یوکرین جنگ: خندقوں سے بھی اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہوئے اساتذہ

ویب ڈیسک

یونیورسٹی کے پروفیسر فیدر شنڈور کرونا لاک ڈاؤن کے دوران آنلائن پڑھاتے رہے ہیں

وہ اب بھی پچھلے کچھ مہینوں سے اپنے طلبہ کو آنلائن ہی پڑھا رہے ہیں، لیکن اس بار یہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ وہ جنگی محاذ پر موجود ہیں

سینتالیس سالہ شنڈور نے روسی حملے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلبہ کو بھی نہیں بھولے اور انہیں تعلیم دینا جاری رکھا ہوا ہے

صبح ہوتی ہے اور خندق کے درمیان فیدر شنڈور موبائل فون پر اپنی آن لائن کلاسز کے لیے لاگ ان کرتے اور سیاحت اور سماجیات جیسے موضوعات پر ہفتہ میں دو بار کلاسز لیتے ہیں

پروفیٹ فیدر شنڈور بتاتے ہیں ”میں گذشتہ ستائیس سال سے پڑھا رہا ہوں۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ میں اسی شعبے میں اچھا ہوں“

مسٹر شنڈور فروری میں روس کے حملے کے بعد سے فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی کیونکہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑنا اور اپنی بیوی اور بیٹی کی حفاظت کرنا چاہتے تھے ”مجھے روسیوں کو میرے گھر آنے سے پہلے روکنا ہے“

فیدر شنڈور کی اپنی ملازمت کے لیے لگن نے بھی ان کی کلاسز میں شرکت کی تعداد کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے

ان کی ایک بیس سالہ طالبہ ایرینا کہتی ہیں ”یہاں تک کہ وہ طالب علم جو پہلے کلاسز چھوڑ دیتے تھے، ہر لیکچر میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہمیں بتایا ہے کہ ہمیں سمارٹ ہونا پڑے گا، کہ ہم ایک سمارٹ قوم کے لیے لڑ رہے ہیں“

لیکن خندقوں سے پڑھانا آسان نہیں ہے کیونکہ طلبہ کو پس منظر میں گولہ باری سننے کی عادت ڈالنی پڑے گی

شنڈور کہتے ہیں ”ایک کلاس کے دوران، آوازیں بہت تیز تھیں اس لیے طلبہ نے سب کچھ سنا۔ پھر میں خندقوں میں چھپ گیا لیکن پڑھانا جاری رکھا“

اپنے اردگرد کے ماحول کے ذریعے بھی وہ اپنے طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں مثال کے طور پر وہ انہیں چھرے یا گولیاں دکھانے اور مختلف قسم کے میزائلوں کے بارے میں سکھانے میں بھی کامیاب رہے ہیں

شنڈور کی کلاسز ان کے ساتھی سپاہیوں کے لیے بھی ایک نئی چیز ہے، وہ اکثر ان کے لیکچرز کو دیکھتے ہیں اور دوران لیکچر ان کی تصاویر لیتے ہیں

ان میں سے ایک تصویر، جس میں انہیں خندق میں اپنا فون پکڑے دیکھا جا سکتا ہے، آن لائن پوسٹ کی گئی تھی جو پورے یوکرین میں وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد سے ملک بھر میں متعدد فنکاروں نے اس لمحے کی ڈرائنگ اور کارٹون بنائے

شنڈور اس وقت فرنٹ لائن پر لڑنے والے واحد استاد نہیں ہیں۔ یوکرین کے وزیر تعلیم سرہی شکارلیٹ کے مطابق اب تک تقریباً نو سو اساتذہ مسلح افواج میں شامل ہو چکے ہیں ”ہمیں ان میں سے ہر ایک پر فخر ہے۔ ہمارے یہاں وزارت تعلیم میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یوکرین کی مسلح افواج میں شامل ہوئے ہیں“

ان ہی میں سے ایک اینٹون تسیلووالنیک بھی ہیں، جو علاقائی دفاعی فوج میں شامل ہوئے ہیں

جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے دوران ان کی کلاسز منسوخ رہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اسکول نے انہیں امداد کے لیے پیغام کرنا شروع کر دیا جن کے ساتھ وہ ماضی میں کام کر رہے تھے

بیالیس سالہ اینٹون نے فوری طور پر علاقائی دفاعی اہلکاروں کے لیے خندقوں یا قریبی رہائش گاہوں میں کلاسز لینے کی بات کہی۔ کوئی بھی چیز انہیں کلاس لینے سے باز نہیں رکھ سکتی، خواہ وہ سرد موسم کی کیوں نہ ہو

وہ کہتے ہیں ”پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بچوں کو پڑھانے کے بارے میں نہیں تھا، یہ بات کرنے اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے بارے میں زیادہ تھا۔۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بچے روزانہ سکول جاتے تھے اور پھر یہ اچانک بند ہو جاتا ہے“

اینٹون پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک کے بچوں کو فن تعمیر کے بارے میں پڑھاتے رہے ہیں

وہ کہتے ہیں ”اب سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ اپنے ماضی اور مستقبل کے درمیان تعلق قائم رکھیں۔ اب پڑھانا میرے لیے بھی ایسا ہی کچھ ہے“

ان کی ایک سترہ سالہ طالبہ وکٹوریا وولکووا کہتی ہیں کہ کلاس کو اچھے موڈ میں رکھنے کے لیے مسٹر تسیلووالنیک کے لیکچر مزاحیہ انداز کے ہوتے ہیں۔ یہ بہترین قسم کا گریز ہے“

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے استاد اکثر کلاس کو اپنے ارد گرد کا ماحول دکھاتے ہیں۔ انہیں ان خندقوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن کی تعمیر میں انہوں نے مدد کی ہے اور ان جگہوں کے بارے میں، جہاں وہ بیٹھ کر ستاروں کو دیکھتے ہیں

وکٹوریا مزید کہتی ہیں ”وہ لیکچرز کے دوران بہت حساس اور خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ رائے مانگتے ہیں، موضوع کو ہمارے لیے دلچسپ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں“

میکسم کوزیمیاکا جیسے دیگر اساتذہ بھی فوج کی مدد کے لیے اپنی طبی مہارتیں استعمال کر رہے ہیں

زیپورززا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ٹراما میڈیسن کے اکتالیس سالہ پروفیسر میکسم نے جب محسوس کیا کہ وہ شہر کے فوجی ہسپتال میں کام کر سکتے ہیں تو وہ رضاکارانہ طور پر مدد کرنے کے لیے تیار ہو گئے

لیکن وہاں کچھ دن کام کرنے کے بعد انہوں نے اپنے طلبہ کو پڑھانے کا طریقہ بھی دریافت کر لیا

پروفیسر میکسم بتاتے ہیں ”ہم نے سوچا کہ ہم آن لائن کلاسز پڑھا سکتے ہیں۔ ‘ہم نے پہلے کووڈ کے دوران آن لائن تدریس کا تجربہ کر رکھا تھا“

اور اس طرح جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے چیلنجنگ دور کے بعد مسٹر کوزیمیاکا نے پڑھائی شروع کی اور اپنے طلبہ کو آنلائن پر ہی آپریشن کے طریقے سکھانے شروع کیے

وہ اپنے طلبہ کو اپنے گھروں سے بھی آپریشن میں حصہ لینے اور تبصرہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے لائیو کلاسز اور اضافی حقیقت کا مرکب استعمال کرتے ہیں

وہ کہتے ہیں ”ہم نے نوجوان ڈاکٹروں اور طالب علموں کو جنگی زخموں سے نمٹنے کا طریقہ سکھایا ہے“

درینا بویستا نے کوزیمیاکا کی کلاسز میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب سے انہوں نے دوبارہ کلاسز شروع کی ہے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے ”اب میں آپریٹنگ ٹیبل پر ہونے والی ہر چیز کو سمجھتی ہوں۔ میکسم اپنے آن لائن لائیو آپریشنز کے دوران ہر چیز کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیں“

لیکن وہ اپنے استاد کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”یہ نہ صرف نفسیاتی طور پر مشکل ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی مشکل ہے۔ آپ ان لوگوں کو سب کچھ دینا چاہتے ہیں جن کا آپ علاج کر رہے ہیں۔ یعنی ہمارے فوجی“

کوزیمیاکا کے لیے کلاسز چھوڑنے کا کوئی آپشن نہیں۔ ان کا کہنا ہے ”تعلیم میری زندگی کا کام ہے۔ میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔ ہم جنگ سے پہلے ایک ملک کے طور پر صحیح راستے پر تھے اور اب بھی ہیں، اس لیے ہمیں اپنی فتح کے لیے مل کر لڑنے اور متحد رہنے کی ضرورت ہے۔‘

کوزیمیاکا کہتے ہیں ”یہ ضروری ہے کہ آپ جو پہلے کرتے رہے ہیں اس پر کام جاری رکھیں۔ آخر جنگ ہمیں کیوں روکے؟“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close