پاکستان فٹبال: کیا کبھی بہتر دن بھی آئیں گے؟

ویب ڈیسک

30 جون کو پاکستان فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی فیڈریشن انٹرنیشنل ڈے فٹبال ایسوسی ایشن (فیفا) کا دوبارہ حصہ بن گیا ہے۔ ویسے تو پاکستان پر پندرہ ماہ قبل پابندی عائد کی گئی تھی لیکن یہ عرصہ پہلے ہی جاں بلب پاکستان فٹبال کے لیے بہت بھاری ثابت ہوا

پاکستان فٹبال ایک طویل عرصے سے مشکلات سے دوچار ہے اور یہ پندرہ مہینے تو اس حوالے سے بدترین تھے۔ یہاں اکثر کھلاڑی اور کوچز ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے ساتھ وابستہ تھے جنہوں نے حکومتی احکامات پر ٹیموں کو ختم کر دیا، جس کے باعث کئی کھلاڑیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا

حال ہی میں پاکستان کے مڈ فیلڈر صدام حسین کو ایک ٹی وی شو میں روتے ہوئے دیکھنا دل دہلا دینے والا منظر تھا اور یہ شاید ہمارے فٹبالروں کی بے بسی اور بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے

ان حالات میں فیفا کی جانب سے پاکستان پر سے پابندی کا اٹھایا جانا اس کھیل سے وابستہ ہر ایک کے لیے ایک امید افزا بات ہے۔ حتیٰ کہ فٹبال کے ایک پُرجوش پاکستانی شائق نے تو اسے فٹبال کو پسند کرنے والوں کے لیے عید قرار دیا

اس کا تمام تر کریڈٹ فیفا کی بنائی ہوئی نارملائزیشن کمیٹی کے صبر اور استقامت کو دینا چاہیے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک تھے جنہوں نے گزشتہ مارچ میں پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) ہاؤس پر اشفاق شاہ اور ان کے گروہ کی جانب سے عملی قبضے کا بھی سامنا کیا تھا۔ ہارون ملک کی مسلسل کوششوں اور سابق وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا کی مدد سے بالآخر پاکستان کی رکنیت بحال ہوئی

لیکن ایسا نہیں کہ پاکستان فٹبال کے لیے مشکلات کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ لاہور میں قائم پی ایف ایف ہاؤس کی حالت ناقابلِ یقین ہے۔ جو حالت پاکستان میں فٹبال جیسے کھیل کی ہوئی تقریباً وہی حالت پی ایف ایف ہاؤس کی بھی ہے اور اسے توڑ پھوڑ دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی ذہنی حالت پر حیرت ہوتی ہے جو ایک ایسی عمارت کے لائٹ بلب اور الیکٹریکل بورڈ بھی ساتھ لے گئے، جو پورے ملک کی فٹبال انتظامیہ کی نمائندگی کرتی ہے!

ظاہر ہے کہ اب پہلا کام تو پی ایف ایف ہاؤس کی حالت کو درست کرنا اور مالی مشکلات کو حل کرنا ہوگا کیونکہ پی ایف ایف کے بینک کھاتوں پر نارملائزیشن کمیٹی اور اشفاق شاہ گروپ کے درمیان قانونی لڑائی چل رہی ہے۔ پاکستان کی رکنیت بحال ہونے کے بعد ممکن ہے کہ قانونی کارروائی جاری رہنے کے باوجود بھی فیفا پاکستان کو فنڈنگ تک رسائی دے سکے گی تاکہ معاملات کو چلایا جاسکے

انتظامی امور سے قطع نظر اس وقت شائقین پاکستان کی قومی ٹیم کو میدان میں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کھلاڑیوں نے گزشتہ برسوں میں جس نقصان کا سامنا کیا ہے وہ اب ختم ہو۔ کئی نوجث کھلاڑی جو گزشتہ برسوں کے دوران قومی ٹیم میں اپنا نام بنا چکے تھے ان کا کیریئر یا تو ختم ہوچکا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس وجہ سے ٹیم کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے نئے کھلاڑیوں کے حوالے سے ایک نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے

آپ ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتے لیکن اب ہمارے پاس چیزوں کو درست کرنے اور فٹبال کا مستقبل بنانے کا موقع ضرور موجود ہے۔ رواں سال ایسے بہت سے مقابلے ہو رہے ہیں جن میں ہمارے کھلاڑی حصہ لے سکتے ہیں

پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتخابات کروانے کا بھی معاملہ ہے، جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ معاملے کو خراب کرنے والے لوگ تو فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن موجودہ قوانین اور ان کی حدود آزاد اور شفاف انتخابات میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں

ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ ایک اچھا موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ ہم پاکستان پریمیئر لیگ کے معیارات کو تبدیل کریں۔ یہ معیارات بعض اوقات بہت ہی عجیب و غریب اور شرمناک ہوتے ہیں۔ نجی ملکیت کے ساتھ لیگ کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے اور اسے ایک ایسی پروڈکٹ کے طور پر تیار کرنا چاہیے جسے شائقین دیکھیں بھی اور اس سے کوئی تعلق بھی محسوس کریں۔ یہی وہ مرکزی خیال ہے جو پاکستان فٹبال کو آگے لے کر جائے گا

یہ لیگ اور اس کے ساتھ کا تمام ایکو سسٹم ایک اعلیٰ معیار کی لیگ، نوجوانوں کے مقابلے اور کوچز کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ ان تمام چیزوں کے لیے ایک فعال پی ایف ایف درکار ہوگی اور یہیں نارملائزیشن کمیٹی کا کام شروع ہوتا ہے۔ اس کے لیے حقیقتاً بالکل بنیاد سے تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا اور اس میں کام کرنے کے لیے سفارش کے بغیر باصلاحیت اور پروفیشنل لوگوں کو لانا ہوگا

اس بات پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ اہم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے مواقع ضائع نہ کیے جائیں

پاکستان فٹبال ٹیم کا مقصد فیفا ورلڈکپ کوالیفائرز رہے ہیں جو ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ جون 2019ء میں کمبوڈیا میں پاکستان کے باہر ہونے کے بعد اشفاق شاہ گروپ اور پی ایف ایف کے صدر فیصل صالح حیات کے درمیان جاری چپقلش کی وجہ سے فٹبال کا کھیل اور اس میں جیت حاصل کرنا کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہا

اب اگلے سال ورلڈ کپ کوالیفائرز دوبارہ منعقد ہو رہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ صورتحال میں یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن اس حوالے سے کچھ ابتدائی اقدامات کر لیے گئے ہیں اور ان کوالیفائرز میں پاکستان کی شرکت ممکن نظر آتی ہے۔

فٹبال کے کھیل میں پاکستان کو بہت زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئی ہیں۔ 2015ء میں جب پی ایف ایف میں یہ سیاست شروع ہوئی تھی تب ہی بین الاقوامی اسٹیج پر پاکستان کی نمائندگی کے لیے کی جانے والی کوششیں بے کار ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد سے پاکستان فٹبال پستی کی گہرائیوں میں ہے

لیکن اگر اقربا پروری، سفارش، بیرونی مداخلت، پرچی اور کلاس کلچر کو ختم کر کے خالص میرٹ پر فیصلے کیے جائیں، تو ملک میں موجود فٹبال کا ٹیلنٹ وہ دن ضرور لا سکتا ہے کہ صرف پاکستان میں تیار کیے گئے فٹبال ہی نہیں بلکہ پاکستانی فٹبالر بھی بین الاقوامی مقابلوں میں میدان میں دکھائی دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close