ہمارے ہاں اہل صحافت اور سیاسی کارکنان اکثر ’قانون کے تحت‘ آزادیِ رائے کا حق مانگتے پائے جاتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جس روز انہیں قانون کے مطابق آزادیِ رائے دی گئی، اس دن آزادی صحافت اور حزب اختلاف دونوں جیل میں چکی پیس رہے ہوں گے
آزادیِ رائے کو آپ آئین اور قانون کے تناظر میں دیکھ لیں یا زمینی حقائق کی روشنی میں، ہر دو صورتوں میں یہ ایک بہترین غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں
آزادیِ رائے کا آسان ترین شکار حکومت ہوتی ہے۔ جو شریف آدمی کسی پر تنقید نہیں کر سکتا وہ بھی حکومت کو دو چار ابلاغی گھونسے رسید کر کے ’رستم زباں‘ بن جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کے قانون کے تحت حکومت پر تنقید کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو، کہ اگر آپ اپنی تحریر یا تقریر سے حکومت کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا حکومت کی ’توہین‘ کے مرتکب ہوتے ہیں تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت آپ کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے
’قانون‘ کے تحت آزادیِ رائے مانگنے والے احباب اب کیا فرماتے ہیں؟ کیا واقعی انہیں اس ’قانون‘ کے مطابق آزادی رائے درکار ہے، جو توہین حکومت پر عمر قید کی سزا دیتا ہے؟
دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ ایک ریاست بنتی ہے، وہ اپنا ایک آئین بناتی ہے اور پھر اس آئین کی روشنی میں قانون بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ آئین تو 1973ع کا ہے، جو آزادیِ رائے کا حق دیتا ہے، لیکن فوجداری کا قانون وہ ہے جو بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے تین سال بعد 6 اکتوبر 1860ع کو رعایا کے لیے یہ سوچ کر بنایا گیا کہ آئندہ یہ رعایا 1857 جیسی ’بغاوت‘ نہ کر سکے
ہم نے نیم خواندہ معاشرے کو انگریزی میں ایک آئین بنا کر دے دیا اور اسے کبھی نصاب میں شامل نہ کیا کہ کہیں یہ اسے پڑھ نہ لے لیکن قانون ہم نے وہی رکھا جو شہریوں کے لیے نہیں، رعایا کے لیے تھا۔ چنانچہ حکومت کی توہین پر عمر قید کا جو قانون 1870ع میں لایا گیا، وہ آج تک ہمارا قانون ہے اور اس کے تحت مقدمات بھی قائم ہوتے رہتے ہیں!
ہماری پولیس کا سارا ڈھانچہ 1861ع کا ہے اور ہمارا فوجداری قانون یعنی تعزیرات پاکستان 1860ع کا ہے۔ یہ قانون شہریوں کے لیے نہیں، رعایا کے لیے تھا۔ آزادیِ رائے شہریوں کو دی جاتی ہے، رعایا کو نہیں۔ ہم آزاد تو ہو گئے لیکن قانون وہی رعایا والا ہے
ہماری پارلیمان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ دیکھ سکے کہ کون کون سا قانون آئین سے متصادم ہے۔ اصلاح تو دور کی بات ہے، اہلِ سیاست اسی قانون کے زور پر سیاست کرتے ہیں۔ یہی ’تھانہ کچہری کی سیاست‘ ہے
حریت فکر اور آزادیِ رائے کا پرچم بعض نومولود رستم تھامے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف انہیں قانون کے مطابق آزادیِ رائے کا حق حاصل ہے۔ انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ جناب امجد علی خان صاحب نے ایک پرائیویٹ بل (کرمنل لا امنڈمنٹ بل) کے ذریعے اس قماش کی آزادی رائے کے لیے دو سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی تھی، جو پارلیمان نے قبول کر لی اور اب یہ قانون ہے
سوال یہ ہے کہ اگر یہ قانون ہے تو ’آزادیِ رائے‘ اس کے اطلاق پر بدمزہ کیوں ہو رہی ہے؟ کیا ان سب پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 500 اے کا اطلاق کیا جائے تاکہ ان سب کو ان کے اپنے ہی بنائے گئے قانون کے مطابق آزادیِ رائے سمجھائی جا سکے؟
آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 جہاں آزادیِ رائے کا حق دیتا ہے، وہیں وہ کچھ پابندیوں کی بھی بات کرتا ہے، جن میں سے ایک پابندی یہ بھی ہے کہ آزادیِ رائے کی ایسی شکل ناقابلِ قبول ہے، جو دیگر ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات کی روح کے منافی ہو
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ان ریاستوں کے بارے میں جو جو کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے اگر اس پر آرٹیکل 19 کا نفاذ ہو جائے تو کیسا رہے گا؟ سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کی دفعہ 11 کے بارے میں کیا خیال ہے؟ قانون کے نفاذ سے کہیں آزادیِ رائے تو مجروح نہیں ہو جائے گی؟
آرٹیکل 19 میں آزادیِ رائے پر جو باقی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہی آرٹیکل آزادیِ رائے کو تحفظ دیتا ہے۔ فرض کریں یہی آرٹیکل مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے تو ’آزادیِ صحافت‘ کے پلے کیا رہ جائے گا؟
یہاں مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو اہلِ سیاست اور اہل صحافت ایسے مضامین کھینچتے ہیں کہ الامان۔۔۔ ان مضامین سے اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ اگر توہینِ عدالت کا قانون بروئے کار آ جائے تو آزادیِ رائے کو کتنا افاقہ ہوگا؟ آزادیِ رائے نے تو آج تک یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ توہین عدالت کے قانون میں کچھ با معنی اصلاحات ہی کر دی جائیں۔ جج ہی سمجھتا ہے کہ توہین ہوئی، وہی طلب کر لیتا ہے اور وہی فیصلہ سناتا ہے تو No one should be judge in his own cause والا اصول کہاں گیا؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے الگ سے ایک جیوری ہو؟
یہ معاشرہ اس وقت سب سے زیادہ اس ’آزادیِ صحافت‘ سے پناہ مانگتا ہے، جو ہر گلی محلے میں جھولا جھول رہی ہوتی ہے اور جسے ہیڈ آفس سے کوئی معاوضہ کم ہی ملتا ہے۔ اس نے روز اپنا کنواں خود کھود کر پیاس بجھانی ہوتی ہے۔ کچھ کچھ آزادیِ صحافت وہ بھی ہے جس کا ہیڈ آفس ہی گلی کی نکڑ پر ہوتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ ہو گیا تو کیا منظر ہو گا؟
پیمرا ریگولیشنز 2012 کے باب پنجم میں سیکشن 18 میں ٹاک شوز کے کچھ معیارات دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی روز پیمرا نے سچ مچ قانون کے مطابق ان معیارات کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہا تو ہمارے ٹاک شوز کا مستقبل کیا ہوگا، جہاں معیار ہی ریٹنگ بن چکا ہے اور مہمانوں کو آپس میں لڑا کر میزبان سرخرو ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ کسی دن پیمرا نے ’پیمرا کانٹینٹ ریگولیشنز 2012‘ کو ان کی روح کے مطابق نافذ کر دیا تو آزادیِ رائے کس دیوار سے سر پھوڑے گی؟
اقوال زریں سنانا مقصود ہے تو الگ بات ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ رائے جیسے دی گئی ہے اور جیسے استعمال کی جا رہی ہے، ہر دو صورتوں میں یہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو