گزشتہ روز سندھ کے صحرائے تھر کے رنگیلو گاؤں کے ساتھ جنگل میں سات ہرنوں کو قبریں کھود کر باقاعدہ ان کی تدفین کی اور آخر میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیےدعا مانگی گئی
سات ہرنوں کی تدفین بلکل اسی جگہ پر کی گئی ،جہاں منگل کی شب شکاریوں نے ان ہرنوں کا شکار کیا تھا
علاقہ مکینوں نے شکار کرنے والوں کا تعاقب کیا اور تین شکاریوں کو پکڑ لیا جبکہ ان میں سے دو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے
حنیف سومرو نامی مقامی رہائشی نے بتایا ”گذشتہ تین چار سال سے شکار کے مسلسل واقعات ہو رہے ہیں اور ظالم شکاری ہرن کا شکار کرتے ہیں۔۔ مقامی لوگوں نے تین چار مرتبہ ان کا پیچھا بھی کیا لیکن وہ بھاگ جاتے ہیں۔ جنگلی حیات کے مقامی حکام کو شکایت کی تو وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس گاڑی اور لوگ نہیں۔ وہ یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ یہاں شکار ہو رہا ہے“
حنیف سومرو کا کہنا تھا ”رنگلیو گاؤں اور آس پاس کے گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے۔ جنگل میں کوئی مشکوک سرگرمی یا رات کو گاڑی کی کوئی روشنی نظر آئی یا فائر ہوا تو ایک دوسرے کو فوری آگاہ کیا جائے گا“
پھر رواں ہفتے کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کے بعد اس گاؤں کے باسی مل کر رات کے اندھیرے میں شکاریوں کی تلاش میں باہر نکل پڑے
گاؤں لوبھار کے رہائشی سروپ سنگھ بتاتے ہیں ”پیر کو رات کا کھانا کھا کر وہ سو گئے، تقریباً رات دو بجے کے قریب جنگل سے فائرنگ کی آواز سنی تو وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں رنگیلو پہنچے۔ اس دوران دوسرے گاؤں کے لوگ بھی آ گئے اور انہوں نے شکاریوں کا پیچھا کیا“
اکیس سالہ اتم سنگھ بھی گھر میں سو رہے تھے، جب ان کے کزن سروپ سنگھ نے انہیں اٹھایا اور بتایا کہ جنگل سے فائرنگ کی آواز آئی ہے، یقیناً شکاری ہوں گے اور انہیں گاڑی لے کر رنگیلو گاؤں پہنچنے کی ہدایت کی
اتم سنگھ نے بتایا ”سروپ سنگھ نے کہا تم رنگیلو گاؤں جاؤ ہم پیچھے آ رہے ہیں“
اتم سنگھ کہتے ہیں ”ہم سڑک پر جا کر رک گئے، گاؤں والوں نے تعاقب کیا تو یہ شکاری پکی سڑک پر آ گئے جہاں وہ کھڑے تھے۔ ایک گاڑی نے بریک نہیں لگائی آگے چلی گئی، میں نے دوسری گاڑی کو سامنے سے ٹکر ماری تو انہوں نے فائرنگ کی، اسی دوران دیگر لوگ بھی پہنچ گئے اور انہیں رسے سے باندھ دیا“
رنگیلو، لوبھار اور دیگر گاؤں کے لوگ حراست میں لیے گئے ان تینوں شکاریوں اور شکار کیے گئے سات ہرنوں سمیت جلوس کی صورت میں تھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی پہنچے، جہاں انہوں نے دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے
یہ دھرنا پانچ گھنٹے جاری رہا، جس میں عام شہری بھی شامل ہو گئے
بدھ کی صبح مٹھی کے مرکزی چوک پر ایک تعزیتی کیمپ بھی لگایا گیا، جہاں شہر کے لوگوں نے آ کر یکجہتی کا اظہار کیا اور جانوروں کے تحفظ کے لیے دعائیں بھی کی گئیں
سماجی ورکر اکبر درس کا کہنا تھا ”وہ فطرت کے قتل کی تعزیت وصول کر رہے ہیں، یہاں معصوم ہرنوں کا قتل کیا گیا ہے“
وہ بتاتے ہیں ”جب تھر میں بارش ہوتی ہے تو یہ ہرن، مور، تیتر و دیگر چرند پرند خوش ہوتے ہیں۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ان کو ہم دفن کر رہے ہیں یہاں ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو وائلڈ لائف کا قانون ہے اس میں ترمیم کی جائے اور ان شکاریوں پر بھاری جرمانہ عائد کرکے سخت سزا دی جائے“
سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں کثیر تعداد میں ہرن اور مور پائے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ بالخصوص ٹھاکر کمیونٹی ان کا تحفظ اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہے
نوجوان اتم سنگھ کے مطابق ’والدین کی ہدایت ہے کہ ہرن کا تحفط کرو یہ ہمارے علاقے کے باسی ہیں۔‘
رنگیلو میں جب ہرنوں کی تدفین ہو رہی تھی تو اس وقت بارش جاری تھی۔ بارش اس صحرا میں خوشی اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن ان لمحوں میں لوگ اداس اور غمزدہ تھے
یہاں ہندو مسلم ایک دوسرے کی خوشی غمی میں تو جاتے ہی ہیں، لیکن یہاں وہ ان کے لیے آئے تھے جو دونوں کا مشترکہ ورثہ ہیں
تھر کے مصنف اور محقیق بھارومل امرانی کے مطابق صحرائے تھر پر گذشتہ دو دہایوں سے بڑھتے ہوئے موسمی تبدیلی کے اثرات اور انسانی وجوہات کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات اور ماحولیات خطرے میں ہیں
وہ کہتے ہیں ”ایک طرف قحط کی وجہ بھوک اور پیاس ہے دوسری طرف غیر قانونی شکار کی مشق نے جنگلی جانور خاص طور پر چنکارا کی نسل خطرے میں ہے“
اب تھر میں کنڈی، کونبھٹ کے ساتھ پیلو، تھوہر، باؤری، گگرال کے درخت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان درختوں کے جنگلات چنکارا کی رہائش ہوا کرتے تھے اور ان درختوں کے نیچے گھاس چنکارا کی خوراک تھی
صحرائی لوگوں کے پاس روایت ہے کہ صحرا میں چنکارا بارش کا پانی پیتا ہے اور جہاں قدرتی تالاب واقع ہیں وہ وہاں ضرور آتے ہیں اور شکار ہو جاتے ہیں
خیال رہے کہ جس جنگل میں ہرنوں کا شکار کیا گیا اس کو تحفظ حاصل ہے۔ تھر پولیس نے تین ملزمان کو غیر قانونی شکار اور بغیر لائسنس بندوق رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، جن کا بدھ کو ریمانڈ لیا گیا
ادھر محکمہ جنگلی حیات کے تین ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے
پاکستان کے جنگلات میں اس وقت کل 585 چنکارا ہرن موجود ہیں، اس کا انکشاف پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے میں کیا گیا تھا
اس سروے میں بتایا گیا تھا کہ منگلوٹ (خیبر پختونخوا)، کالاباغ، صحرائے چولستان (پنجاب) سے لے کر کھیرتھر کی پہاڑیوں (سندھ) کے علاقوں میں چنکارا ہرن دیکھے گئے ہیں۔ سروے کے مطابق سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ (بلوچستان) میں بھی چنکارا ہرن پائے گئے ہیں
ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم خان کے مطابق ’چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے‘