اون منی: پاکستان میں گاڑیوں کی خرید و فروخت میں ’پریمیئم‘ کیسے ایک غیر رسمی متوازی شعبہ بن چکا ہے؟

ویب ڈیسک

محمد اصغر نے گذشتہ برس اپنی کمائی سے پہلی بار کار بُک کروائی۔ محدود پیمانے پر کاروبار کرنے والے اڑتیس سالہ اصغر اپنی کار حاصل کرنے کے لیے بے تابی سے منتظر تھے، تاہم کار کمپنی کی جانب سے انہیں کار کی ڈیلیوری سات ماہ کے بعد بھی نہیں ہو پائی

محمد اصغر نے نومبر 2021ع میں مقامی طور پر تیار ہونے والی ایک کار کی بینک کے ذریعے بکنگ کروائی تھی اور کمپنی کی جانب سے انھیں جون 2022ع میں کار دینے کا کہا گیا تھا

اصغر نے جس ڈیلر کے ذریعے کار بُک کروائی، اس سے جون کے وسط میں رابطہ کرنے پر پتا چلا کہ ابھی ان کی کار کی ڈیلیوری نہیں ہو سکتی کیونکہ ابھی تک مارچ میں ڈیلیور کی جانے والی کاروں میں سے کچھ کی ڈیلیوری باقی رہتی ہے

انہیں اب یہ بھی امید نہیں کہ ان کی کار جولائی میں آجائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کار کی ڈاؤن پیمنٹ کے ساتھ حکومت کی جانب سے بڑی کاروں پر بڑھنے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کی اضافی رقم بھی جمع کرا چکے ہیں لیکن انہیں نہیں لگتا کہ وہ جلد اپنی کار حاصل کر پائیں گے

یہی صورت حال ملک اسحاق کو بھی پیش آئی، جنہوں نے 1800 سی سی کار بُک کروا رکھی ہے۔ انہیں ڈیلر کی جانب سے کہا گیا کہ وہ دو لاکھ سے زائد اون منی دے دیں تو انہیں کار فوری طور پر مل سکتی ہے، تاہم اسحاق اون منی دے کر کار لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس لیے وہ بھی کار کی ڈیلیوری کا انتظار کر رہے ہیں

ملک میں نئی حکومت آنے کے بعد حالیہ عرصے کے دوران پیٹرول کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ ہوا ہے اور ایسے میں شہزاد محمود سمیت کئی لوگ اپنی بڑی گاڑی بیچ کر چھوٹی اور بہتر ایوریج والی گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شہزاد نے اپنی بڑی کار بیچ کر صرف ایک ہفتے کے اندر کم طاقت کے انجن کی کار حاصل کی اور ان کو ایک ہفتے میں ملنے والی کار کے لیے ڈیڑھ لاکھ اون منی دینا پڑی

شہزاد کو کام کے سلسلے میں کار کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے اون منی ادا کر کے ایک ہفتے میں کار حاصل کر لی، جبکہ دوسری جانب اصغر اور اسحاق جیسے کئی خریدار اون منی ادا نہ کرنے کی وجہ سے کئی مہینوں کے بعد بھی اپنی کار حاصل کرنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں

پاکستان میں کاروں کے شعبے میں خرید و فروخت میں اون منی کا شور بہت سنا جاتا ہے۔ آٹو سیکٹر کے شعبے سے وابستہ ماہرین اون منی کو اس شعبے میں ایک غیر رسمی متوازی شعبہ سمجھتے ہیں جس میں سالانہ اربوں روپے شامل ہیں اور فوری طور پر کار حاصل کرنے والوں کو اون منی کی صورت میں کار کی اصل قیمت پر اضافی پیسے دینے پڑتے ہیں

پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی کمپنیاں اون منی کے حوالے سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں، جبکہ آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق اس اون منی میں ایک منظم طریقے سے کار ڈیلرز اور سرمایہ کار شامل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ کار کی اصل قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرنے پر مجبور ہیں

پاکستان میں کاریں تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ٹویوٹا آئی ایم سی کی جانب سے کاروں کی ڈیلیوری میں تاخیر پر اپنے گاہکوں سے معذرت کا اشتہار گذشتہ دنوں اخبارات میں چھپا تاہم کمپنی کی جانب سے تاخیر کی وجہ سی کے ڈی درآمدات پر اسٹیٹ بینک کی نئی پالیسی اور روپے کی قدر میں کمی کو قرار دیا گیا ہے

اس اشتہار میں کمپنی کی جانب سے خریداروں کو تاخیر سے ڈیلیوری پر مطلع بھی کیا گیا ہے

آٹو سیکٹر میں رائج اون منی کیا ہے اور یہ کیسے متوازی شعبہ بن چکا ہے؟

پاکستان میں کاروں کی خرید و فروخت میں اون منی ایک متوازی شعبے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جو کہ غیر رسمی ہے۔ اون منی وہ اضافی رقم یا ’پریمیئم‘ ہے، جو ایک خریدار کو اصل قیمت کے اوپر ادا کرنا پڑتا ہے تاکہ جلد از جلد کار مل جائے

اگر ایک شخص نے گاڑی خریدنی ہے تو شوروم اسے کچھ مہینوں یا کچھ کیسز میں تو ایک سال کا وقت دیتا ہے لیکن اگر خریدار کو فوری گاڑی چاہیے تو اسے گاڑی کی اصل قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرنا پڑیں گے جسے اون منی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کمپنی کے بجائے کسی ایسے شخص سے کار خرید لیتے ہیں جس نے پہلے سے بُک کروا کر ڈیلیوری حاصل کر رکھی ہو

اس سلسلے میں آٹو سیکٹر شعبے کے ماہر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے ”یہ پوری ایک بلیک مارکیٹ ہے، جس میں خریدار کو لوٹا جاتا ہے جسے گاڑی کی اصل سے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کار کمپنیوں سے لے کر ان کے مجاز ڈیلرز، ان مجاز ڈیلرز کے ذیلی ڈیلرز اور سرمایہ کار شامل ہوتے ہیں۔ اون منی کے کاروبار میں اربوں روپے شامل ہیں جن میں بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ ڈیلرز اور کمپنیاں بھی شامل ہیں“

وہ کہتے ہیں ”مجاز ڈیلرز کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جاتی ہے اور جس طرح پراپرٹی کے شعبے میں بے نامی سودے ہوتے ہیں، ایسے ہی کاروں کے شعبے میں بے نامی سودے ہو رہے ہوتے ہیں اور بڑے سرمایہ کار ڈیلرز کے ساتھ مل کریہ کام کر رہے ہیں“

گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان آٹو موٹومینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اون منی کی صورت میں اس شعبے میں ایک پوری متوازی اکانومی کھڑی کر دی گئی ہے، تاہم انہوں نے اس میں کاریں بنانے والی کمپنیوں کو بے قصور قرار دیا

عبد الوحید کہتے ہیں ”پراپرٹی کے شعبے کی طرح کاروں کے شعبے میں بھی سرمایہ کار سرگرم ہیں اور اون منی کے کاروبار میں ملوث ہیں“

تاہم یہ بات معنی خیز ہے کہ اگر کمپنیاں اس میں ملوث نہیں ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اون منی کو روکنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے

کیا اون منی کا تعلق کاروں کی رسد و طلب سے ہے؟

پاکستان میں کاروں کی پیداوار اور اس کی طلب سے اون منی کے تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کار ڈیلر شیخ شیراز نے کہا کہ رسد و طلب میں کمی سے بھی اس کا تعلق بنتا ہے

انہوں نے کہا کہ جو شخص کار خریدار رہا ہے، اسے جلد سے جلد کار چاہیے اور یہیں سے اون منی شروع ہو جاتی ہے

انہوں نے کہا کہ انویسٹرز نے کاریں بُک کرائی ہوتی ہیں اور وہ خریدار کی جانب سے اس جلد بازی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے ہاں آنے والے خریداروں سے اون منی پر کار خریدنے کا کہتے ہیں

انہوں نے کار ڈیلروں کے اون منی میں ملوث ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ مہینے پہلے کچھ کار ڈیلرز کو اپنے کارپوریٹ خریداروں کے لیے کچھ کاروں کا اوپن کوٹہ ملتا تھا، جسے اون منی کے ذریعے بیچ دیا جاتا تھا، تاہم اب کچھ ہفتوں سے یہ کام بھی رُک گیا ہے کہ یہ کوٹہ ختم کر دیا گیا ہے

انہوں نے بتایا ”اب اون منی اس وقت لی جاتی ہے جب ایک شخص کو جلدی کار چاہیے اور وہ ڈیلر سے رابطہ کرتا ہے اور ایسے انویسٹر جو ڈیلروں کے رابطے میں ہوتے ہیں اور جن کے پاس کار ڈیلیور ہونے والی ہوتی ہے وہ اضافی پیسے لے کر یہ کار بیچ دیتے ہیں“

ایچ ایم شہزاد نے اس سلسلے میں کہا کہ رسد و طلب کا جہاں تک تعلق ہے، اس کے لیے کمپنیوں کو اپنی پیداوار بڑھانی چاہیے

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ کاریں تیار ہوتی ہیں اور کمپنیوں کو یہ اپنی پیداوار طلب کے لحاظ سے بڑھانی چاہیے لیکن یہ کمپنیاں اپنی پیداوار نہیں بڑھاتیں اور نہ ہی ان کے پاس انونٹری ہے کہ جب وہ بکنگ کے وقت پیسے لے رہی ہیں تو وہ گاہکوں کو گاڑیاں بھی وقت پر فراہم کریں

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ سی کے ڈی (اسمبل ہونے والی گاڑیوں) پر مرکزی بینک کی پالیسی کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہوا تو کار کمپنیوں کے پاس چھ مہینے کی انونٹری تو ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی پیداوار کو متاثر نہ ہونے دیتے

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ پالیسی ہے کہ گاہگ سے پیسے ایڈوانس لے لیے جاتے ہیں اور اسی کے بعد گاڑی دیر سے دی جاتی ہے

وہ کہتے ہیں ”یہ پیسے اربوں روپے میں ہوتے ہیں جو گاڑی کی بکنگ کے وقت ہی لے لیے جاتے ہیں اور پھر انھی پیسوں پر کار کمپنیاں اپنا کاروبار کرتی ہیں“

عبد الوحید نے اس سلسلے میں بتایا ”اس وقت صورتحال خراب ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک خاص چِپ دستیاب نہیں، جو گاڑی میں لگائی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں بھی گاڑیوں کی پروڈکشن متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح سی کے ڈی پر نئی پالیسی اور فریٹ چارجز کی وجہ سے بھی مسائل آئے ہیں“

گاڑی کی تاخیر سے ڈیلیوری پر کیا کوئی جرمانہ ہے؟

پاکستان میں کار صارفین کو رقم کی ادائیگی کے بعد کار کی ڈیلیوری میں تاخیر پر کیا کار کمپنیوں پر کوئی جرمانہ عائد ہوتا ہے؟

اس کے بارے میں حکومتی ادارے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے پالیسی ہیڈ عاصم ایاز بتاتت ہیں ”کار بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے اگر صارفین کو رقم کی ادائیگی کے بعد کار دینے میں تاخیر ہوتی ہے تو اس پر ان کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو انہیں صارفین کو ادا کرنا ہوتا ہے“

انہوں نے کہا ”اگر صارف کی جانب سے قیمت ادا کرنے کے بعد کمپنی کی جانب سے ڈیلیوری ٹائم کے بعد دو مہینے کی تاخیر ہوتی ہے تو کمپنی کو ایسے صارف کو کراچی انٹر بینک آفر ریٹ (کائی بور) جمع تین فیصد کے حساب سے کچھ جرمانے کی صورت میں پیسے واپس دینے پڑتے ہیں“

یعنی اگر کمپنی آپ کو گاڑی کی ڈیلیوری دو ماہ کے اندر اندر نہیں کر پاتی تو بطور صارف لیٹ ڈیلیوری پیمنٹ حاصل کرنا آپ کا حق ہے

ان کے بقول ”ایسے سینکڑوں صارفین موجود ہیں، جنہیں کار کی ادائیگی کے بعد اس کی ڈیلیوری میں دو مہینے کی تاخیر پر کمپنی کی جانب سے پیسے ادا کیے گئے“

کراچی کے رہائشی نادر بیگ نے مقامی طور پر تیار ہونے والی کار بک کروائی، تو انہیں کمپنی کی جانب سے دیے جانے والے وقت میں کار نہیں دی گئی۔ نادر بیگ نے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے انہیں گاڑی میں ڈیلیوری میں ڈیڑھ مہینے کی تاخیر ہوئی تاہم انہیں جب گاڑی دی گئی تو اس کے کچھ دن بعد کمپنی کی جانب سے سولہ ہزار کا لیٹ ڈیلیوری چیک بھی دیا گیا

نادر بیگ نے کہا ”جہاں تک اون منی کا مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ صارف کو گاڑی لینے میں جلدی ہوتی ہے۔ صارف کہتا ہے کہ مجھے گاڑی آج ہی لینی ہے تو پھر سرمایہ کار کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سرمایہ کار پلاٹ خریدتا ہے تو لازمی اسے منافع پر بھی بیچے گا اور اسی طرح کار کا بھی معاملہ ہے“

عبدا لوحید نے اس سلسلے میں کہا کہ بالکل یہ ایک نوٹیفائیڈ پالیسی ہے کہ ایک خاص وقت پر ڈیلیوری دینے کے بعد اگر کار صارف کو نہ دی جائے تو اس پر کار کمپنی کو صارف کو ایک خاص فیصد سے رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ایسے کئی کیسز موجود ہیں جس میں کمپنی نے صارف کو پیسے دیے

یہاں ایک مسئلہ روپے کی قدر میں عدم استحکام بھی ہے، کیونکہ صارف یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر اون منی دے کر ابھی کار نہ خریدی گئی تو اس کی قیمت میں اضافے کے بعد اس سے زیادہ رقم ادا کرنا پڑ سکتی ہے

’گھوسٹ سرمایہ کاری‘

کاروں کے شعبے میں اون منی کے حصول کے لیے کیا کارٹل کام کر رہا ہے، اس کے بارے میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے ”اون منی عموماً ایک کار کی قیمت سے زیادہ قیمت وصول کرنے کو سمجھا جاتا ہے جو کار کی فوری ڈیلیوری کے لیے لیا جاتا ہے“

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ ڈیلرز کی جانب سے لی جانے والی اضافی رقم کیا کارٹیلائزیشن ہے یا نہیں کے لیے ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے

’آٹو سیکٹر میں صارفین کی شکایات کو مسابقتی ایکٹ کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے کہ اس میں مسابقت کے اصولوں کے خلاف تو کچھ نہیں ہو رہا۔ اس سلسلے میں ایک انکوائری کمیٹی متعلقہ اداروں سے معلومات جمع کر کے کمیشن کو رپورٹ جمع کرائے گی۔‘

مسابقتی کمیشن کے مطابق آٹو انڈسٹری کو سنہ 2010ع سے دیکھا جا رہا ہے اور اس کے تحت قیمتوں کو بکنگ کے بعد دیکھا جا رہا ہے

’سنہ 2018 میں اون منی کے ایشو کو دیکھا گیا اور گھوسٹ سرمایہ کاری کے ذریعے اون منی کے ذریعے زیادہ ریٹرن کو چیک کیا گیا۔‘

اون منی میں کرپٹ پریکٹسز پر مسابقی کمیشن نے کہا کہ یہ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ اس کا کام مسابقت کو بڑھانا اور صارفین کو مسابقتی اصولوں کے خلاف پریکٹسز سے محفوظ رکھنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close