو۔ کچھ ہی دیر میں طلوع ہوتے سورج کے جلوے، اس کی نرم شعاعیں، باد نسیم، لہر در لہر آتی سندھو کی قرمزی لہریں۔ سبحان اللہ۔۔قدرت کے جلوں کی انتہا ہے۔

پراٹھے، آلو کی بھجیا اور آملیٹ کے ناشتے سے فارغ ہوئے ہیں۔ کیمپ اکھاڑ کر پھر سے کشتی میں لاد دئیے گئے ہیں۔ ایک نئی نیلگوں صبح اور نئے سفر کا آغاز ہے۔ سندھو اور ماحول دونوں ہی پرسکون ہیں۔ مشرق سے ابھرتے سورج کا تھال اپنی سنہری دھوپ کائنات پر بکھیر چکا ہے۔ ہوا ٹھنڈی اور سورج کی روشنی سندھو کے پانی میں ہلکورے لیتی محسوس ہو رہی ہے۔ کشتی سندھو کی موجوں پر کھینے لگی ہے۔

دریا میں کشتی کھینا کوئی آسان کام نہیں۔ ارد گرد پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لہروں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑا خطرہ گرداب (بھنور) ہوتے ہیں۔ اگر کشتی بھنور میں پھنس جائے تو نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں پانی گہرا اور تیزی سے دائرے میں گھومتا ہے اور پھنسی چیز کو جلد ہی اپنی تہہ میں لے جاتا ہے۔ یہی دریائی سفر کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر مسافر تیراکی سے واقف نہیں تو پھر خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس فن سے ناواقف ہی ہیں۔ ویسے سبھی ملاح تیراکی کے فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close