ایرانی صدارتی انتخاب، ابراہیم رئیسی کامیاب

ویب ڈیسک

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات میں قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی کامیاب ہوگئے، انہیں واضح برتری حاصل ہے۔

ایرانی وزارتِ داخلہ کے مطابق اب تک 90 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے، انتخابات میں 28 اعشاریہ 6 ملین افراد نے حقِ رائے دہی استعمال کیا

ایرانی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی نے 17 اعشاریہ 8 ملین ووٹ حاصل کیئے ہیں، جبکہ ان کے حریف محسن رضائی نے 3.3 ملین ووٹ حاصل کیئے

اس کے علاوہ عبدالناصر ہمتی نے 2 اعشاریہ 4 ملین جبکہ امیر حسین غازی زادے نے 1 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کیئے

ایرانی صدر حسن روحانی نے بغیر نام لیئے  متوقع صدر کو جیتنے کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ واضح ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ کس نے حاصل کیئے ہیں

ایران کے واحد اصلاح پسند صدارتی امیدوار عبدالناصر ہمتی نے قدامت پسند امید وار ابراہیم رئیسی کو پیغام میں جیت کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ ان کی حکومت قوم کے لیے سکون اور خوشحالی لائے گی

دیگر دو صدارتی امیدواروں محسن رضائی اور امیر حسین غازی زادے ہاشمی نے بھی ابراہیم رئیسی کو مبارک باد ہوئے کہا ہے کہ ملک کے مسائل کےحل کے لیے ابراہیم رئیسی مضبوط اور مقبول حکومت بنائیں گے

ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی رواں برس اگست میں صدارتی منصب سنبھالیں گے جنہیں امریکا سے جوہری معاہدے جیسے اہم معاملات کا سامنا ہوگا

پچاس فیصد یا اس سے کم ٹرن آؤٹ کے پیش نظر گزشتہ روز شروع ہونے والی ووٹنگ مقررہ وقت سے دو گھنٹے تک توسیع کردی گئی تھی

واضح رہے کہ ایران کی گارجین کونسل نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کو صدارتی انتخاب کی دوڑ سے الگ کردیا تھا

بعدازاں انہوں نے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ میں ووٹ نہیں دوں گا، میں اس گناہ میں حصہ نہیں لینا چاہتا

صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ سے متعلق حتمی اعداد وشمار آنے باقی ہیں تاہم ایرانی میڈیا کے مطابق مجموعی طور پر 6 کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے

ایران میں 12 رکنی گارجین کونسل نے سیکڑوں امیدواروں سمیت اصلاح پسندوں اور حسن روحانی کے ساتھ اتحاد کرنے والوں پر پابندی عائد کردی ہے

اس سے قبل ریاست سے منسلک رائے شماری اور تجزیہ کاروں کے مطابق 60 سالہ قدامت پسند ابراہیم رئیسی کو غیر متنازع امیدوار دیکھ رہے تھے

خیال رہے کہ ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی انقلاب ایران کے بعد اہم عہدوں پر فائر رہے جبکہ محض بیس سال کی عمر میں ہمدان صوبے میں بطور پراسیکیوٹر مقرر ہوئے تھے جس کے بعد انہیں جلد ہی نائب پراسیکیوٹر پر ترقی دے دی گئی۔

ان پر مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے 1988 میں نسل کشی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close