کھڑکی کے نیچے انہیں گزرتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر یکایک کھڑکی زور سے بند کی۔ مڑ کر پنکھے کا بٹن آن کیا۔ پھر پنکھے کا بٹن آف کیا۔ میز کے پاس کرسی پہ ٹک کر دھیمے سے بولا، ’’آج تو کل سے بھی زیادہ ہیں۔ روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘‘
سرفراز نے ہتھیلیوں پر سے سر اٹھایا اور انوار کو دیکھا ’’تم نے تو دو ہی دن دیکھا ہے نا۔ میں بہت دن سے دیکھ رہا ہوں۔ کھڑکی بند رکھوں تو گھٹن ہوتی ہے، کھول دوں تو دل اور زیادہ گھبراتا ہے۔ لگتا ہے جیسے سب ادھر ہی آ رہے ہوں۔‘‘ سرفراز چپ ہوگیا۔ پھر ایک لمحے کے بعد بولا، ’’آج تم سے اتنے برسوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی تو دل کتنا خوش تھا کہ پھر یہ لوگ۔۔۔‘‘
’’میں نے تمہیں سفر کا واقعہ بھی تو بتا دیا تھا۔ میں بھی صرف دو ہی دن سے تھوڑے ہی دیکھ رہا ہوں۔ ادھر گاؤں میں بھی آج کل یہی عالم ہے۔ کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کیا ہوگا‘‘
سرفراز نے چاہت بھری نظروں سے اپنے بچپن کے ساتھی انوار کو دیکھا، جس سے آج پندرہ سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں کی بہت ساری یادیں ایک سی تھیں۔۔۔ جب وہ بہت چھوٹا سا تھا تبھی اپنے خالو کے گھر پڑھنے بھیج دیا گیا تھا۔ خالو کا گھر ایک بڑے دیہات میں تھا، جہاں سے دو میل کے فاصلے پر بسے قصبے میں انٹر کالج تھا۔ وہیں پہلے ہی دن ایک ہم عمر لڑکے نے بہت بے تکلفی کے ساتھ اس کی ربڑ لے کر اپنی آرٹ کی کاپی پر غبارے نما پھول مٹا کر ایک لیمپ نما بطخ بنا کر اس کی ربڑ واپس کر دی تھی۔ حاضری کے وقت اس کا نام پکارا گیا تھا۔
’’سید انوار علی!‘‘
’’حاضر جناب۔۔۔‘‘ سرفرازدھیرے سے بولا
’’سید انوارعلی!‘‘
’’حاضر جناب۔‘‘
’’تمہیں اسکول یاد آ رہا ہوگا‘‘
’’ہاں۔ تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’یار تم اب بھی پہلے کی طرح گھامڑ باتیں کرتے ہو۔ میرا پورا نام حاضری کے وقت ڈرائنگ ماساب کے علاوہ اور کون پکارتا تھا‘‘
سرفراز یہ سن کر مسکرایا، حالاں کہ گھامڑ والا جملہ اسے برا لگا تھا، لیکن وہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ آج میں افسر کی اونچی کرسی پہ بیٹھا ہوں
میرا بچپن کا یہ دوست پرائمری اسکول میں اردو ٹیچر ہے۔ اپنے احساس کمتری پہ قابو پانے کے لیے اسے ایسے ہی جملے بولنے چاہئے۔ پھر اس نے سوچا انوار ہی تو اسے اسکول سے واپسی پر حوصلہ دیتا تھا ورنہ قصبے سے دیہات تک پھیلے جنگل، سنسان باغوں اور خاموش کھیتوں میں ہوکر گزرنے میں اس کی روح آدھی رہ جاتی تھی۔ سرفراز نے سرکرسی کی پشت سے لگایا اور آنکھیں بند کرلیں اور بچپن کی اس دہشت کویاد کیا اوراس یاد میں مزہ محسوس کیا
جاڑوں کے شروع میں چار بجے اسکول کی آخری گھنٹی بجتی۔ سب کے سب غل غپاڑہ کرتے تیزی سے نکلتے وقت اور مست چال سے، بستے کندھے پہ ڈالے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے۔ سرفراز کے دیہات کا کوئی بھی لڑکا کالج پڑھنے نہیں آتا تھا۔ وہ راستے کی دہشت سے خیال سے سہما سہما، دھیرے دھیرے قدموں سے کالج کے گیٹ سے باہر نکلتا۔ انوار کبھی اس کے ساتھ ہوتا، کبھی نہیں ہوتا۔ جب ہوتا تھا تو تالاب تک چھوڑنے ضرور آتا تھا۔ تالاب سے آگے وہ بھی نہیں بڑھتا تھا کیونکہ تالاب کے بعد سڑک مڑ گئی تھی اور موڑ کے بعد پیچھے دیکھنے پہ قصبہ غائب ہو جاتا تھا۔ رخصت ہوتے وقت وہ اس کی ہمت بڑھاتا تھا
’’تم ڈرنا مت سرفراز۔ نہر کی پٹری پار کرو گے تو باغ میں داخل ہونے پر کوئی نہ کوئی آدمی مل ہی جائے گا‘‘
سرفراز اس کی طرف بے بس نظروں سے دیکھتا اور اس خیال سے کہ انوار پر اس کا ڈر ظاہر نہ ہو، چہرے پہ بہادری کے تیور سجا کر جواب دیتا ’’نہیں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ باغ میں کبھی کبھی آدمی مل جاتاہے تو ذرا اطمینان رہتا ہے اور نہیں ملتا ہے تب بھی میں گھبراتا نہیں ہوں‘‘ یہ کہہ کر دیہات کی طرف چل پڑتا
دونوں پیچھے مڑکر ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔ سرفراز انوار کے اوجھل ہوتے ہی گردن کے تعویذ کو چُھو کر محسوس کرتا اور جلدی جلدی آیۃ الکرسی پڑھنے لگتا۔ نہر کی پٹری پر مڑنے سے پہلے وہ چاروں قل پڑھ کر اپنے سینے پر پھونکتا اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا باغ کی طرف بڑھنے لگتا۔ یہ غروب کا وقت ہوتا تھا
سردیوں میں شامیں جلد آ جاتی تھیں۔ نہر کی پٹری پر مڑنے سے پہلے کچی سڑک پر اکا دکا آدمی سائیکل پہ آتے جاتے مل جاتے یا گھنٹیاں بجاتی بیل گاڑیاں گزرتیں تو اسے تقویت کا احساس رہتا لیکن پٹری پہ مڑتے ہی بالکل سناٹا ہو جاتا تھا۔ اوپر شیشم کے درخت پہ بیٹھا کوئی گدھ شاخ بدلتا، پر کھول کر برابر کرتا تو وہ آواز اس سناٹے کو اور ڈراؤنا بنا دیتی۔ اور یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ آیۃ الکرسی بھول جاتا تھا۔ وہ قل ہواللہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ اسی درمیان تیزی سے اول کلمہ طیب بھی پڑھ لیتا
اور اب سامنے باغ آتا۔ آموں کاںبوڑھا باغ۔۔ڈوبتے سورج کی زرد روشنی میں کہرے میں لپٹا باغ، جس کے اندر دوپہر کے وقت بھی سورج ڈوبنے والے وقت جیسا اندھیرا ہوتا تھا کیوں کہ ایک دن اتوار کو اس نے دوپہر کے وقت بھی یہ باغ دیکھا تھا۔ شام کے وقت یہ باغ بالکل بدل جاتا۔ لگتا جیسے سارے درختوں کی چوٹیاں آپس میں گندھ گئی ہیں۔ فجری کے درخت کے نیچے سے ہوکر گزرتے ہوئے اسے اپنے دل کی تیز تیز دھڑکن صاف سنائی دیتی۔ اسے لگتا جیسے جنات بابا درخت سے اب اترے
باغ سے نکل کر ایکھ کے کھیتوں کے پاس مینڈھ پر گزرتے ہوئے اسے محسوس ہوتا کہ ابھی ایکھ کے کھیت سے نکل کر بھیڑیا اس کی ٹانگ پکڑ لے گا۔ وہ پسینے پسینے ہو جاتا۔ پھر گیہوں کے کھیت آتے۔ پھر پلکھن کے درخت کے اوپر گاؤں کی مسجد کے منارے اور مندر کے کلس نظر آتے۔ تب آہستہ آہستہ اس کے بدن کا کھنچاؤ دور ہوتا۔ ٹانگوں میں طاقت کا احساس پیدا ہوتا۔ پھر وہ بلند آواز میں کوئی فلمی گانا گانے لگتا
مہینے میں دوچار بار ایسا بھی ہوتا کہ باغ میں داخل ہوتے ہی اسے آدمی نظر آجاتا جو عموماً پھاوڑا لیے جھونپڑی کی طرف جا رہا ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر سرفراز باغ میں ہی فلمی گانا شرع کر دیتا۔ گانا بیچ میں روک کر وہ بہت اپنائیت کے ساتھ آدمی کو سلام کرتا۔ آدمی اس کا سلام سن کر پھاوڑا زمین پر رکھ کر آنکھیں مچمچا کر اسے دیکھتا
’’رام رام بیٹا۔۔۔ پٹواری صاحب کے بھانجے ہو۔ انہیں ہماری رام رام بولنا‘‘ وہ روزانہ اسی بھروسے پہ کالج سے گھر آنے کی ہمت کر پاتا تھا کہ شاید آج بھی آدمی مل جائے۔ اگر یہ آسرا نہ ہوتا تو وہ رو پیٹ کر کالج سے نام کٹا کر اپنے گاؤں واپس جا چکا ہوتا
لیکن آدمی روزانہ نہیں ملتا تھا۔ ایک دن کالج سے نکلتے نکلتے دیر ہوگئی۔ وہ گراؤنڈ پر والی بال کا میچ دیکھنے میں ایسا محو ہوا کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جب دیر کا احساس ہوا تو اس نے سورج کی طرف دیکھا جو آج قصبے میں ہی زرد ہوگیا تھا۔ وہ تیزی سے کالج کے گیٹ سے نکلا اور دیہات کی طرف چل پڑا۔ نہر کی پٹری پر مڑتے ہی اس نے اپنے بدن میں یہ سوچ کر سنسنی محسوس کی کہ اب تو باغ سے آدمی بھی چلا گیا ہوگا۔ اس نے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور شیشم کے درخت کے نیچے سے گزرا۔ درخت کے نیچے سے نکلتے ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی درخت سے اتر کر اس کے پیچھے چل پڑا ہو۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کا حلق بند ہو رہا ہے۔ وہ سہما سہما دھیمے دھیمے قدموں سے آگے بڑھا۔ پیچھے کی آہٹ اچانک تھم گئی۔ اسے لگا جیسے جنات بابا پیچھے سے اس کی کمر کا نشانہ لے کر جادو کی گیند مارنے ہی والے ہیں۔ اس نے تیزی سے کلمہ پڑھا اور کنکھیوں سے پیچھے دیکھا
وہ ایک بڑا بندر تھا، جو چلتے چلتے اچانک رک کر زمین پر دونوں ہتھیلیاں ٹیکے اس کی طرف دیکھ کر خرخر کر رہا تھا۔ اسے بندر سے بھی ڈر لگتا تھا لیکن جنات بابا کے مقابلے میں کم۔۔ اس نے اپنا بستہ بہت کس کے پکڑا اور باغ کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ آج آگے کا راستہ بھی بند تھا اور پیچھے کا بھی۔ آگے سنسان باغ، جس میں اب آدمی ہونے کی اسے کوئی امید نہیں تھی اور پیچھے بندر۔۔ سورج ڈوبے دیر ہو چکی تھی اور باغ کے درخت دھیمی آواز میں شام کی سرگوشیاں شروع کر چکے تھے۔ وہ باغ میں داخل ہوا۔ آگے بوڑھے فجری کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کا دل زور سے دھڑکا۔ یہی جنات بابا کا اصلی گھر ہے۔ داہنی سمت سے آواز آئی ’’ آج بہت دیر کی بیٹا۔۔‘‘
ارے۔۔۔ آدمی موجود ہے۔۔۔ اسے اتنی خوشی اس دن بھی نہیں ہوئی تھی، جس دن انگلش والے ماساب نے ’’مائی کاؤ‘‘ لکھنے پر اسے ’’ویری گڈ‘‘ دیا تھا۔ اس نے آدمی کی طرف نگاہیں اٹھائیں۔ وہ جھونپڑی کے قریب درختوں کے پاس کہرے میں کھڑا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ اس کا پھاوڑا اس کے ایک ہاتھ میں تھا، جسے وہ زمین پر ٹکائے ہوئے تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ انگوچھے کو کانوں پہ برابر کر رہا تھا۔ کہرے میں لپٹا، دھوتی کرتا انگوچھا پہنے یہ آدمی اسے حضرت خضر علیہ السلام کا نوکر لگا
’’آدمی سلام‘‘ وہ چہک کر بولا
’’جیتے رہو بیٹا۔۔ پٹواری ساب کو ہماری رام رام کہنا۔ اندھیرا مت کیا کرو‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گھر آ کر کھانا کھا کے دالان میں بیٹھی خالہ کے کلیجے سے لگ کر اس نے انہیں پورا واقعہ سنایا۔ وہ چاہتا تھا خالو اور خالہ کو علم ہو جائے کہ اسکول کی پڑھائی کے علاوہ راستے میں واپسی کے لیے اسے کیسی جوکھم اٹھانا پڑتی ہے۔ مگر خالہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ والی بال کے میچ کے چکر میں اسے دیر ہوئی تو وہ ہمدردی کے بجائے الٹا اسے ڈانٹنے لگیں
رات کو دالان میں رضائی سے بدن اچھی طرح لپیٹ کر اس نے سوچا اگر وہ آدمی مر گیا تو میں اسکول سے کیسے واپس آیا کروں گا۔۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن ہوا کہ وہ آدمی دیکھنے میں تو خالو سے بھی چھوٹا لگتا ہے، ابھی نہیں مرے گا
’’سرفراز! تمہاری خالہ کی بیٹی کی شادی ہے۔ خالہ نے مجھے بلا کر کہا کہ سرفراز تو ہمیں بالکل بھول گیا۔ تم اس سے جا کر کہو کہ خالہ اور خالو اسے دیکھنے کو بہت بےتاب ہیں۔ اسے شادی میں ضرور آنا ہے‘‘ سرفراز کو یہ سن کر بہت ندامت ہوئی۔ وہ ندامت کے اس احساس کو چھپانا چاہتا تھا۔ اس نے سنجیدہ لہجے لیکن کھوکھلی آواز میں انوار کو بتایا کہ سرکاری ملازمت خصوصاً ذمہ داری کے عہدے پر کام کرنے میں بالکل فرصت نہیں ملتی۔ پھر اسے عائشہ کی یاد آئی، جسے اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا۔ وہ کتنی جلدی اتنی بڑی ہو گئی۔
’’شادی کب ہے؟‘‘
’’پرسوں بارات آئے گی‘‘
’’ارے۔۔ ان حالات میں تاریخ کیوں رکھ دی خالہ نے۔۔ تم نے دیکھا نہیں، کیسے دیوانے ہو رہے ہیں سب، لال بھبھوکا چہرے لیے ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر جلوس نکال رہے ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھیار اور کیسے نفرت انگیز نعرے۔۔۔‘‘
انوار اسے دیکھتا رہا۔ پھر بولا ’’میں نے بھی خالہ سے کہا تھا کہ آج کل تقریب کرنے والا وقت نہیں ہے۔ گاؤں گاؤں میں وہ بات پھیل گئی ہے۔ خود انہیں کے گاؤں میں لوگوں کے لہجے بدل گئے ہیں۔ مگر خالہ کی بھی مجبوری ہے۔ خالو کے بھائی کے بیٹے سے رشتہ طے ہوا ہے، جو تین دن بعد جدہ واپس چلا جائے گا۔ خالو بھی اب بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اپنے سامنے عائشہ کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ تمہیں آج ہی چلنا ہوگا سرفراز۔ بھابھی کو فون کر کے تیار رہنے کو کہہ دو۔‘‘
’’کیا تم نے اخبار نہیں پڑھا انوار؟ پرسوں ریل گاڑی سے اتار کر۔۔۔‘‘ وہ چپ ہو گیا۔ انوار بھی خاموش ہوگیا۔ پھر بولا، ’’اچھا تو بھابھی اور بچوں کو یہیں رہنے دو‘‘
’’ہاں۔۔ ان لوگوں کو نہیں لے جا پاؤں گا‘‘
’’گیارہ بجے ہیں۔۔۔ اگر بارہ بجے بھی کار سے چلیں تو شام چھ سات بجے تک خالہ کے ہاں پہنچ جائیں گے‘‘
’’ہاں۔ تقریباً ڈھائی تین سو کلو میٹر کا سفر ہے‘‘
راستے میں نہر کے پل پر اچانک کچھ لوگوں نے گاڑی کے سامنے آکر گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں کے دل بیٹھ گئے کیونکہ بچاؤ کے لیے ان کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا۔ سامنے پل پر ٹرک اور ٹریکٹروں کا جلوس آرہا تھا۔ لوگ دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے اور ایک عجیب جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ دونوں کے ذہنوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ دونوں گاڑی میں بیٹھے رہے۔ جلوس برابر سے گزرتا رہا۔ گاڑی رکوانے والے وہیں کھڑے کھڑے نعروں کا جواب دیتے رہے۔ سرفراز نے آیۃ الکرسی یاد کی
جلوس گزر گیا تو وہ لوگ بھی زور زور سے کچھ باتیں کرتے جلوس کے ساتھ بڑھ گئے۔ سرفراز سخت ذہنی دباؤ میں تھا، اس لیےگاڑی فوراً اسٹارٹ نہیں کر سکا۔ دونوں بیٹھے ایک دوسرے کا ڈر محسوس کرتے رہے۔ سرفراز نے گاڑی اسٹارٹ کی تو انوار بولا ’’کھلے عام سڑک پر اکا دکا آدمیوں سے کچھ نہیں کہتے۔ اکا دکا آدمیوں سے نپٹنے کے لئے شہر شہر گاؤں گاؤں لوگوں کو تیار کیا گیا ہے۔ پچھلے جمعہ کو جب احمد شہر کی پٹری سے باغ کی طرف مڑا تو اچانک کسی نے پیچھے سے۔۔۔‘‘
سرفراز کے بدن میں سر سے پاؤں تک سنسنی دوڑ گئی، وہ خالی ذہن کے ساتھ گاڑی چلاتا رہا۔ انوار بتاتا رہا ’’اگر پورا جلوس اکا دکا آدمیوں پر حملہ کرے تو بدنامی بھی تو بہت ہوگی۔ ویسے اپنی طرف سے بھی تیاریاں ٹھیک ٹھیک ہیں“ اس نے یہ بات رازداری کے لہجے میں بتائی۔ جب وہ نہر کی پٹری پر مڑے تو سورج ڈوب رہا تھا
سرفراز کو اپنا بچپن یاد آگیا۔ تب اسے یہ خاموش نہر، سنسان پٹری اور سائیں سائیں کرتے باغ کتنے بھیانک لگتے تھے۔ اس نے اچانک گاڑی کے بریک لگائے۔ ہیڈلائٹ کی روشنی میں ایک بڑا سا بندر ہتھیلیاں زمین پر ٹیکے ان کی طرف دیکھ کرخر خر کر رہا تھا۔ دونوں مسکرائے۔ بندر بھاگ کر درخت پر چڑھ گیا۔ اوپر کسی گدھ نے پہلو بدلا تو پھڑپھڑاہٹ کی آواز ہوئی۔ سرفراز نے سوچا پہلے اس پھڑپھڑاہٹ سے کتنا ڈر لگتا تھا۔
’’تو یہ احمد دکاندار والا معاملہ کب ہوا تھا؟‘‘
’’آج چاردن ہوگئے‘‘
’’ارے۔۔۔‘‘ سرفراز کی ہتھیلیاں اسٹیرنگ وہیل پر نم ہوگئیں
’’کیا ہوا؟‘‘ انوار نے پوچھا، حالاں کہ اسے معلوم تھا کہ کیا ہوا
’’نہیں کچھ نہیں۔ یعنی ابھی بالکل تازہ واقعہ ہے۔۔ کچھ پتہ لگا؟‘‘
’’پتہ کیا لگتا۔۔ الٹے تھانے دار نے دفن کے بعد ہی سب کو ڈانٹا کہ جب ایسے حالات چل رہے ہیں تو سورج مندے گھر سے باہر نکلنے ہی کیوں دیا۔ اندھیرے میں حملہ کرنے والوں کو مار کر بھاگنے میں سہولت رہتی ہے‘‘
’’گاڑی یہیں روک کر بیک کر کے لگا دو۔ آگے راستہ نہیں ہے‘‘ انوار بولا
پٹری سے اترتے ہی باغ سامنے آ گیا۔ سرفراز نے گاڑی بیک کر کے لگادی اور باغ کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ کہرے میں لپٹا باغ بہت دن بعد دیکھا تھا۔ آج اسے باغ سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا لیکن ایک عجیب سا سناٹا دونوں کے اندر خاموشی سے اتر آیا تھا، جو باتیں کرنے کے باوجود ٹوٹ نہیں رہا تھا
دونوں جب جنات بابا والے پرانے درخت کے پاس سے گزر رہے تھے، تو سرفراز نے اچانک رک کر انوار کا ہاتھ اتنے زور سے دبایا کہ دکھن ہڈیوں تک پہنچ گئی
انوار نے سرفراز کی طرف دیکھا۔ سرفراز نے آنکھ کے اشارے سے باغ کی بڑی مینڈھ کی طرف اشارہ کیا۔ انوار کو کچھ نظر نہیں آیا۔ اندھیرے میں وہ اس جگہ کا تعین بھی نہیں کر پایا، جہاں سرفراز نے اشارہ کیا تھا۔ سرفراز نے اس بار اور بھی زیادہ زور سے ہاتھ دبایا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے پکڑے واپس مڑا اور کھینچنے والے انداز میں دوڑتا، گرتا، سنبھلتا باغ سے باہر نکلا۔ گاڑی میں انوار کو دھکیل کر گاڑی اسٹارٹ کی اور فل اسپیڈ پر نہر کی پٹری پر چڑھا کر پل پار کر کے کچی سڑک پر آگیا۔ سرفراز شدید کھنچاؤ کے عالم میں گاڑی چلا رہا تھا۔ اس کا چہرہ ہولے ہولے کانپ رہا تھا اور پورا بدن پسینے سے شرابور ہو چکا تھا
’’اب دورنکل آئے ہیں۔۔ بتاؤ تو سہی کیا بات تھی؟‘‘
سرفراز نے گاڑی روک دی
’’باغ کی مینڈھ پر درختوں کے درمیان ایک آدمی جھکا کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تھا، جسے وہ زمین پر ٹکائے ہوئے تھا۔‘‘