افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے جنگی جرائم کا انکشاف

ویب ڈیسک

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک تفتیش کے مطابق برطانوی اسپیشل فورسز نے ایک دہائی قبل افغانستان میں مبینہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی آڑ میں درجنوں افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ برطانوی وزارت دفاع نے ان الزامات کی تردید کی ہے

بی بی سی نے اپنے ایک پروگرام ‘بی بی سی پینوراما’ میں افغانستان میں برطانوی اسپیشل فورسز (ایس اے ایس) کے ایک اسکوارڈن کے بارے میں مبینہ جنگی جرائم کے انتہائی ہولناک انکشافات کیے تھے

برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بلاجواز نتائج کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں

بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس اے ایس کی ایک یونٹ نے، جو کہ سن 2010 سے 2011 کے درمیان افغانستان میں تعینات تھی، چھ ماہ کے عرصے میں 54 افراد کو ہلاک کردیا۔ یہ مشتبہ ہلاکتیں انسداد دہشت گردی کے نام پر کی گئی تھیں۔ برطانیہ کے خصوصی فورسز کے سابق سربراہ جنرل سرمارک کارلیٹن اسمتھ کو ان ہلاکتوں کا علم تھا لیکن انہوں نے انکوائری کمیٹی کو شواہد فراہم نہیں کیے

بی بی سی کے مطابق اس رپورٹ کی تیاری میں چار سال کا وقت لگا۔ رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے ایس اے ایس کے ان آپریشنل بیانات کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سن 2010 سے 2011 کے درمیان افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں ایک ایس اے ایس اسکوارڈن کی جانب سے کیے گئے 12 سے زیادہ قتل یا چھاپہ مار کارروائیوں پر مشتمل رپورٹیں شامل تھیں

رپورٹ کے مطابق ای میلز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایس اے ایس کے کئی اعلی افسروں کو معلوم تھا کہ ممکنہ غیر قانونی قتل کے واقعات پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن وہ قانونی ذمہ داری کے باوجود فوجی پولیس کو شکوک و شبہات کی اطلاع دینے میں ناکام رہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چھاپہ ماری کی بیشتر کارروائیاں رات کے وقت کی گئیں اورتقریباً تمام کارروائیوں کی تفصیل میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جن کے مطابق جب چھاپہ مارا گیا تو افغان شہریوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد فرنیچر کے پیچھے سے ہتھیار نکال لیے تھے۔ "یہ بہانہ مبینہ طور پر ان کے قتل کے جواز کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔”

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان تمام چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران ایس اے ایس کے کسی کارکن کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے

بی بی سی کے مطابق ایس اے ایس ہیڈکوارٹر میں سینیئر افسر کے طور پر کام کرم کرنے والے ایک ذریعہ کا کہنا تھا کہ ایس اے ایس اسکواڈرنز نے زیادہ سے زیادہ افغان افراد قتل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ شروع کر دیا تھا اور زیربحث اسکواڈرن کو جس اسکواڈرن کی جگہ تعینات کیا گیا تھا، اس نے اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ "ہیڈکوارٹر میں خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس وقت یہ واضح تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے”

بی بی سی کی طرف سے دیکھی گئی اس وقت کی اندرونی ای میلز سے پتا چلتا ہے کہ افسروں نے ان اطلاعات پرعدم اعتماد کا اظہار کیا، انہیں ”کافی ناقابل یقین” قرار دیا

جنرل سرمارک کارلیٹن اسمتھ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکارکر دیا۔ وہ گذشتہ ماہ ہی سبکدوش ہوئے ہیں

دوسری جانب برطانیہ کی وزارت دفاع نے ایس اے ایس کے ہاتھوں افغانوں کی ہلاکتوں کے متعلق بی بی سی پینوراما کی رپورٹ کے بارے میں متعدد ٹویٹس جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ "اس رپورٹ میں ان الزامات سے متعلق بلاجواز نتیجہ اخذ کیا گیا ہے حالانکہ ان کی پہلے ہی تحقیقات کی جا چکی ہیں۔”

وزارت نے کہا کہ ہم نے پینوراما کو ایک تفصیلی اور جامع بیان فراہم کیا ہے جس میں واضح طور پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح سروس پولیس کی دو کارروائیوں نے افغانستان میں برطانیہ کی افواج کے طرزعمل کے بارے میں الزامات کی وسیع اور آزادانہ تحقیقات کی ہیں

وزارت کے پریس دفتر نے کہا "تحقیقات میں قانونی چارہ جوئی کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ نیزغیرذمہ دارانہ اورغلط رپورٹ سے ہماری بہادر مسلح افواج کے اہلکاروں کو میدان میں اور ساکھ دونوں کے لحاظ سے خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔”

اس نے مزید کہا "وزارت دفاع یقیناً کسی بھی نئے ثبوت پر غورکرنے کو تیار ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ہم ہمیشہ الزامات کی مکمل تحقیقات کریں گے لیکن ہماری آزاد پولیس اور استغاثہ صرف سامنے موجود شواہد پر عمل کر سکتے ہیں۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close