نمرہ میرے بچوں کو پچھلے دو سال سے ٹیوشن پڑھا رہی ہے۔ نوجوان بچی، بہن بھائیوں میں سب سے بڑی۔ باپ کسی دائمی مرض میں مبتلا چارپائی سے لگا ہے اور ماں گھر پر کپڑے سینے کا کام کرتی ہے۔ دونوں ماں، بیٹی مل کر اتنا ہی جمع کر پاتی ہیں کہ گھر کا چولھا جلتا رہے
منہگائی کی لہر آئی، جہاں اشیائے ضرورت کے نرخوں نے راتوں رات چکرا کر رکھ دیا وہیں ایک روز نمرہ نے بھی ٹیوشن فیس میں اضافے کا مطالبہ کر دیا کہ جتنی فیس اسے مل رہی ہے، اس سے روزانہ آنے جانے کا کرایہ بھی ادا نہیں ہو پاتا
میں اس بچی کے گھریلو حالات سے واقف ہوں مگر موجودہ وسائل میں ٹیوشن فیس کا مطالبہ پورا کرنا میرے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ میرا مجبوری بھرا انکار سن کر نمرہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میرا دل پسیج کر رہ گیا۔ اس کا فیس میں اضافے کا مطالبہ بالکل جائز اور برحق ہے مگر میں کیا کروں؟
یہ کہانی صرف اس معصوم بچی کی نہیں بلکہ ہم سب ہی اس بے تحاشا منہگائی کی چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں
محدود آمدن والے طبقے کی زندگی میں آسائشوں کا دخل کم ہی ہوتا ہے۔ آمدن کی امید میں خدا خدا کر کے مہینہ گزرتا ہے، لیکن لگی بندھی تنخواہ ہتھیلی پر آنے سے پہلے ہی اس کے مصارف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک حصہ کچن اور روز مرہ ضروریات کی مد میں نکلا، بڑا حصہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پر۔ بجلی، پانی گیس کے بل اس کے سوا اور ایسے میں اگر کوئی ناگہانی آفت آن پڑے تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ اس مصیبت سے کیسے نپٹا جائے گا۔ کہیں معیار زندگی پر سمجھوتا، کہیں بچوں کی معصوم خواہشوں کا قتل اور کبھی اپنی جائز ضروریات سے صرفِ نظر کہ بس یہ مشکل گزر جائے
ہم تیسری دنیا کے رہنے والے بھی عجیب بد قسمت ہیں۔ پیدائش کے بعد شعور کی عمر میں آتے ہی اولین تعارف منہگائی سے ہوتا ہے۔ آمدن محدود، مواقع مسدود، ایسے میں آسائشوں کی تو چھوڑیے، اکثریت کی زندگیاں تو بنیادی اشیائے ضرورت تک با عزت رسائی کی کوشش میں ہی گُھلتی جاتی ہیں۔ آنکھوں پر اچھے دنوں کی آس کے کھوپے چڑھائے، روزگار کے بندھن میں بندھے، سبھی ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں بس چلے جا رہے ہیں مگر دن ہیں کہ بدل کر نہیں دے رہے
حالیہ تین چار ماہ کے دوران میں جس طوفانی انداز سے بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتیں چڑھی ہیں، اس سے تو اچھے اچھوں کی سٹی گم ہو گئی ہے۔ مایوسی کا ایک اندھیرا ہے جو اب بڑھتے، بڑھتے امید کی روشنی کو نگل چکا۔ کہنے کو تو صرف پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں مگر اس کے اگلے ہی دن جب اشیائے خور و نوش کا بل ضربیں کھا کر سامنے آتا ہے تو اس کا کیا کریں؟ اس بلا کو قابو میں رکھنے کے ذمہ داروں کے بھاشن اور تلقین اپنی جگہ مگر کوئی یہ تو بتائے کہ جس ٹرک کی بتی کے پیچھے اس ہجوم کو لگایا جا رہا ہے، وہ کہیں رکے گا بھی یا نہیں؟
کہیں کوئی قیمتی سوٹ، ٹائی پہنے سادگی اختیار کرنے کی تلقین کر رہا ہے، کہیں کوئی صاحب، چائے کا استعمال کم کرنے کے مشورے دے رہے ہیں اور کہیں کوئی نازک اندام، طرح دار حسینہ بیش قیمت لباس پہنے اور ہزاروں کا میک اپ تھوپے اس سب کی ذمہ داری پرانے مداریوں کے سر تھوپنے کو تیار، مگر اس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے
معاشیات کا بنیادی اصول سبھی جانتے ہیں کہ طلب و رسد میں جب توازن نہ رہے تو اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور اس کا حل یہ ہے کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ مگر پیداوار میں اضافہ کس طرح ہوگا؟ شاید اس پر بھی کوئی غور کر ہی رہا ہوگا مگر سرمایہ دار تو اپنی لاگت کی ایک، ایک پائی نا صرف وصول کرے گا بلکہ ٹیکس اور محصولات کا وزن بھی انہیں ہی اٹھانا پڑے گا، جن کی خدمت کے بلند و بانگ دعوے روز و شب کیے جا رہے ہیں
اب حب الوطنی کے نغمے، صبر کی تلقین، سادگی کا سبق اور کسی روشن کل کی امید دلانے کا وقت نہیں ہے۔ کچھ کر کے دکھائیے ورنہ کسی بھی طرح کی حسِ لطافت اب مفلسی کا یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکی ہے۔ نمرہ جیسے کروڑوں لوگوں کے خواب بکھرتے جا رہے ہیں، گھروں کے چولھے تیزی سے بجھ رہے ہیں
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو،
اگر نہ ہو کہیں ایسا، تو احتجاج بھی ہو۔۔
رہے گی وعدوں میں کب تک اسیر خوش حالی،
ہر ایک بار ہی کل کیوں، کبھی تو آج بھی ہو۔۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو