بھارت میں دھوکہ دہی کی اپنی نوعیت کی حیران کن حد تک ایک فلمی واردات سامنے آئی ہے، جہاں عدالت میں آئے ایک عجیب و غریب مقدمے میں ایک ایسے شخص کو جیل بھیج دیا گیا ہے جو اکتالیس سال تک ایک امیر زمیندار کا بیٹا بن کر اس کے گھر میں رہتا رہا
یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری سنہ 1977ع سے، جب بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کے نالندہ ضلع کے ایک امیر اور بااثر زمیندار کا اکلوتا بیٹا کنہیا سنگھ امتحان کے دوسرے دن اسکول سے گھر واپس آتے ہوئے لاپتہ ہو گیا
اس کے اہل خانہ نے پولیس میں ’گمشدگی کی رپورٹ‘ درج کرادی لیہن کنہیا کو تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں
اس کا بوڑھا باپ ڈپریشن میں چلا گیا اور نیم حکیموں اور ٹوٹکے کرنے والوں سے ملنے لگا۔ گاؤں کے ایک ٹوٹکا کرنے والے (عامل) نے انہیں بتایا کہ ان کا بیٹا زندہ ہے اور وہ جلد ہی ’نمودار‘ ہوگا
وقت گزرتا گیا اور پھر ستمبر سنہ 1981ع میں ایک بیس سالہ نوجوان گاؤں سے بمشکل پندرہ کلومیٹر ایک گاؤں پہنچا
وہ زعفرانی لباس میں ملبوس تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ گانے گاتا ہے اور بھیک مانگ کر پیٹ پالتا ہے۔ اس نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ وہ مرگاوان (لاپتہ لڑکے کے گاؤں) کے ’ایک ممتاز شخص کا بیٹا‘ ہے
اس کے بعد کیا ہوا یہ پوری طرح واضح نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ جب یہ افواہ کامیشور سنگھ کے کانوں تک پہنچی تو وہ خود اسے دیکھنے کے لیے اس گاؤں پہنچے
ان کے ساتھ آنے والے کچھ پڑوسیوں نے انہیں بتایا کہ وہ شخص واقعی ان کا بیٹا ہے اور وہ اسے اپنے گھر لے آئے
پولیس رکارڈ کے مطابق کامیشور سنگھ نے ان لوگوں سے کہا ”میری بینائی کم ہو رہی ہے اور میں اسے ٹھیک سے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر آپ لوگ کہتے ہیں کہ وہ میرا بیٹا ہے تو میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا“
چار دن بعد بیٹے کی واپسی کی خبر ان کی بیوی رام سکھی دیوی تک پہنچی جو اس وقت اپنی بیٹی ودیا کے ساتھ ریاستی دارالحکومت پٹنہ میں تھیں۔ وہ واپس گاؤں پہنچیں اور پہنچتے ہی انہیں احساس ہو گیا کہ وہ نوجوان ان کا بیٹا نہیں
ماں نے کہا کہ کنہیا کے سر کے بائیں جانب چوٹ کا ایک نشان تھا، جو اس شخص کے سر میں نہیں۔ وہ نوجوان گمشدہ لڑکے کے اسکول کے ایک استاد کو بھی پہچاننے میں ناکام رہا لیکن سنگھ اس نوجوان کو اپنا بیٹا قرار دینے پر یقین کے ساتھ مُصر رہے
اس واقعے کے چند دن بعد، رام سکھی دیوی نے دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کرایا اور اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ ضمانت حاصل کرنے سے پہلے اس نے ایک ماہ جیل میں گزارا
اگلی چار دہائیوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ دھوکے اور فریب کی خوفناک داستان تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی عدالتوں سے انصاف میں تاخیر اور نظام میں موجود نقائص کی ایک بدنما مثال بھی ہے
ایک شخص نے زمیندار کا گمشدہ بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا اور خود اس کے گھر میں گھس بیٹھا
جب وہ ضمانت پر تھا تو اس نے ایک نئی شناخت اپنا لی، کالج گیا، شادی کی، ایک خاندان بنایا اور متعدد جعلی شناختیں حاصل کیں
ان آئی ڈیز کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ووٹ ڈالے، ٹیکس ادا کیے، قومی شناختی کارڈ کے لیے بائیو میٹرک شناخت قائم کی، بندوق کا لائسنس حاصل کیا اور کامیشور سنگھ کی سینتیس ایکڑ جائیداد بیچ ڈالی
اس نے سختی کے ساتھ ڈی این اے کا نمونہ دینے سے انکار کیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ وہ زمیندارکا بیٹا ہے اور عدالت کو دنگ کر دینے والے اقدام میں اس نے جعلی ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ذریعے اپنی اصل شناخت کو ’ختم‘ کرنے کی کوشش بھی کی
سرکاری رکارڈ میں اس شخص کو حیرت انگیز طور پر کنہیا جی کے طور پر رجسٹر کیا گیا۔ واضح رہے بھارت میں کہ نام کے ساتھ ’جی‘ کا لاحقہ احتراماً لگایا جاتا ہے
ان ججوں کے مطابق جنہوں نے اس شخص کو نقالی، دھوکہ دہی اور سازش کا مجرم پایا اور سات سال کے لیے جیل بھیج دیا اس کا اصل نام دیانند گوسائیں تھا اور اس کا تعلق جموئی ضلع کے ایک گاؤں سے تھا، جو کنہیا کے گاؤں سے کوئی ایک سو کلومیٹر دور تھا
دیانند گوسائيں کی سنہ 1982ع کی شادی کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے، جو سنگھ کے گھر میں داخل ہونے کے ایک سال بعد کی ہے، اس میں پتلی مونچھوں والا ایک گورا آدمی نظر آتا ہے۔ اس نے سہرا پہنا ہوا ہے اور دور خلا میں گھور رہا ہے
سنگھ گھرانے میں داخل ہونے سے پہلے اس کے بارے میں زیادہ تر حقائق مبہم ہیں
سرکاری دستاویزات میں اس شخص کی تاریخ پیدائش مختلف ہے۔ اگر اس کے ہائی اسکول کے ریکارڈ میں یہ جنوری 1966 ہے تو اس کے قومی شناختی کارڈ میں فروری 1960 ہے اور اس کے ووٹر شناختی کارڈ میں یہ 1965 ہے جبکہ سنہ 2009 کے لوکل گورنمنٹ کارڈ یا راشن کارڈ میں اس کی عمر پینتالیس سال درج کی گئی تھی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سنہ 1964 میں پیدا ہوا
گوسائیں کے خاندان نے کہا کہ وہ ’تقریباً باسٹھ سال‘ کے ہیں، جو قومی کارڈ میں ان کی تاریخ پیدائش کے مطابق ہے
تحقیق سے پتہ چلا کہ گوسائیں جموئی کے ایک کسان کے چار بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ گانا گاتے تھے اور روزی روٹی کے لیے بھیک مانگتے تھے اور انیوں نے سنہ 1981ع میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا
جموئی کے ایک سینیئر پولیس افسر چترنجن کمار کا کہنا ہے کہ گوسائیں نے جلد شادی کر لی تھی لیکن اس کے بعد ان کی بیوی نے انہیں چھوڑ دیا
مسٹر کمار کا کہنا ہے ”اس جوڑے کے بچے نہیں تھے اور اس کی پہلی بیوی نے دوبارہ شادی کر لی تھی۔ پولیس نے گاؤں کے ایک شخص کا بھی سراغ لگایا، جس نے کیس کے دوران عدالت میں گوسائیں کی شناخت کی تھی“
جج مانویندر مشرا نے اپنے فیصلے میں لکھا ”ان کے آبائی گاؤں میں یہ بات کافی مشہور تھی کہ گوسائیں نالندہ میں ایک زمیندار کے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں“
سنگھ نے گوسائیں کو گھر لے جانے کے ایک سال بعد اپنی برادری کی ایک عورت سے شادی کرا دی۔ خاندان کے پاس دستیاب ایک دستاویز کے مطابق گوسائیں نے ایک مقامی کالج سے انگریزی، سیاست اور فلسفہ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی
اس دوران گوسائیں کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ سنگھ کی موت کے بعد، امرگاواں میں تقریباً ایک صدی پرانی، دو منزلہ حویلی کا نصف حصہ وراثت میں ملا
پانی کے ایک بڑے ٹینک کے آگے، آم اور امرود کے درختوں سے گھرا اور بغیر پینٹ شدہ لوہے کے گیٹ اور اینٹوں کی دیواروں سے محفوظ وہ گھر بوسیدگی کا مظہر ہے۔ اس کی چھت کے نیچے تین نسلیں پرواں چڑھیں اور سولہ کمروں والا وہ گھر کبھی زندگی سے بھرپور تھا
اب اس جگہ ایک خوفناک خاموشی ہے۔ صحن بوسیدہ ہے اور ایک کونے میں گندم کو علیحدہ کرنے والی مشین پڑی ہے
گوسائیں کے بڑے بیٹے گوتم کمار نے کہا کہ ان کے والد عام طور پر گھر پر ہی رہتے تھے اور تقریباً تیس ایکڑ کی کھیتی باڑی کا انتظام سنبھالتے تھے۔ زمین سے چاول، گندم اور دالوں کی پیداوار ہوتی تھی اور زیادہ تر کنٹریکٹ ورکرز کے ذریعے کاشت کی جاتی تھی
مسٹر کمار نے کہا کہ خاندان نے کبھی بھی اپنے والد کے ساتھ ’نقلی ہونے کے کیس‘ پر بات نہیں کی
ان کا کہنا تھا ”وہ ہمارے والد ہیں۔ اگر میرے دادا نے انہیں اپنا بیٹا مان لیا تھا تو ہم ان سے سوال کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ آپ اپنے باپ پر کیسے اعتبار نہیں کر سکتے؟“
انہوں نے مزید کہا ”اب اتنے سال کے بعد، ہماری زندگی میں اتھل پتھل ہو گئی ہے کیونکہ میرے والد کی شناخت چھین لی گئی ہے۔ ہم بہت پریشان ہو گئے ہیں“
عدالت میں گوسائیں سے جج مشرا نے پوچھا کہ وہ کہاں رہتے تھے اور چار سال کے دوران وہ کس کے ساتھ لاپتہ ہو گئے تھے؟
گوسائیں اپنے جوابات میں ٹال مٹول کرتے رہے۔ انہوں نے جج کو بتایا کہ وہ پڑوسی ریاست اتر پردیش کے شہر گورکھپور کے ایک آشرم میں ایک سادھو کے ساتھ رہتے تھے ، لیکن وہ اپنے دعوے کی حمایت کے لیے کوئی گواہ فراہم نہیں کر سکے
گوسائیں نے ججوں کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی زمیندار کا کھویا ہوا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ”سنگھ نے مجھے اپنا بیٹا تسلیم کیا اور مجھے گھر لے آئے“
انھوں نے کہا ”میں نے نقلی بیٹا بن کر کسی کو دھوکہ نہیں دیا، میں کنہیا ہوں“
ان کی واحد موجودہ تصویر ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے جو دھندلی پڑ گئی ہے اور عدالتی کاغذات کے ساتھ اسٹیپلر پنوں سے وہ مسخ ہو گئی ہے۔ اس تصویر میں کنہیا سنگھ، اپنے صاف ستھرے بالوں اور ہلکے رنگ کی قمیض میں کیمرے میں دیکھ رہے ہیں
ستم ظریفی یہ ہے کہ کنہیا، جو سولہ سال کی عمر میں لاپتہ ہوئے تھے انہیں ان کے گاؤں مرگاواں میں بھلا دیا گیا ہے۔ یہ گاؤں پٹنہ سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور تقریباً ڈیڑھ ہزار اونچی ذات کے ہندوؤں کا ایک گاؤں ہے
سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل اور سنگھ خاندان کے رشتہ دار گوپال سنگھ کنہیا کو ’ڈرپوک، شرمیلے اور ملنسار‘ لڑکے کے طور پر یاد کرتے ہیں
ان کا کہنا ہے ”ہم ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں، ہم ایک ساتھ کھیلتے تھے اور جب وہ شخص چار سال بعد ظاہر ہوا تو وہ کنہیا سے بالکل بھی مشابہت نہیں رکھتا تھا لیکن اس کے والد کا اصرار تھا کہ وہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ہے۔ تو ہم کیا کر سکتے تھے؟“
کامیشور سنگھ کی سنہ 1991ع میں موت ہو گئی۔ وہ ایک بااثر زمیندار تھے ایک اندازے کے مطابق وہ ساٹھ ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک تھے
وہ تقریباً چار دہائیوں تک ولیج کونسل کے منتخب لیڈر تھے اور سپریم کورٹ کے وکلا اور ممبر پارلیمنٹ کو اپنے قریبی رشتہ داروں میں شمار کرتے تھے
سنگھ کی دو شادیوں سے سات بیٹیاں اور ایک بیٹا (کنہیا) تھا: لڑکا سب سے چھوٹا تھا اور ہر لحاظ سے ان کا پسندیدہ اور قدرتی وارث تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیمار زمیندار کبھی بھی عدالت نہیں گئے اور گوسائیں کا دفاع کرتے رہے
کم از کم ایک درجن ججوں نے چار دہائیوں تک اس کیس کی سماعت کی۔ آخر کار ایک ٹرائل کورٹ نے رواں سال فروری میں شروع ہونے والے چوالیس دن تک بغیر کسی وقفے کے ہونے والی سماعتوں کے بعد اپریل کے شروع میں اپنا فیصلہ سنایا
جج مشرا نے گوسائیں کو مجرم قرار دیا۔ جون میں ایک اعلیٰ عدالت نے اس حکم کو برقرار رکھا اور گوسائیں کو سات سال کی ’سخت قید‘ کی سزا سنائی
عدالت میں ڈرامہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب ڈیفنس نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش کیا، جس میں دیانند گوسائیں کو مردہ قرار دیا گیا تھا لیکن سرٹیفکیٹ تضادات سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی تاریخ مئی 2014ع تھی لیکن کہا گیا کہ گوسائیں جنوری سنہ 1982ع میں ہی فوت ہو گئے تھے
پولیس افسر چترنجن کمار کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے مقامی رکارڈ چیک کیا تو انہیں گوسائیں کی موت کا کوئی رکارڈ نہیں ملا۔ مقامی حکام نے انہیں بتایا کہ یہ سرٹیفکیٹ ’ظاہری طور پر جعلی‘ تھا۔ انہوں نے کہا ’یہاں جعلی دستاویزات حاصل کرنا بہت آسان ہے‘
عدالت نے پوچھا کہ موت کے بتیس سال بعد موت کا سرٹیفکیٹ کیوں بنایا گیا اور اسے جعلسازی قرار دے کر مسترد کر دیا
جج مشرا نے کہا ”خود کو کنہیا ثابت کرنے کے لیے گوسائیں نے خود کو ہی مار ڈالا“
گوسائیں پر شک اس وقت سب سے زیادہ ہوا جب انہوں نے ڈی این اے کا نمونہ دینے سے انکار کر دیا، جسے استغاثہ نے پہلی بار سنہ 2014ع میں طلب کیا تھا۔ آٹھ سال تک وہ ٹال مٹول کرتے رہے اور پھر رواں سال فروری میں انہوں نے اپنا نمونہ دینے سے انکار کرتے ہوئے ایک تحریری بیان دیا
عدالت نے کہا ”اب کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں، ملزم جانتا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ اس کے جھوٹے دعوے کو بے نقاب کر دے گا“
جج نے مزید کہا ”شواہد فراہم کرنے کا بوجھ اب ملزم پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی شناخت ثابت کرے“
وکلا کا کہنا ہے کہ گوسائیں کی سزا پورے نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہو سکتا ہے
عدالت کا خیال تھا کہ یہ ایک وسیع سازش تھی جس میں مرگاواں کے کئی لوگ شامل تھے جنہوں نے گوسائیں کو سنگھ کے خاندان میں اس کے کھوئے ہوئے بیٹے کے طور پر ’داخل‘ کرنے میں مدد کی تھی
جج کو شبہ تھا کہ انہی لوگوں نے سنگھ کی ملکیت والی زمین خریدی ہوگی، جسے بعد میں گوسائیں نے اس کے فطری وارث ہونے کے طور پر بیچ دیا۔ دونوں دعووں کی تحقیقات ہونا باقی ہیں
1995ع میں مرنے والی رام سکھی دیوی نے عدالت کو بتایا تھا کہ ’میرے شوہر کی خراب صحت اور بینائی کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہمارے خاندان کے خلاف ہماری جائیداد پر قبضہ کرنے کی ایک بہت بڑی سازش رچی گئی تھی“