تاریخ کا ایک تاریک باب۔۔ جب افریقی کھوپڑیاں چوری کر کے جرمنی لائی گئی تھیں!

ویب ڈیسک

نوآبادیاتی دور میں مشرقی افریقہ سے ہزاروں کھوپڑیاں چوری کرتے ہوئے جرمنی لائی گئی تھیں۔ اب جرمن محققین ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اُن افریقی رشتہ داروں کو تلاش کر رہے ہیں، جن کے آباو اجداد کی یہ کھوپڑیاں ہیں

برلن کے ایک عجائب گھر کے مطابق اس نے نوآبادیاتی دور میں جرمنی لائی جانے والی سینکڑوں کھوپڑیوں میں سے تین کھوپڑیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرتے ہوئے تنزانیہ میں آباد ان کے رشتہ داروں کو تلاش کر لیا ہے

جرمن دارالحکومت میں ’قبل از تاریخ اور ابتدائی تاریخ‘ کے میوزیم کی طرف سے سینکڑوں کھوپڑیوں کا ڈی این اے تجزیہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد ان باقیات کو ان کے زندہ رشتے داروں کے حوالے کرنا ہے

برلن میں ’ایس پی کے میوزیم‘ کے منتظمین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ ڈی این اے تحقیق کے ذریعے باقیات اور اولاد کے درمیان واضح تعلق تلاش کیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”اب جلد از جلد لواحقین اور تنزانیہ کی حکومت کو اس بارے میں مطلع کر دیا جائے گا‘‘

اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت تقریباً گیارہ سو کھوپڑیوں پر تجربہ کیا گیا ہے۔ اس میوزیم نے سن 2011 میں ایسی سات ہزار سات سو اشیاء برلن کے شاریٹے ہسپتال سے حاصل کی تھی۔

ممکنہ رشتہ داروں کے تلاش کے لیے مخصوص علاقوں سے مختلف قبائلی افراد سے تھوک کے نمونے حاصل کیے گئے تھے

کھوپڑیوں میں سے ایک کا مکمل جینیاتی نقشہ اس آدمی کے ساتھ میچ ہوا، جو آج بھی زندہ ہے۔ اسی طرح دیگر آٹھ کھوپڑیوں میں سے دو کا جینیاتی نقشہ افریقہ کے ’چاگا قبیلے‘ کے افراد سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے

میوزیم کے صدر ہیرمان پارسنگر کا کہنا ہے، ”اس طرح کا میچ تلاش کرنا بذاتِ خود ایک چھوٹا سا معجزہ ہے اور شاید انتہائی پیچیدہ تحقیق کے باوجود بھی یہ ایک نایاب معاملہ رہے گا‘‘

کھوپڑی اور ہڈیاں: جرمن استعمار کا تاریک راز

خیر اب ان کے رشتے داروں کو تلاشنے کی محنت، کھوپڑیاں واپس لوٹانے کا احسان اور مماثلت ڈھونڈنے کا معجزہ اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ افریقیوں کی یہ کھوپڑیاں جرمنی میں کیوں تھیں؟

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کھوپڑیاں 1871ء سے 1918ء تک جرمن سلطنت کے زمانے میں قبرستانوں اور تدفین کے دیگر مقامات سے لوٹی گئی تھیں۔ یہ جرمنی میں نام نہاد ’سائنسی مطالعات‘ کے لیے لائی گئی تھیں، جس کی وجہ سے جرمنی میں نسل پرستانہ خیالات کو بھی فروغ ملا

بہت سی کھوپڑیوں کو ماہر بشریات اور ڈاکٹر فیلیکس فان لوشان نے اُس وقت جمع کیا تھا، جب جرمنی مشرقی افریقہ میں ایک نوآبادیاتی طاقت تھا۔ دیگر کھوپڑیاں شاریٹے ہسپتال کے سابق اناٹومیکل انسٹیٹیوٹ کے مجموعے میں شامل تھیں۔

’جرمن ایسٹ افریقہ‘ میں آج کا برونڈی، روانڈا، مین لینڈ تنزانیہ اور موزمبیق کے متعدد حصے شامل تھے

فلسفے کی منطق ہو یا سائنس کی تحقیق۔۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے ان دونوں کو اپنی نسلی برتری کا جواز گھڑنے کے لیے استعمال کیا

مثال کے طور پر فلسفے میں منطق ایک ایسا اُصول ہے، جو عقلی طور پر جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز بنا دیتا ہے۔ مثلاً غلامی کا ادارہ ناانصافی اور ظلم پر قائم تھا، اَرسطو نے اسے جائز قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ قدرت نے کچھ کو حُکومت کرنے کے لیے پیدا کیا اور کچھ کو ان کی خدمت کے لیے۔ لہٰذا غلامی کا یہ ادارہ قدرت کی پیداوار ہے اور اسے باقی رہنا چاہیے۔ اَرسطو کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسفیوں اور دانشوروں کو فرصت کے لمحات مِلنے چاہئیں، تا کہ وہ غور و فکر کر سکیں۔۔ اور یہ غلاموں کا کام ہے کہ وہ روزمرّہ کے کام کر کے اُنہیں سہولت بہم پہنچائیں۔ اس دلیل کی بنیاد پر غلامی کے ادارے کو قائم رکھا گیا

اسی تعلیم کے زیر اثر اہل یورپ میں نسلی برتری کا جذبہ پروان چڑھا، اور انہوں نے ایشیائی، افریقی اور قدیم امریکی باشندوں کو اپنا غلام بنانے کو اپنا حق سمجھ لیا

یورپ کی سفید نسل کی اقوام نے اپنے تئیں فرض کر لیا کہ وہ ذہنی اور عملی طور پر دوسری قوموں سے برتر ہے۔ وہ خود کو راہ راست پر گردانتے تھے کہ مسیحیت نے اُنہیں نجات کا راستہ بتا دیا ہے، جبکہ دوسری اقوام گمراہی میں ہیں

اپنے تئیں یہ ’مہذب اقوام‘ دنیا کے مختلف خطوں پر چڑھ دوڑیں۔ یورپی مؤرخین اور سیاستدان غلامی کے ادارے کو جائز قرار دیتے رہے ہیں۔ سائنسی طور پر اس کا جواز گھڑنے کے لیے ان کھوپڑیوں پر سائنسی تحقیق کے نام پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ اقوام یوروپین کے مقابلے میں کم عقل ہیں

نوآبادیاتی دور کی ہزاروں کھوپڑیاں اور ہڈیاں اب بھی جرمن آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے افریقہ میں، ان کی واپسی کے مطالبات زور پکڑ رہے تھے

فیلکس وان لوسچن نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ کچھ غلط کر رہا ہے۔ اس ماہر بشریات نے 1885 میں برلن کے میوزیم آف ایتھنولوجی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، اس نے ایک بہت بڑی ’جمع کرنے کی مہم‘ کے لیے ہری جھنڈی دکھائی: یورپیوں نے مختلف کالونیوں میں ہزاروں کھوپڑیاں اور ہڈیاں اکٹھی کیں اور انہیں برلن بھیج دیا۔ اپنے زمانے کے دوسرے سائنسدانوں کی طرح، لوسچان بھی انہیں ’انسانی ترقی کا مطالعہ‘ کرنے کے نام پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ بہت سے انسانی آثار کئی دہائیوں تک مختلف اسٹور رومز میں جمع کرتے رہے۔

لوسچن کے مجموعوں سے تقریباً 5500 انسانی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اب وہ پرشین کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی ملکیت ہیں ، جو جرمنی میں متعدد عجائب گھر، آرکائیوز اور لائبریریاں چلاتی ہے۔

یورپ کے زیر قبضہ افریقی کالونیوں میں ان انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کو جمع کرنے والے رضامندی طلب کرنے کی زحمت نہیں کرتے تھے۔ کھوپڑیوں کو تدفین کی جگہوں سے نکالا جاتا تھا

سرکاری جمع کرنے والوں کے علاوہ، مشنری اور نوآبادیاتی منتظمین بھی اس میں شامل ہوئے اور مختلف انسانی باقیات کو جرمن تحقیقی اداروں میں بھیج دیا۔ نوآبادیاتی فوجی ایسے مقامی لوگوں کی کھوپڑیاں بھی بھیجتے تھے، جنہیں انہوں نے ہلاک کیا تھا ۔

ان کی افریقی اولادیں ہمیشہ ان کی معقول تدفین کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ ہزاروں کھوپڑیاں اور ہڈیاں آج تک جرمن عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں۔ جرمن عجائب گھروں نے ماضی کی تاریک باقیات کو نظر انداز کر دیا

لیکن پچھلے کچھ سالوں سے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ برلن کے چیریٹ یونیورسٹی ہسپتال نے 2011 اور 2014 کے درمیان ہیرو کی کئی کھوپڑیاں نمیبیا کو واپس کیں۔ دیگر تنظیموں نے بھی انسانی باقیات واپس کر دیں، جو انہوں نے حاصل کی تھیں

پرشین کلچر ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ہرمن پارزنگر کے مطابق ”اس طرح کے مجموعے صرف برلن میں ہی نہیں، بلکہ پیرس اور لندن میں بھی موجود ہیں۔ یہ وہاں بھی کسی نہ کسی مرحلے پر ایک موضوع بننے جا رہا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close