ذہن اور معدے کا رشتہ

ڈاکٹر مومنہ نور اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

ایک صحت مندانہ زندگی سب سے نایاب تحفہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ زندگی انسان کو ایک بار ملتی ہے۔ لیکن جس طرح ایک صحت مند زندگی ایک بڑی نعمت ہے اسی طرح ایک علیل زندگی ایک زحمت بھی ہے۔ لہذٰا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے جسم کو صحت مند رکھیں۔ جدید تحقیق کے مطابق: ”صحت مند ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان، جسمانی، ذہنی اور سماجی لحاظ سے بہترین حالت میں ہو“ چار سو سال قبل مسیح تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیماریاں آسمان سے اترتی ہیں اور یہ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں

بقراط پہلا یونانی طبیب تھا جس نے یہ کہا کہ بیماریاں دیوتاؤں کی طرف سے نہیں آتیں بلکہ انسانوں کی غیر ذمہ دارنہ طرز زندگی، لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ کہ اچھی نیند، متوازن خوراک اور تواتر کے ساتھ ہلکی پھلکی ورزش سے کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بعد میں آنے والی صدیوں نے دیکھا کہ انسانی بیماریوں کو سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بیماریوں کی تمام ذمہ داری مریضوں پر عائد نہیں ہوتی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو ماحولیات یا حادثات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ زمانہ موجود میں میڈیکل سائنس نے نہ صرف بہت سی بیماریوں پر نہ صرف قابو پا لیا ہے بلکہ احتیاطی تدابیر کے استعمال سے متعدد بیماریوں سے بچ رہنا ممکن ہو گیا ہے

انسانی جسم میں ’معدہ‘ ایک اہم عضو ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق معدے کے بیمار پڑنے سے دو سو کے قریب مزید بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ معدہ ہماری خوراک کو توڑ کر اس کو خون میں جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو خوراک منہ سے ایک نالی کے ذریعے معدے میں داخل ہوتی ہے۔ اس نالی کو ایسو فیگس esophagus کہا جاتا ہے۔ جب خوراک معدے میں آتی ہے تو معدہ اپنے اندر انزائم اور تیزاب پیدا کرتا ہے۔ انزائم کیمیائی عمل کرتے ہیں اور تیزاب ہضم کرنے والے جوس کا اہم جزوہیں۔ ان دونوں کا مرکب خوراک کو توڑ ڈالتا ہے تاکہ خوراک بڑی اور چھوٹی آنت میں جا سکے۔ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے معدے کا ہر وقت صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس میں کوئی بیماری پیدا ہو جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ کیا معدے کی بیماری کا تعلق انسانی دماغ سے بھی ہے؟ معدے میں کیا بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ آج ہم اس پر بات کریں گے

گیسٹرو ایسوفیجیل ریفلکس ڈیزیز Gastro esophageal reflux disease ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس میں معدے میں پایا جانے والا تیزاب معدے کی حدود سے نکل کر کھانے کی نالی یعنی ایسوفیگس میں چلا جاتا ہے۔ اس سے مریض کو چھاتی میں جلن محسوس ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض کی زندگی کا معیار خراب کر دیتی ہے۔ اگر کسی مریض کو طویل عرصے سے گیسٹرو ایسوفیجیل ریفلکس ڈیزیز کی شکایات ہوتو اس کی کھانے کی نالی میں زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس سے ایک اور سخت بیماری وجود میں آتی ہے۔ جس کا نام ریفلکس ایسوفجائٹس Reflux esophagitis ہے

ان کے علاوہ پیپٹک السر ڈیزیزPeptic ulcer disease، ایک ایسی بیماری ہے جس میں پیٹ اور اس سے اگلا حصہ یعنی ڈیوڈینم Duodenum میں کسی وجہ سے زخم بن جائیں۔ ان زخموں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک اہم وجہ ہیلیکو بیکٹر پائی لوری Helicobacter pylori نامی جراثیم ہے۔ اس کہ علاوہ درد کش ادویات اور سگریٹ نوشی بھی اس کا باعث بن سکتی ہیں۔ ان وجوہات کے علاوہ کوئی بھی بڑی بیماری، یا کوئی ایسا حادثہ جس کے باعث دماغ پر چوٹ آئے، یا پھر جسم کا کوئی بڑا حصہ جل جائے، ان سب کی وجہ سے بھی پیٹ میں زخم بن سکتے ہیں۔ چونکہ ایسے اوقات میں جسم میں موجودہ خون معدے سے نکل کر جسم کے زیادہ اہم حصوں کا رخ کر لیتا ہے۔ معدے میں خون کی کمی سے یہ زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ہسپتال میں ایسے مریض جو کہ کسی بیماری کا شکار ہوں ان کو معدے کے زخم سے بچاؤ کے لئے پہلے ہی ایسی ادویات فراہم کی جاتی ہیں جو معدے کی حفاظت کریں۔ ان ادویات کو پروٹون پمپ ان ہیبیٹرز proton pump inhibitors کہتے ہیں۔ یہ معدے میں تیزاب کو کم کرتی ہیں

◼️معدے کے زخم کیسے پیدا ہوتے ہیں؟

یہ سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ عام حالات میں معدہ اپنی حفاظت کیسے کرتا ہے۔ معدے میں ہر وقت تیزاب ہوتا ہے جو کہ ہاضمے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن عقل یہ کہتی ہے کہ تیزاب تو نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہی سوال سائنس کی دنیا کے کئی قارئین نے بھی اٹھایا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنا تیز تیزاب معدے کے اندر ہو اور وہ معدے کو نقصان نہ پہنچائے۔ ہمارے اندر اس تیزاب سے بچاؤ کے لئے کچھ حفاظتی نظام ہیں۔ مثلاً:

(1) معدے کے اندرونی استر میں ایک بلغم کی جھلی ہے جو کہ تیزاب کو دیوار سے لگنے سے بچاتی ہے۔ اس بلغم میں بائیکاربونیٹ نامی ایک کیمیکل ہوتا ہے، جس کی پیدائش سے وہ تیزاب جو دیوار کے ساتھ لگ بھی جائے اس کا اثر کم کر دیتا ہے

(2) معدے میں خون کی فراہمی کا نظام بھی ایسا بنا ہوا ہے کہ وہ زخموں کو بننے سے روکتا ہے۔ خون معدے کو ایسے عناصر فراہم کرتا ہے جس میں خود حفاظتی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اور اس کے علاوہ خون ان نقصان دہ عناصر کو معدے کی دیواروں سے دور لے جاتا ہے

(3) معدے کی دیواروں کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ یہ باقی جسم کے حصوں کی دیواروں سے زیادہ مضبوط بنی ہوئی ہیں۔ ان دیواروں کے سیلز (خلیے) آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں جس سے تیزاب دیوار کے باہر والے حصے تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کا معدے کی حدود سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اگر زخم بن بھی جائے تو وہ جلد از جلد بھر جاتا ہے۔ جس سے زیادہ نقصان سے بچت ہو جاتی ہے۔ اگر ان حفاظتی اقدامات میں کوئی مسئلہ بن جائے تو معدے میں زخم بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

ذہنی پریشانی بھی معدے کے زخم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ سے بھی ملتا ہے۔ جب بھی کوئی اس قسم کا حادثہ ہوا ہو جو عوام میں بے چینی کا سبب بنے۔ اس کے بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ معدے میں زخم کی شکایات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جب بھی کوئی جنگ پیش آئی ہو، یا کوئی سیلاب، یا زلزلہ، یا ملک کی معیشت میں کوئی زوال آیا ہو۔ ان سب حالات میں معدے کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ ہماری انٹرنل میڈیسن کی ریذیڈنسی کے دنوں میں آئی سی یو کے اٹینڈنگ ڈاکٹر گریر نے بتایا کہ ٹریننگ کے دوران ایک ریذیڈنٹ ڈاکٹر کو معدے میں شدید السر ہو گئے جن سے خون بہنے لگا تھا۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ شدید ذہنی دباؤ کی صورت میں طب کے پیشے سے متعلق افراد بروقت مدد حاصل کریں۔ جن افراد کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو وہ دوسروں کا بھی اچھی طرح سے علاج نہیں کرسکیں گے

انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی کچھ اس قسم کی علامات طبی سائنسدانوں کو ملی ہیں۔ جانوروں پر جو تحقیقی تجربے کیے گئے۔ ان سب میں یہ دیکھا گیا کہ اضطراب کی صورت میں جانوروں کے معدے میں زخم بن گئے۔ مثال کی طور پر، اگر چوہوں کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ان کی ماں سے علیحدہ کر دیا جائے تو دیکھا گیا کہ ان چوہوں میں معدے کے زخم بن جاتے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق کسی قسم کا ذہنی تناؤ بھی ان بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1۔ دماغ اور معدے کا آپس میں لین دین کا ایک سلسلہ ہے جس کو گٹ برین ایکسز (gut brain axis) کا نام دیا گیا ہے۔ دماغی بوجھ سے معدے پر برا اثر پڑتا ہے۔ اور معدے کی بیماریاں دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ذہنی بوجھ سے پیٹ میں پائے جانے والے تیزاب کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جس سے زخم بن سکتے ہیں

2۔ ذہنی پریشانی کے دوران کارٹیسول جو کہ ایک ہارمون ہے، اس کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ کارٹیسول زیادہ ہونے کے ناتے پیٹ میں تیزابیت بھی زیادہ ہو جاتی ہے

3۔ ‏دماغی بوجھ یا تناؤ کی صورت میں سگریٹ نوشی یا کسی اور نشے میں مبتلا ہونے کا احتمال زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بھی پیپٹک السر ڈیزیز ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے

4۔ پریشانی کی صورت میں انسان کا ایسی ادویات لینے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے جس سے پیٹ میں زخم بن جائیں۔ اس کے علاوہ پریشانی میں اگر نیند بھی کم لی جائے تو کارٹیسول کی مقدار بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اور جیسا کہ ہم بات کر چکے ہیں، ایسا جب بھی ہو تو زخم بن سکتا ہے۔ ان سب وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذہنی پریشانی کا اثر صرف دماغ تک نہیں رہتا بلکہ باقی جسم کو بھی اثر کرتا ہے خاص طور پر معدے جیسے اہم عضو کو۔ ان بیماریوں سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زندگی سے ذہنی تناؤ بھی کم کیا جائے۔ اس کے درج ذیل کچھ طریقے ہیں:

1۔ اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے معدے اور آنتوں کی صحت پر مثبت اثر مرتب ہوتا ہے

2۔ ورزش کی عادت کو برقرار رکھیں۔ ہفتے میں کم از کم تین دن ورزش کرنا ضروری ہے۔ ایک ہفتے میں کم از کم ڈیڑھ سو منٹ کی درمیانہ شدت کی ورزش نہایت ضروری ہے

3۔ ریلیکسیشن ایکسر سائز ( ذہنی سکون دینے والی ورزشیں ) کرنا۔ ان کے طریقے ویڈیوز انٹرنیٹ پر یوٹیوب پر موجو ہیں۔ یوگا اس کی ایک عمدہ مثال ہے

4۔ سگرٹ نوشی اور باقی نشے سے پرہیز کرنا

5۔ اپنی نیند کا خاص خیال رکھنا

6۔ ایسے کام میں حصہ لینا، جس سے خوشی ملے۔ یہ کام ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ آپ کو جس سے خوشی ملے اس کے بارے میں سوچیں۔ اور کوشش کریں کہ روز مرہ کی زندگی میں اس کو شامل کریں

7۔ سگریٹ نوشی اور باقی نشے سے پرہیز کریں۔ اور اگر ضرورت پیش آئے تو مینٹل ہیلتھ اسپیشلسٹ کے پاس بھی جایا جا سکتا ہے جیسا کہ سائکیٹرسٹ یا سائکولوجسٹ

یاد رکھیں زندگی اور صحت سب سے بڑی نعمتیں ہیں اور اپنے اجسام اور اعصاب کو صحت مند رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close