امریکی ریاست اوہائیو کی پولیس ٹیم نے جس نہتے سیاہ فام شخص کو متعدد بار فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا، اس کی وڈیوز جاری کر دی ہیں
حکام نے گزشتہ روز جو وڈیوز جاری کی ہیں، ان میں دکھایا گیا ہے کہ اس فائرنگ کے واقعے میں آٹھ پولیس اہلکار ملوث ہیں، جس میں چند روز قبل شہر اکرون میں ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کو ہلاک کر دیا گیا تھا
اکرون کے محکمہ پولیس نے اس حوالے سے متعدد وڈیو کلپ جاری کی ہیں۔ ان میں پچیس سالہ سیاہ فام جے لینڈ واکر کا تعاقب کرنے اور ہلاک کرنے کا منظر دیکھا جا سکتا ہے
حکام کا کہنا ہے ”پولیس اہلکاروں کا خیال ہے کہ جے لینڈ واکر نے پہلے اپنی گاڑی سے ان پر ایک گولی چلائی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ وہ دوبارہ فائرنگ کی تیاری کر رہا ہے“
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں نے کتنی بار واکر پر گولیاں چلائیں، تاہم پولیس سربراہ اسٹیو مائیلیٹ نے بتایا کہ طبی معائنہ کاروں کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”مسٹر واکر کے جسم پر ساٹھ سے زیادہ زخم پائے گئے ہیں“
وڈیو جاری ہونے کے بعد مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے اکرون میں مارچ شروع کیا اور شہر کے مرکز میں محکمہ انصاف کے سامنے جمع ہو گئے
شہری حقوق کی تنظیم ’نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز‘ کے صدر ڈیرک جانسن نے ایک بیان میں کہا ”واکر کی موت، بہت قریب سے فائرنگ کے ذریعے کیا گیا ایک قتل ہے“
شہر کے میئر نے کمیونٹی سے امن اور صبر کی اپیل کرتے ہوئے فائرنگ کو ”دل دہلا دینے والا” قرار دیا
ویڈیوز میں کیا ہے؟
پولیس نے اتوار کے روز ایک نیوز کانفرنس میں متعدد وڈیوز دکھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک وڈیو میں واکر کی طرف سے اپنی کار سے چلائی جانے والی گولی بھی دکھائی دے رہی ہے
واقعہ یوں ہے کہ واکر نے ٹریفک کی ایک معمولی سی خلاف ورزی کی تھی اور اس پر پولیس اہلکاروں نے ان کی سرزنش کرنے کی کوشش کی، تاہم وہ اپنی کار میں فرار ہو گئے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس پر پولیس نے ان کا تعاقب کیا اور کئی منٹ تک پیچھا کرنے کے بعد بالآخر واکر نے اپنی گاڑی سے چھلانگ لگائی اور بھاگنے کی کوشش کی
پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ پولیس افسران کی طرف اپنا رخ کر رہے تھے، جن کا اس وقت خیال یہ تھا کہ وہ مسلح ہے۔ تاہم وہ اس وقت نہتے تھے اور، بقول پولیس، بعد میں ان کی گاڑی سے ایک بندوق برآمد ہوئی
جے لینڈ واکر کی فیملی کے وکیل بوبی ڈیسیلو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پولیس کے اس الزام کے بارے میں کافی فکر مند ہیں کہ واکر نے اپنی کار سے پولیس پر فائرنگ کی تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی اس پرتشدد موت کا کوئی بھی جواز نہیں ہے
ڈیسیلو نے کہا ”وہ اسے بندوق کے ساتھ ایک نقاب پوش عفریت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب وہ بھاگ رہا تھا، تو معقول کیا ہے؟ اسے گولی مارنا؟ نہیں، یہ تو معقول نہیں ہے“
ڈیسیلو نے عوام پر زور دیا کہ وہ واکر کے قتل کے خلاف اپنے احتجاج میں پرامن رہیں، اور یہ کہ واکر کے خاندان کی خواہش تھی کہ وہ مزید تشدد سے بچیں
ریاست اوہائیو کی تفتیشی ایجنسی ’بیورو آف کریمنل انویسٹی گیشن‘ واکر کی موت کی تحقیقات کر رہی ہے
واضح رہے کہ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے ظالمانہ طرز عمل جاری ہے۔ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام مردوں اور خواتین کی ہلاکت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، بلکہ برسوں سے جاری اس سلسلے کا ایک تازہ ترین واقعہ ہے
ناقدین کا کہنا ہے کہ سن 2020ع میں منی ایپلس میں جارج فلوئیڈ کے قتل سمیت یہ تمام واقعات نہ صرف نسل پرستی پر مبنی ہیں بلکہ بلا جواز بھی ہیں
جارج فلوئیڈ کے واقعے نے پولیس کی بربریت اور نسلی ناانصافی کے خلاف عالمی مظاہروں کو بری طرح سے بھڑکا دیا تھا
اس واقعے میں ایک پولیس افسر نے چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا، جس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔