ہوٹل پر ’چائے بناتے بناتے‘ ایم فل کرنے والے دو بھائیوں کی کہانی

ویب ڈیسک

طاہر عالم اور وحید عالم دو بھائی ہیں۔ ان کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع شانگلہ سے ہے۔ ان کے والدین نے بہتر مستقبل کی تلاش میں شانگلہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکل کر لاہور کی طرف ہجرت کی

طاہر اور وحید کے چھ بھائی اور چھ بہنیں ہیں اور وہ سب کسی نہ کسی شعبے میں اپنا لوہا منوانے کی تگ و دو کر رہے ہیں، لیکن طاہر عالم اور وحید عالم اپنے بھائیوں میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں

طاہر عالم نے میٹرک اور انٹر تک تعلیم پرائیوٹ حاصل کی

انہوں نے 2015ع میں وفاق المدارس سے ایم اے عربی اور اسلامیات کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے اسلامی افکار اور تہذیب میں ایم فل تک تعلیم حاصل کی

اسی طرح ان کے بھائی وحید عالم نے بھی میٹرک اور انٹر کی تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی جبکہ مذہبی درس گاہ جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن لاہور سے ایم اے کیا اور بعد میں اپنے بھائی طاہر عالم کے ساتھ ایم فل ڈگری کا حصول ممکن بنایا

لیکن ان کی کامیابیوں کی داستان اتنی سادہ نہیں ہے

ان کے والدین شانگلہ سے روزگار کی خاطر پنجاب کے بڑے شہر لاہور تو آگئے لیکن اپنے کمزور معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مناسب وسائل فراہم کرنے سے قاصر تھے

لیکن ان بھائیوں نے ہار نہیں مان کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نچلا بیٹھنا گوارا نہ کیا، بلکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے خوانچہ فروشی شروع کی اور لاہور کی گلیوں میں سر پر خوانچے اٹھا کر بسکٹ اور کیک بیچتے رہے

یہ سال 2009ع بات ہے، جب اس مشترکہ خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے چائے کا ایک ڈھابہ چلانے والے ان کے تایا کا انتقال ہوا، تو ان بھائیوں کو وہاں کام کرنا پڑ گیا

اب ان کے ذمے نہ صرف اپنے تعلیمی اخراجات تھے، بلکہ انہیں پورے خاندان کی کفالت بھی کرنا تھی

طاہر عالم بتاتے ہیں ”ایم فل کے دوران وہ ہوٹل پر کام کرتے رہے اور ہوٹل سے فارغ ہو کر یونیورسٹی پڑھنے کے لیے جاتے تھے۔“

وہ کہتے ہیں ”تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ ڈیوٹی کے اوقات کار اور پڑھائی کے لیے جانا خاصا مشکل تھا۔ تین دن مسلسل جاگتے رہنا پڑتا تھا لیکن ہم نے حوصلہ نہیں ہارا اور ایم فل کی ڈگری کا حصول زندگی کا مقصد بنایا اور بالآخر کامیابی حاصل کی“

طاہر عالم کا کہنا ہے ”دوران تعلیم ایک آزمائش ایسی آئی کہ ان کے ہوٹل کے قریب ایک سڑک پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا، جس کی وجہ سے ہوٹل کئی ماہ بند رہا۔ اسی دوران کورونا وبا نے بھی ان کا کام مزید کئی مہینوں کے لیے متاثر کیا“

اس دوران طاہر کے ذہن میں خیالات آتے رہے کہ ڈگری چھوڑ دینی چاہیے لیکن دل نے یہ گوارا نہ کیا۔۔۔ بالآخر انہوں نے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا

انہوں نے اس مشکل وقت کو بھی سیکھنے کا ذریعہ بنایا۔ وہ بتاتے ہیں ”ہوٹل میں تعلیمی حوالوں سے متوسط یا اس سے کم درجے کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا، جبکہ یونیورسٹی میں ایک تعلیمی ماحول بنا تھا۔ ہم دونوں جگہوں پر سیکھنے کی کوشش کرتے“

ایم فل کر لینے کے بعد طاہر عالم اب ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں

وہ کہتے ہیں ”میں کوشش کر رہا ہوں کہ پی ایچ ڈی کے لیے کوئی اسکالرشپ مل جائے، لیکن یہ ملے یا نہ ملے، میں پی ایچ ڈی ہر حال میں مکمل کروں گا“

ان کا کہنا ہے ”یہی ہوٹل اور چائے ماضی میں بھی مددگار ثابت ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی انہی سے مدد لوں گا“

وحید عالم بھی اپنے بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے چلتے ایم فل تک تعلیم مکمل کر چکے ہیں

وحید اپنی زندگی کو ’جہدِ مسلسل‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم کے رستے میں آنے والی تمام مشکلات کو خود کو تحریک دلانے کا ذریعہ سمجھا اور یوں ہوٹل کے کام کے ساتھ ساتھ ایک مقامی بیکری میں بھی کام کیا تاکہ تعلیمی اخراجات پورے ہو سکیں

وہ بھی کام کے ساتھ پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تحقیق کر کے مقالات شائع کیے جائیں

وحید عالم کہتے ہیں ”ہم چائے بناتے بناتے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر لیں گے۔ یہ تمام مشکلات روئی کے پہاڑ جیسی ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close