محکمہ ریلوے میں ‘غیرمصدقہ ملازمین’ کو 35 ارب روپے پینشن دینے کا انکشاف

ویب ڈیسک

منصوبہ بندی کمیشن کے تحت کام کرنے والے سرکاری تھنک ٹینک پاکستان انسٹی مٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے ایک لاکھ پندرہ ہزار غیر تصدیق شدہ ریٹائرڈ ملازمین کو سالانہ پینشن کی مد میں پینتیس ارب روپے ادا کیے جا رہے ہیں

گزشتہ روز جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں پی آئی ڈی ای نے بتایا کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2015ع سے 2020ع تک کے پانچ سال کے دوران وزارت ریلوے کو 144 ارب روپے کا بڑا مالی نقصان ہوا

پی آئی ڈی ای کی رپورٹ میں پاکستان ریلویز میں بنیادی ادارہ جاتی اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ وزارت ریلوے پاکستان میں سب سے زیادہ خسارے میں چلنے والے دس سرکاری اداروں میں شامل ہے

وزارت ریلوے کے نقصانات میں 2020 میں رپورٹ کردہ 44 ارب روپے کا خسارہ بھی شامل ہے جس میں ایک لاکھ بارہ ہزار ملازمین کے لیے ریلوے پر چھتیس ارب روپے کی پینشن کے واجبات بھی شامل ہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلویز میں خسارے اور پینشن کے بوجھ پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے اس سال کے دوران پینتالیس ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی گئی ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روڈ ٹرانسپورٹ سے سخت کاروباری مقابلے اور مسافروں کی ضروریات،سہولیات، ترجیحات پر مبنی کاروبار کو اپنانے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان ریلویز کو پینتیس سال سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سڑک کے ذریعے کیے جانے والے نقل و حمل کے کاروبار کے ساتھ سخت مقابلے اور پاکستان ریلویز کے پیچیدہ بیوروکریٹک اسٹرکچر کی وجہ سے مسافروں کو متوجہ کرنے والا کاروباری منصوبہ اپنانے میں ناکامی نے نا اہل، غیر نفع بخش اور ضرورت سے زیادہ ملازمین کے حامل ادارے کو پچھلی ساڑھے تین دہائیوں سے خسارے میں ڈال دیا ہے

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان تمام عوامل کے علاوہ، پاکستان ریلویز میں ایک لاکھ پندرہ ہزار غیر تصدیق شدہ ریٹائرڈ ملازمین ہیں جنہیں سالانہ بنیادوں پر پینتیس ارب روپے دیے جا رہے ہیں

رپورٹ میں ایسے افراد کی تصدیق کے لیے پنشنرز بائیو میٹرک تصدیقی سسٹم کی تجویز دی گئی ہے

حکومت پاکستان کی جانب سے پے اینڈ پنشن کمیشن بنایا گیا ہے جسے صرف ریلوے ہی نہیں دیگر سرکاری اداروں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا

پاکستان ریلوے کے پاس ایک لاکھ 78 ہزار ایکڑ زمین ہے جس میں سے ایک لاکھ 45 ہزار ایکٹر زمین آپریشنل مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور باقی 33 ہزار ایکٹر زمین پاکستان ریلوے کو ‘رائیٹ آف وے’ کے تحت حاصل ہے

جہاں تک وزارت ریلویز کی زمین کے کرایوں کا تعلق ہے تو یہ کرایہ بہت کم مقرر کیا جاتا ہے اور اس طے شدہ کرایے میں سے بھی بہت کم وصول کیا جاتا ہے

رپورٹ میں زمین کے استعال سے متعلق دو راستے بتائے گئے ہیں، ایک راستہ یہ ہے کہ کم کرایے پر کیے گئے معاہدوں کو از سر نو کیا جائے اور تجاوزات سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے ریلوے اسٹیشنوں کو دہلی میٹرو کی طرز پر تجارتی مراکز جیسے شاپنگ پلازے، کیفے اور ہوٹلز میں تبدیل کرکے سالانہ تقریباً پانچ سے دس ارب روپے کمائے جا سکتے ہیں

رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹکٹنگ کا آدھا حصہ الیکٹرانک ہے لیکن پاکستان ریلوے کے پاس اب بھی انٹرپرائز ریسورس پلاننگ (ای آر پی) سسٹم موجود نہیں ہے جو بکنگ کے تمام عمل کو باہم مربوط کرتا ہے

اس رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ (سی آر ایم) سسٹم بنایا جائے جس میں ٹرینوں کی ٹریکنگ کے انتظامات کے ساتھ کال سینٹرز، ایس ایم ایس الرٹس وغیرہ جیسی سہولیات فراہم کی جائیں

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریلوے آٹومیٹڈ بکنگ اینڈ ٹریول اسسٹنس (رابٹا) کی تشہیر کی گئی تھی اور آٹومیشن سے اس خلا اور خامی کو دور کیے جانے کی امید تھی جو 2020-21 میں پاکستان ریلویز کے مال برداری کے حجم میں کمی کی بڑی وجہ ہے

رپورٹ میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ عوام کس طرح سوچتے ہیں اور اس کے مطابق انسانی وسائل کو زیادہ پیداواری بنانے کا فیصلہ کیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close