یہ آج کل کی بات نہیں ہے بلکہ سات سال قبل کی بات ہے، جب پاکستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی کے سربراہ نے اس وقت کے ممبران قومی اسمبلی کو ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ موسمی تبدیلی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور ساحلی علاقوں پر غیر منظم تعمیرات کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹہ اور بدین سنہ 2060ع تک سمندر میں ڈوب چکے ہوں گے
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی نے صاف الفاظ میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس کے ممبران کو بتایا تھا کہ بدین اور ٹھٹہ تو 2050ع تک ڈوب چکے ہوں گے، لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر کراچی 2060ع تک ڈوب جائے گا
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ موسمی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان تینوں شہروں کو سمندر کی سطح میں اضافے کے باعث براہ راست خطرہ ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ لیے گئے تو ان تینوں شہروں کو بچانا مشکل ہے۔ بدین اور ٹھٹہ میں بائیس لاکھ ایکڑ زمین زیر آب آ چکی ہے
بلوچستان حکومت کے نمائندے نے بھی قائمہ کمیٹی کو مطلع کیا کہ گذشتہ پینتیس سالوں میں بلوچستان کا دو کلومیٹر کا ساحلی علاقہ سمندر میں ڈوب چکا ہے
دوسری جانب ورلڈ بینک کے مطابق کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندر کی سطح میں اضافہ دو طرح سے ہو رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف اور گلیشیئر زیادہ پگھل رہے ہیں جس سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندر کا پانی پھیل رہا ہے
عالمی سطح پر سمندر کی سطح میں سنہ 1880ع سے لے کر 2015ع تک 210 ملی میٹر سے 240 ملی میٹر اضافہ ہوا ہے۔ اور اس اضافے میں سے ایک تہائی اضافہ گذشتہ دو دہائیوں میں ہوا ہے۔ سمندر کی سطح میں موجودہ اضافہ تین ملی میٹر سالانہ ہے
لیکن سمندر کی سطح بڑھنے کی رفتار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ موسمی تبدیلی کس رفتار سے ہوتی ہے اور اگر موسمی تبدیلی میں تیزی آئی تو اسی رفتار سے گلیشیئر پگھلنے کا عمل ہوگا اور سمندری سطح میں تیزی سے اضافہ ہوگا
ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیم آئی یو سی این، وزارت برائے موسمی تبدیلی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ایمرجنسی فورس کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ساحلی کٹاؤ کی بڑی وجہ ترقیاتی کاموں کی بدانتظامی ہے، جس کے باعث بلوچستان اور سندھ میں ساحلی کٹاؤ ہو رہا ہے اور اس کے باعث یہ علاقے طوفانوں سے متاثر ہو سکتے ہیں اور بحیرہ عرب میں بننے والے سائیکلونز سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر سمندر کی سطح بڑھنے کی رفتار اگلے پچاس سالوں تک یہی رہی تو سمندر کی سطح پچاس ملی میٹر مزید بڑھ جائے گی اور اس کے باعث سمندر بڑے پیمانے پر زمین کو اپنے اندر سما لے گا
دنیا بھر میں سمندر پر شہر بسنے میں تیزی آئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سمندر پر تعمیراتی کام ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ اور دنیا بھر میں بہت سے شہر سمندر سے زمین لے کر آباد کیے جا رہے ہیں۔ دبئی میں پام جمیرا دیکھ لیں تو کراچی کے ساحل پر تعمیراتی کام دیکھ لیں
سنگاپور نے گذشتہ پچاس سالوں میں سمندر میں تعمیرات کر کے اپنے زمینی رقبے میں بائیس فیصد اضافہ کیا ہے
لیکن کیا سمندر کی سطح بلند ہونے کے ساتھ اس قسم کی تعمیرات دانشمندانہ ہیں؟ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کے علاقے پر تعمیرات اتنی مضبوط نہیں ہیں، جتنی کہ زمین پر کی گئی تعمیرات۔ سمندر میں تعمیرات ایسے علاقوں میں اور زیادہ خطرناک ہیں، جو زلزلے کی بیلٹ میں آتے ہیں
زلزلے کے باعث اسٹرکچر کے ہلنے سے لیکوئی فیکشن کا عمل ہوتا ہے یعنی وہ عمل جس سے ٹھوس تلچھٹ مائع میں تبدیل ہو جاتا ہے
اب دبئی ہی کو دیکھ لیجیے۔ بیس سال قبل شروع کیے گئے تین پراکیکٹس پام آئی لینڈز، دا ورلڈ اور دا یونیورس اب تک مکمل نہیں ہوئے لیکن مکمل ہونے تو دور کی بات رپورٹس کے مطابق سمندر اپنا علاقہ واپس لے رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق دا ورلڈ دوبارہ ڈوب رہا ہے
انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے لی گئی تصویر نے یہ شواہد مہیا کیے کہ خلیج فارس میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور سمندر میں بنائے گئے یہ جزیرے ڈوب رہے ہیں۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مطابق پام جمیرا پانچ ملی میٹر سالانہ کے حساب سے ڈوب رہا ہے
یہ مسئلہ صرف دبئی ہی کا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ ایک جامع تحقیق ایک بار پھر کرائی جائے، جس میں بحیرہ عرب کی سطح بلند ہونے کے حوالے سے معلوم کیا جائے اور اس کے مدنظر اقدامات کیے جائیں۔
بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو