عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منکی پاکس کے پھیلاؤ کو گلوبل ہلیتھ ایمرجنسی قرار دے دیا ہے، جس کی وجہ دنیا میں اس نایاب وائرل انفیکشن کے بڑھتے ہوئے کیسز بتائے جا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اس وائرس پر ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسی کمیٹی کے دوسرے اجلاس کے بعد لیا گیا
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبرائسس نے ہفتے کو کہا ہے کہ منکی پاکس بہت بڑا خطرہ ہے
انہوں نے کہا ہے کہ اب تک منکی پوکس کے 16000 سے زیادہ کیسز 75 ممالک سے رپورٹ ہو چکے ہیں، اس بیماری کی وجہ سے اب تک پانچ اموات بھی ہو چکی ہیں
انہوں نے کہا ”منکی پوکس کے بین الاقوامی پھیلاؤ کا بھی خدشہ موجود ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ منکی پاکس کا پھیلاؤ عالمی توجہ کا مستحق پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ بن چکا ہے“
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگرچہ منکی پاکس وسطی اور مغربی افریقہ کے کچھ حصوں میں کئی دہائیوں سے موجود ہے لیکن اس کے براعظم افریقہ سے باہر بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک علم نہیں تھا
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے گلوبل ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا مطلب ہے کہ منکی پاکس کی وبا ایک ’غیر معمولی واقعہ‘ ہے، جو مزید ممالک میں پھیل سکتی ہے اور اس کے لیے مربوط عالمی ردعمل کی ضرورت ہے
ڈبلیو ایچ او نے اس سے قبل وبائی امراض جیسے کورونا، 2014 میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا، 2016 میں لاطینی امریکہ میں زیکا وائرس اور پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے لیے ہنگامی حالات کا اعلان کیا تھا
ہنگامی صورتحال کا اعلان زیادہ تر عالمی وسائل اور وبا کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے ہوتا ہے
گزشتہ ماہ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی کمیٹی نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں منکی پاکس کا پھیلاؤ ابھی تک بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورتحال جیسا نہیں ہے لیکن صورتحال کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے پینل نے اس ہفتے دوبارہ اجلاس طلب کیا
امریکی محکمہ صحت کے مطابق مئی سے اب تک 74 ممالک میں منکی پاکس کے 16 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس مرض سے ہونے والی اموات صرف افریقہ میں رپورٹ ہوئی ہیں، جہاں اس وائرس کی زیادہ خطرناک قسم پھیل رہی ہے
افریقہ میں منکی پاکس بنیادی طور پر متاثرہ جنگلی جانوروں جیسے چوہوں سے لوگوں میں پھیلتا ہے لیکن یہ وائرس عام طور پر سرحدوں کو عبور نہیں کرتا
ڈبلیو ایچ او کے منکی پاکس کے ماہر ڈاکٹر روزامنڈ لیوس نے رواں ہفتے کہا تھا کہ افریقہ سے باہر منکی پاکس کے 99 فیصد کیسز مردوں میں تھے
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ایک سینئر ریسرچ فیلو مائیکل ہیڈ نے کہا ”یہ حیرت کی بات ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے پہلے ہی منکی پاکس کو عالمی ایمرجنسی کیوں قرار نہیں دیا حالانکہ یہ حالات کئی ہفتے پہلے ہی پیدا ہو گئے تھے“
واضح رہے کہ مئی میں پاکستان میں بھی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے ہدایت دی تھی کہ صحت عامہ سے منسلک تمام قومی و صوبائی حکام منکی پوکس کے مشتبہ متاثرین کی جانچ کے لیے ہائی الرٹ پر رہیں جبکہ ایئرپورٹس سمیت داخلی راستوں پر مسافروں کی نگرانی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا
اس جاری کردہ الرٹ کے مطابق حفاظتی اقدامات کے لیے وقت پر تشخیص اہم ہے، لہٰذا تمام سرکاری و نجی ہسپتال متاثرین کے علاج اور آئسولیشن (مریض کو تنہائی میں رکھنے) کے انتظامات کریں۔ این آئی ایچ نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ فی الحال پاکستان میں منکی پوکس کا کوئی مصدقہ کیس موجود نہیں
منکی پوکس سب سے پہلے وسطی افریقہ میں 1950ع میں دریافت ہوا تھا۔ برطانیہ میں اب تک اس وائرس کے دو ہزار سے زیادہ مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں
منکی پوکس کی علامات
یہ وائرل بیماری ہے جو قریبی تعلق سے پھیلتی ہے، اس کی علامات نزلے کی طرح ہیں، یہ جلد پر پیپ سے بھرے زخموں کا سبب بنتی ہے، منکی پاکس کی حالیہ وبا مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والے مردوں میں خاص طور پر پھیلی ہے
ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر میں درد، پٹھوں میں درد اور عام طور کسی بھی چیز کا دل نہ چاہنا شامل ہیں
ایک بار جب بخار جاتا رہتا ہے تو جسم پر دانے آ سکتے ہیں جو اکثر چہرے پر شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں
دانے انتہائی خارش یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ دانے میں بدلنے سے قبل یہ مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بعد میں یہ دانے سوکھ کر گر جاتے ہیں لیکن بعد میں زخموں سے داغ پڑ سکتے ہیں
انفیکشن عام طور پر خود ہی ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دنوں کے درمیان رہتا ہے.