غریب ممالک امیر ملکوں کے فضلے کی ڈمپنگ اور لینڈفل سائٹس بن رہے ہیں

ویب ڈیسک

حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کو بتایا گیا کہ پاکستان ہر سال 80 ہزار ٹن فضلہ درآمد کرتا ہے

حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے قانون بنانے والوں کو اس بارے میں سرے سے علم تک نہ تھا

خیال رہے کہ اس درآمد کے باعث نہ صرف ملک میں ماحولیاتی اور صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے

اپنا فضلہ برآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست برطانیہ ہے جو ہر سال چالیس ہزار ٹن فضلہ پاکستان برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی شامل ہیں

قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ 2019ع میں فضلے سے لدے چھے سو چوبیس کنٹینرز برآمد کرنے والوں نے فضلہ پاکستان کے ساحل پر بکھیر دیا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ نجی پارٹی جس نے یہ فضلہ درآمد کروایا تھا، اسے یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا

رپورٹس کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ کروڑ ٹن سولڈ ویسٹ بنتا ہے اور سالانہ 2.4 فیصد کے تناسب سے فضلہ بڑھ رہا ہے، لیکن ملک میں اس فضلے کے استعمال یا اسے ٹھکانے لگانے کے حوالے سے مربوط پالیسی نہ ہونے کے باعث یہ فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے، یا پھر خالی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے یا پھر دبا دیا جاتا ہے، جس سے خطرناک ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں

فضلے کو ٹھکانے نہ لگانے کے حوالے سے کسی پالیسی کے نہ ہونے کی وجہ سے یہی فضلہ عوام کی صحت اور ویلفیئر کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے

ہر سال ری سائیکل شدہ فضلے سے بھرے ہزاروں شپنگ کنٹینر امیر ممالک سے ترقی پذیر ممالک برآمد کیے جاتے ہیں

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان امیر ممالک کے لیے بھی ری سائیکل کرنے کا ڈھانچہ لگانا مہنگا اور اس فضلے کو برآمد کرنا زیادہ سستا پڑتا ہے

اس قسم کی برآمدات میں حالیہ دہائیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اکیسویں صدی میں یورپی یونین سے برآمد کیے جانے والے فضلے میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار یہ فضلہ بحری جہاز میں کنٹینر میں بند اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتا ہے تو اس کا سراغ نہیں رہتا اور ترقی پذیر ممالک میں پہنچ کر یہ ری سائیکل کم ہی ہوتا ہے۔ اس فضلے کو یا تو جلایا جاتا ہے یا پھر ترقی پذیر ملک میں سہولیات نہ ہونے کے باعث اس کو غیر قانونی طور پر پھینک یا دبا دیا جاتا ہے۔ اس امر کے باوجود برآمد کرنے والا امیر ملک اس فضلے کو ری سائیکل میں شمار کرتا ہے

امیر ملکوں سے ترقی پذیر ممالک میں فضلے کی برآمد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن امیر ممالک کی جانب سے ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ کے مصداق اپنے ہاں تشویش ناک ماحولیاتی آلودگی اور سمندری حیات کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی قیمت غریب ملک ادا کر رہے ہیں

اسی بنا پر یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ فضلے کی برآمدات پر مکمل پابندی لگنی چاہیے اور ری سائیکلنگ کے نظام کو بہتر بنایا جانا چاہیے

چین کا شمار پچیس سال تک فضلے کے سب سے بڑے درآمد کنندہ ملک میں ہوتا تھا۔ چین پلاسٹک کے فضلے کا 70 فیصد درآمد کیا کرتا تھا، لیکن 2017 میں چین نے مخصوص قسم کے فضلے کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا آغاز کیا اور ایک ہی سال بعد ’نیشنل سورڈ‘ یعنی قومی تلوار نامی پالیسی کے تحت زیادہ تر پلاسٹک کے فضلے کی درآمد پر پابندی عائد کر دی اور خام سائیکل فضلے کے حوالے سے سخت پالیسی کا اعلان کیا

چین کے اس فیصلے سے فضلے کی برآمد کرنے والے ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں چین کو فضلے کی برآمد 15 لاکھ ٹن سے کم ہو کر 51 ہزار ٹن رہ گئی اور 2020ع میں یہ برآمدات مزید کم ہو کر محض چار ہزار میٹرک ٹن رہ گئی

دوسری جانب امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں فضلے کے انبار لگنے لگے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان ممالک نے دیگر ترقی پذیر ممالک کی کھوج کا آغاز کیا، جہاں وہ اپنا فضلہ بھیج سکیں

چین کی جانب سے سختی کے بعد ان ملکوں نے اپنا زیادہ تر فضلہ ملائیشیا، ترکی، تھائی لینڈ اور ویتنام برآمد کرنا شروع کیا۔ 2020ع تک ملائیشیا امریکہ کا 30 فیصد پلاسٹک فضلہ برآمد کرتا تھا جبکہ ترکی یورپی یونین کے فضلے کا بہت بڑا درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ ترکی اٹھارہ ہزار میٹرک ٹن سے سات لاکھ میٹرک ٹن فضلہ درآمد کرنے لگا۔ برطانیہ اپنا 40 فیصد پلاسٹک فضلہ ترکی برآمد کرتا تھا

لیکن جلد ہی یہ تمام ممالک اپنے زیادہ فضلے کو ٹھیک طریقے سے ٹھکانے لگانے میں قاصر رہے اور ہر روز نیا فضلہ ان ممالک میں پہنچ رہا تھا۔ اس کے علاوہ آلودہ فضلہ جو ری سائیکل نہیں ہو سکتا تھا، کو درآمد کرنے والے ممالک غلط طور پر ری سائیکلنگ کا فضلہ قرار دے کر برآمد کر رہے تھے

اس کا نتیجہ نکلا کہ ملائیشیا نے ایسا فضلہ واپس بھیجنا شروع کر دیا۔ دوسری جانب ترکی کا بھی کچھ پاکستان والا ہی حال ہوا۔ یورپی یونین سے آنے والا فضلہ اکثر ساحل سمندر پر بکھرا ہوا پایا جانے لگا یا پھر اسے سڑک کنارے آگ لگا دی جاتی تھی۔ نتیجتاً ترکی سے زیادہ تر پلاسٹک کے فضلے کی درآمد پر 2021ع میں پابندی لگا دی گئی

2021 میں بیسل کنونشن آیا، جس کے مقصد یہ تھا کہ ممالک کے درمیان خطرناک مواد کی نقل و حرکت کو کم کیا جائے، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک سے کم ترقی یافتہ ممالک کی جانب۔ تاہم امریکہ نے بیسل کنونشن کو نہیں مانا اور وہ اپنا فضلہ اب بھی دوسرے ممالک کو برآمد کر رہا ہے اور غریب ملک ان کی ڈمپنگ اور لینڈفل سائٹس بن چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close