عدالتی تاریخ کے ”تاریخ پر تاریخ“ کے بعد اینکر عمران ریاض کے حوالے سے ملک میں اس وقت ”عدالت پر عدالت“ کا معاملہ چل رہا ہے
اینکر عمران ریاض خان کے وکیل عبدالقدیر جنجوعہ کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو کل (جمعہ) چکوال کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کے بعد راہدری ریمانڈ پر لاہور لے جایا جائے گا، جہاں ان کے خلاف ریاست کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہے، جس کی تفتیش کے سلسلے میں وہ مطلوب ہیں
ان کا مزید کہنا تھا ”لاہور کے سیشن جج نے اس حوالے سے ایک مراسلہ چکوال کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھی لکھا تھا“
اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ عمران ریاض کو تھانہ سول لائن کے انویسٹیگیشن آفیسر کو لاہور منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کے خلاف تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکے
واضح رہے کہ عمران ریاض خان چکوال کے علاقے ڈڈھیال تھانے میں ہیں، اور انہیں آج عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا جا سکا
عدالتی سماعت کے دوران عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف اٹھارہ سے زائد مقدمات درج ہیں اور قانون کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے مگر چھبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود عمران ریاض کو چکوال عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عمران ریاض کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کرے
ان کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کو پیش نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ راولپندی کی عدالت پہلے ہی پیکا آرڈینس کے تحت دفعات کو ایف آئی آر سے خارج کر چکی ہے جس کے بعد دوبارہ عمران ریاض کو اٹک کی عدالت میں پیش کیا گیا
انہوں نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ عمران ریاض کے کیس کو انسانی بنیادوں پر عدالت دیکھے کیونکہ عمران ریاض نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لائیو رپورٹنگ کی اور کالعدم تنظیموں سے عمران ریاض کو خطرہ ہے
اس پر سول جج نے مقامی تھانہ سے ریکارڈ طلب کرنے سمیت عمران ریاض کو پیش نہ کیے جانے سے متعلق تفصیلات طلب کرنے کا حکم دیا
سماعت کے دوران متعلقہ تفتیشی افسران نے عدالت کو آگاہ کیا کہ قانون کے مطابق چکوال پولیس ابھی عمران ریاض کو مزید اپنی حراست میں رکھ سکتی ہے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض کو کل (جمعہ) عدالت میں پیش کیا جائے گا
اس موقع پر سول جج یاسر بلال نے متعلقہ حکام کو عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کے احکامات جاری کیے
اٹک سے رہائی چکوال میں گرفتاری
اس سے قبل اینکر پرسن عمران ریاض خان اٹک کی مقامی عدالت سے رہائی پاتے ہی ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیے گئے تھے۔جمرات کی صبح اٹک کی مقامی عدالت نے اینکر عمران ریاض خان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر عمران ریاض کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں، تو انہیں رہا کیا جاتا ہے
تاہم عمران ریاض خان کے خلاف ضلع چکوال میں بھی ایک مقدمہ درج ہے جس کی بنا پر چکوال پولیس نے انھیں اٹک کی مقامی عدالت سے رہائی ملنے کے فوراً بعد ہی گرفتار کر لیا اور اپنے ساتھ چکوال لے گئی تھی
اینکر عمران ریاض خان کے خلاف اٹک کے سٹی تھانہ میں یوٹیوب چینل کے پروگرام کے ذریعے پاکستان کی فوج پر الزامات عائد کرنے اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم کے پیکا ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا
یاد رہے کہ گذشتہ روز راولپنڈی میں ایف آئی اے عدالت کے سپیشل مجسٹریٹ نے اینکر عمران ریاض خان کے خلاف ضلع اٹک میں درج ایف آئی آر سے پیکا ایکٹ کے تحت درج دفعات ختم کرنے کے احکامات صادر کرتے ہوئے انھیں اٹک سول جج کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا
واضح رہے کہ بدھ کی صبح اینکر عمران ریاض خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور اٹک کی مقامی عدالتوں کے روبرو پیش کیا گیا تھا تاہم دونوں عدالتوں کے ججوں نے اس کیس کو اپنے اپنے ’دائرہ اختیار سے باہر‘ قرار دیا تھا
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اینکر کے وکلا کو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے جبکہ اٹک کی عدالت نے انھیں راولپنڈی ایف آئی اے کی عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے
اٹک کی عدالت سے احکامات موصول ہونے کے بعد اینکر عمران خان کو راولپنڈی میں ایف آئی اے عدالت کے سپیشل مجسٹریٹ پرویز خان کے سامنے بدھ کی شام پیش کیا گیا
مختصر سماعت کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سُنا دیا گیا۔ فیصلے کے مطابق عمران ریاض خان کے خلاف پیکا کی تمام دفعات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں دیگر فوجداری دفعات پر ضمانت کے لیے اٹک سول جج کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا
راولپنڈی ایف آئی اے کی عدالت نے پولیس کو انھیں بدھ کی رات 12 بجے سے قبل اٹک کی عدالت میں دوبارہ پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے
اس موقع پر اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان کا کہنا تھا کہ یہ کیس ان کے ’دائرہ اختیار‘ میں نہیں اسی لیے ملزم کو اٹک عدالت میں پیش کیا جائے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر ملزم کو ان کے سامنے پیش ہی نہیں کیا جا سکتا تو وہ کیس کیسے سنیں؟
اس موقع پر عمران ریاض خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اٹک کی عدالت نے یہاں بھیجا کہ یہ معاملہ ایف آئی اے کی عدالت کا دائرہ اختیار میں ہے
وکیل کا عدالت کے روبرو مزید کہنا تھا کہ ‘کیا کوئی ہے جو اس کیس کو آگے لے کر جانا چاہتا ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ عمران ریاض خان پر دائر اس مقدمے کو خارج کیا جائے۔’
اٹک کی عدالت میں دورانِ سماعت کیا ہوا تھا؟
گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعد ضلع اٹک کی ایک مقامی عدالت نے بھی اینکر عمران ریاض خان کیس کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے انھیں ایف آئی اے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سول مجسٹریٹ اٹک نے کیس پر مختصر کارروائی کے بعد فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیس ان کی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں، جس کے بعد متعلقہ حکام کی جانب سے عمران ریاض کا کیس ایف آئی اے کورٹ میں بھیج دیا گیا
انھی احکامات کی روشنی میں بدھ کی شام عمران ریاض کو راولپنڈی ایف آئی اے عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزم کے وکیل عامر حسنین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اٹک عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے چنانچہ یہ ان کے دائرہ سماعت میں نہیں آتا
وکیل عامر حسنین کے مطابق بدھ کے روز ضلع چکوال کی پولیس بھی عمران ریاض کو گرفتار کرنے اٹک آئی تھی جس کا مطلب ہے کہ اُن کے موکل کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے
یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض کو منگل کی شب ضلع اٹک کی پولیس نے گرفتار کیا تھا جس فوراً بعد ان کے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے متعلقہ حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی استدعا کی تھی۔ وکلا کا موقف تھا کہ عمران ریاض نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی تھی تاہم اس کے باوجود انھیں اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کر لیا گیا
توہین عدالت کی اس درخواست پر سماعت بدھ کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کی۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس درخواست کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ چونکہ عمران ریاض کی گرفتاری صوبہ پنجاب کی حدود میں ہوئی ہے لہذا لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے
مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے اور لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کا احوال
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ رات کو رپورٹ آئی تھی کہ عمران ریاض کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے، جس پر عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ’عمران ریاض نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہیں۔ لہٰذا ان کی گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی۔‘
سماعت کے دوران اینکر و صحافی عمران خان ریاض کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے واضح احکامات دیے تھے، جن کی خلاف ورزی ہوئی ہے
عدالت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی بلکہ پنجاب پولیس نے انھیں گرفتار کیا
جس پر اینکر عمران ریاض خان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اسلام آباد پولیس کہہ رہی ہے گرفتاری پنجاب سے ہوئی، ہم کہہ رہے ہیں اسلام آباد سے ہوئی ہے
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے
صحافی و اینکر عمران ریاض خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی ہے
انہوں نے عدالت میں کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا اور وہ چھپائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے سترہ مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی تھی‘
واضح رہے کہ وزیرِ قانون پنجاب ملک احمد خان نے عمران ریاض کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں پنجاب میں درج متعدد مقدمات کی بنیاد پر پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا
یاد رہے کہ عمران ریاض خان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی
عمران ریاض خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے تو انہوں نے اٹک میں درج مقدمات کا ذکر کیا تھا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’اٹک اس عدالت (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے دائرہ سماعت میں نہیں اس لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔‘
نامہ نگار کے مطابق منگل کی شب عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد بھی ان کے وکلا کی جانب سے رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا اور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے
’کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں‘
عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘
اس وڈیو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’(چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) اطہر من اللہ نے مجھے ضمانت دے رکھی ہے اور ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار کرنا غلط ہے۔ کل صبح مجھے اُن ہی کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت میں توسیع حاصل کرنی تھی۔‘
عمران ریاض کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔‘