چائے کے پیالے، خالی بوتلیں، پلاسٹک کے ڈبے اور سی ڈیز۔۔۔ ایڈورڈ براؤن کے گھر میں آپ کو لگ بھگ ہر چیز ملے گی
کسی توجیہہ کے بغیر ایک دوسرے پر ڈھیر کی ہوئی یہ چیزیں انہوں نے ساری عمر جمع کی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے گھر میں رہنا مشکل ہو رہا ہے
شمالی انگلینڈ کے شہر بلیک برن کے ساٹھ سالہ ایڈورڈ براؤن کہتے ہیں ”یہاں آنے والے لوگوں کو حرکت کرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی“
براؤن کو علم ہے کہ ان کے ساتھ مسئلہ ہے، لیکن انہیں اس سے نمٹنے کے لیے مشکل پیش آ رہی ہے
براؤن جس کیفیت سے دوچار ہیں، وہ دراصل ایک ذہنی مسئلہ ہے، جسے نفسیات کی اصطلاح میں”ہورڈنگ ڈس آرڈر“ کہتے ہیں، جس میں انسان ایسی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے، جو دوسروں کے لیے بہت کم اہمیت رکھتی ہیں یا ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی
اس بارے میں کلینیکل سائیکالوجسٹ اور ایلینوئس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر گیروگری چیسن کا کہنا ہے ”اس مشکل کی وجہ سے عموماً چیزوں کا ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے رہنے کی جگہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا مشکل ہو جاتا ہے“
وہ کہتے ہیں ”کمرے اس مقصد کے لیے استعمال ہی نہیں ہو سکتے جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں۔ آپ کچن میں کھانا نہیں بنا سکتے اور بیڈ روم میں سو نہیں سکتے“
اخبار، میگزین، کھانے کے ڈبے، جوتے، تاریں، چھتریاں، بوتلوں کے ڈھکن، یہ سب چیزیں چاہے صحیح یا ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہوں انہیں ذخیرہ کرنے والے کے لیے قیمیتی بن جاتی ہیں
ہورڈنگ ڈس آرڈر کسی خاص صنف، تہذیب یا معاشی صورتحال رکھنے والے افراد کو نہیں ہوتا
امریکن سائکیٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا بھر کی آبادی کا 2.5 فیصد اس ذہنی حالت کا شکار ہے، ان میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہوتی ہے، جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی ہے یا انہیں بے چینی یا ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل ہوتے ہیں
دسمبر 2021ع میں نفسیاتی تحقیق کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اس ذہنی حالت کی علامات میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا
ہورڈنگ ڈس آرڈر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے شکار افراد میں چیزوں کے حصول اور انہیں اپنے پاس رکھنے کی شدید خواہش ہوتی ہے
کینیڈا میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹینا بریٹیواٹس، جنہوں نے ’ہورڈنگ ڈس آرڈر‘ پر اسپیشیلائزیشن کر رکھی ہے، کہتی ہیں ”ہم اس صورتحال میں نہ صرف افراتفری کا عالم دیکھتے ہیں بلکہ اس میں چیزیں خریدنے کی خواہش یا زندگی میں آنے والی چیزوں کو جمع کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ لوگ ان چیزوں سے متعلق اپنے اعتقاد کی وجہ سے انہیں محفوظ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان سے ان کا شدید جذباتی لگاؤ ہوتا ہے“
کرسٹینا بریٹیواٹس کا کہنا ہے کہ ان کے مریض بتاتے ہیں کہ ’ان چیزوں کا ذخیرہ مجھے اسی طرح عزیز ہے جیسے میری بہن ہے۔ ان سے الگ ہونا ایسا ہی ہے جیسے اس سے اپنے تعلقات ختم کر لوں۔۔ یہ چیزیں ہماری شناخت کا حصہ ہیں‘
اس کیفیت کا شکار افراد کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ شاید کسی روز انہیں اس کی ضرورت پڑ جائے
ہورڈنگ ڈس آرڈر کے بہت سے طبی خطرات ہوتے ہیں اور یہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، جتنے یہ بظاہر نظر آتے ہیں
پروفیسر گیروگری چیسن کا کہنا ہے ”ہورڈنگ کی شدید حالت میں ہر طرح کے خطرات ہو سکتے ہیں جیسے کہ آگ لگنے کا خطرہ، گرنے کا، چوٹیں لگنے کا اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے دمے جیسے بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے“
ذہنی صحت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس مشکل کا شکار افراد معاشی طور پر الگ تھلگ ہو جاتے ہیں
کرسٹینا بریٹیواٹس کہتی ہیں ”چونکہ معاشرے میں اسے باعث شرم قرار دیا جاتا ہے اس لیے لوگ اسے مخفی رکھتے ہیں۔ معاشرے میں اسے سستی، غیر اخلاقی یا ذاتی معیار کی گراوٹ سمجھا جاتا ہے اور اسے ذہنی صحت کا مسئلہ نہیں سمجھتے“
لیکن یہ ضرور ذہن میں رہے کہ ہم میں سے کئی لوگ بہت سی چیزیں سنجیدہ اور منطقی وجوہات کی وجہ سے بھی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ درحقیقت ارتقائی نقطۂ نظر سے ہم بنیادی طور پر منتخب اشیاء جمع کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ہم ہورڈنگ کا شکار ہیں
کرسٹینا بریٹیواٹس وضاحت کرتی ہیں کہ اسے سمجھنا ضروری ہے کہ ہورڈنگ کا رویہ کیا ہے، جیسے کہ یہ ایک تسلسل سے بڑھتا ہے کم سے شدید تر تک لیکن کیا ہمارے سامنے کوئی ہورڈنگ کا کیس ہوتا ہے یا صرف ایک چیزیں جمع کرنے والی فرد؟
پروفیسر گیروگری چیسن کہتے ہیں کہ ”کبھی کبھی ان میں تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے“
”لیکن یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور جب یہ لوگوں یا ان کے گرد رہنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث بننے لگے تو اس کی تشخیص ہو سکتی ہے“
یہ اس صورتحال پر بھی لاگو ہوتا ہے جب اس انبار کی وجہ سے گھر کے روز مرہ معمولات ناممکن ہو جائیں
جب آپ ہورڈنگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کے دماغ میں ایسے گھر کا نقشہ آتا ہے جہاں چیزوں کا اس قدر انبار ہے کہ گھر کے مالک کا ان کی وجہ سے کمرے کے دروازے تک جانا دشوار ہے
کچھ معاملات اس قدر سنگین تھے کہ یہ شہہ سرخیوں اور ٹیلی وژن پروگرامز کا حصہ بنے
اس کا مزید اندازہ ذیل میں دی گئی تصویر سے ہو سکتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کب ہورڈنگ ایک ذہنی صحت کا مسئلہ بن جاتا ہے
یہ ایسی تصاویر کے مجموعوں میں سے ایک ہے جن میں لوگ کمرے، کچن اور بیڈ روم میں ایک سے نو درجہ تک چیزوں کے انبار دکھائے گئے ہیں
یہ سنہ 2008ع میں سائیکو پیتھالوجی اینڈ بیہیوئیرل اسیسمنٹ کے جریدے میں شائع ہونے والے مطالعے کا حصہ ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ تیسرے درجے کے بعد ایک فرد ہورڈنگ ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتا ہے
چیزوں کا انبار اگرچہ اس مسئلہ کا ظاہری پہلو ہے، لیکن کرسٹینا بریٹیواٹس وضاحت کرتی ہیں ”اس ڈھیر کے نیچے استعاراتی اور لفظی دونوں طور پر اس مسئلے کے کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جو کم نظر آتے ہیں لیکن وہ بھی اس رویے کی وجہ بننے کے لیے اتنے ہی اہم ہے“
شخصیت کی کچھ مخصوص خصلتیں ہوتی ہیں، فیصلہ کرنے میں مشکلات پیشں آنا، کمال پسندی، ٹال مٹول کرنا، جب یہ سارے عوامل یکجا ہو جاتے ہیں، تو کسی فرد میں ہورڈنگ ڈس آرڈر کا سبب بن سکتے ہیں
وہ مزید بتاتی ہیں ”ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ فیصلہ کرنے کے معاملے میں سست ہوتے ہیں اور پھر فوراً ہی اپنے فیصلوں پر سوال اٹھا دیتے ہیں“
لیکن یہ ان کے ڈس آرڈر کی واحد وجہ نہیں
ایک محقق کا کہنا ہے ”یہ صرف ارتقائی حیاتیات نہیں، یہ صرف جینیات، یا نیوروبیولوجی نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں ایک کردار ادا کرتی ہیں“
کرسٹینا بریٹیواٹس کہتی ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ زبردستی ذخیرہ اندوزی کرنے والے کا دماغ مختلف طریقے سے کام کرتا ہے
یہ تبدیلیاں سی ٹی اسکین کے دوران اس وقت نوٹ کی گئیں، جب ان افراد کو کچھ ایسے ٹاسک دیے جن میں ان جمع شدہ چیزوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا بھی شامل تھا
”ہمیں یہ پتا چلا کہ ان وجوہات اور زندگی کے کچھ تجربات نے، جو اس خاص نقصان سے متعلق تھے، نے اس مسئلے کو جنم دیا۔‘
وسط عمری میں یقینی طور پر ہونے کے علاوہ یہ ہورڈنگ ڈس آرڈر بچپن اور جوانی میں بھی ہوتے دیکھا گیا ہے
کرسٹینا بریٹیواٹس کہتی ہیں ”ایسے کیسز پر کی گئی تحقیق کے مطابق 50 فیصد کیسز میں یہ لت گیارہ سے بیس برس کی عمر کے دوران لگ سکتی ہے“
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہورلانگ ڈس آرڈر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے پاس ان کے گرد موجود چیزیں صاف کرنے کے لیے لوگ ہوتے ہیں اور چیزیں جمع کرنے کے امکانات اس وقت تک کم رہتے ہیں، جب تک وہ خود بڑے نہیں ہوجاتے
اگر اس ذہنی مسئلے کے علاج کی بات کی جائے تو بدقسمتی سے آج تک ہورڈنگ سینڈروم کا کوئی علاج نہیں لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ Cogniitve-Behavioural Therapy کا استعمال کیا جاتا ہے
اس تھراپی میں لوگوں کے چیزوں سے متعلق احساسات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
کرسٹینا بریٹیواٹس کہتی ہیں ”نتائج معتدل ہیں، یہ بہت غیر متعلقہ تو نہیں لیکن یہ مکمل طور پر کامیاب بھی نہیں“
پروفیسر گیروگری چیسن کا کہنا ہے ”اس طریقے سے ہورڈنگ کی شدت اور اس سے ہونے والے اثرات کو کم کرنے اور اس حالت کا شکار فرد کی مشکلات کم کر کے اس کی زندگی کا معیار بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے“
اسی طرح رشتہ دار اور چاہنے والے بھی ان کی مدد کر سکتے ہیں
بریٹیواٹس کہتی ہیں ”سب سے پہلے تو انہیں اس مسئلے کو ہمدردی سے لینا چاہیے، بجائے اس کے کہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا جائے“
انہوں نے مثال دی ”آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس گھر میں رہنے کے لیے فکر مند ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کسی مشکل سے گزر رہے ہیں آپ یہ راستہ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور میں گر سکتا ہوں“
یہ ایسا کہنے سے بہت مختلف ہے کہ ’آپ کو یہ راستہ صاف کرنا چاہیے کیونکہ میں یہاں گر سکتا ہوں‘
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ چاہے جتنے مرضی اچھا سوچتے ہوں، لیکن دوست اور خاندان ہمیشہ مدد کے لیے بہترین لوگ نہیں ہوتے
پھر بھی یہ لوگ ہورڈنگ کا شکار افراد کو اپنی مدد کی پیش کش کر سکتے ہیں
ایڈورڈ براؤن اپنی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے قصبے میں ایک امدادی گروپ بھی بنایا ہے تاکہ ایسی ہی حالت کا شکار افراد کی مدد کی جا سکے
براؤن کہتے ہیں ”میں ہورڈنگ کا شکار افراد کی مدد کرنے کے لیے پر جوش ہوں کہ وہ کس طرح اپنی زندگی بہتر کر سکتے ہیں“