جسم میں سب سے بلند اور مقامِ فکر و نظر کا درجہ ’سر‘ کو حاصل ہے۔ سر ہی وہ جُزِ بدن ہے جس سے آنکھ، کان، ناک اور زبان منسلک ہیں، اسی امتیاز کے سبب ’سر‘ میں سُننے، سونگھنے، چکھنے، دیکھنے اور چُھونے جیسے کل حواس خمسہ یکجا موجود ہیں، جب کہ باقی جسم محض چُھوا جانا ہی محسوس کرتا ہے
عربی میں سر کو ’راس‘ کہتے ہیں، اور ‘راس’ ہی کی رعایت سے ادارے کے سربراہ سے لے کر حکمران وقت تک ’رئیس‘ کہلاتا ہے
سنسکرت میں ’سَر‘ کو ’شِر / शिर‘ کہتے ہیں، اور یہی ’شِر‘ ہندی اور پنجابی میں ’سِر‘ ہے، جب کہ یہی ’شِر‘ لفظ ’سِری‘ اور ’شری‘ کی بھی اصل ہے۔ ہندی میں مالک و آقا اور مختار و محترم کو ’شِر‘ ہی کی رعایت سے ’شری مان / श्री मान‘ کہا جاتا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنسکرت کا ’شِر‘ اگر ہندی اور پنجابی میں ’س‘ کے زیر کے ساتھ ’سِر‘ ہے، تو فارسی اور اردو میں ’س‘ کے زبر کے ساتھ ’سَر‘ ہے۔ اسی ’سَر‘ کی رعایت سے ترکیب سردار اور سربراہ ہے، جب کہ معزز، ممتاز اور افسر وغیرہ کو ’سربرآوردہ‘ کہا جاتا ہے
اب ایک نظر انگریزی زبان کو بھی دیکھ لیں جس میں ‘سر’ کو ‘ہیڈ / Head’ کہتے ہیں، اور اسی نسبت سے محترم، صاحب و جناب کو ’Sir‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ ’ہیڈ‘ کی نسبت سے ’ہیڈ ماسٹر‘ اور ’ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ‘ تو سامنے کی بات ہے
اب تک کی بحث جسم کے اہم جُز ’سر‘ کی رعایت سے تھی کہ کس طرح ’سر‘ کی اہمیت کے پیش نظر مختلف زبانوں میں صاحب اختیار و اقتدار کو رئیس، شری، سردار، Sir اور Head وغیرہ کہا جاتا ہے، اب مکمل جسم کا احوال ملاحظہ کریں
انگریزی میں ’مقامی انتظامیہ‘ کو ’لوکل باڈی / Local body‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں ’باڈی‘ وہی ہے، جس کا ترجمہ ’جسم و بدن‘ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی انتظامی طریقہ کار کو ’باڈی‘ کہنے کی وجہ یہی ہے کہ اُس کا ایک سربراہ یا ہیڈ ہوتا ہے اور باقی افراد یا ادارے دست و بازو کی طرح اس انتظامی سربراہ کے ماتحت کام کرتے ہیں
جس طرح ’سر‘ کی نسبت سے ’سربراہ‘ کا تصور انسانی تمدن کی مشترکہ میراث ہے، ایسے ہی کسی بھی انتظامی ڈھانچے کو ’جسم‘ سے تعبیر کرنے کی مشترک روایت بھی موجود ہے
اپنی اس بات کے اثبات میں عرب و ایران سے مثال پیش کرنے کے بجائے گھر کی بات کریں گے، جہاں آریاؤں نے منظم معاشرت کا ایسا مضبوط تصور پیش کیا جو آج ہزاروں سال بعد بھی اپنی ابتدائی شکل میں موجود ہے
آریاؤں کے اس کارنامے کو مشاہدہ کرنا ہو تو سرزمین ہند کے طول و عرض میں پھیلے چھوٹے بڑے دیہاتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آریاؤں نے اگر چند گھروندوں اور گھرانہ پر مشتمل آبادی بھی تشکیل دی تو اس میں پنچایتی نظام متعارف کروایا، جس کا سربراہ ’سرپنچ‘ کہلایا
پھر اس آبادی کے باشندوں کو لوہار، کمہار، کہار، پنہار، سُنار اور کاشتکار وغیرہ کے سے مختلف پیشوں سے تقسیم کر دیا، بدقسمتی سے صدیوں کے عمل نے ان مختلف پیشوں کو ذاتوں میں بدل دیا۔ بہرحال اس نظام میں ہر خاندان کا کام طے شدہ تھا، یوں یہ نظام مثلِ جسم کام کرتا تھا
یہاں تک پہنچ کر اب آپ کو چند لفظوں پر غور کرنا ہوگا، اور یہ الفاظ ’پُور، پنڈ اور دیہہ‘ ہیں۔
یوں تو یہ تینوں الفاظ ’آبادی‘ کا پتا دیتے ہیں، تاہم ’پنڈ اور دیہہ‘ کے مقابلے میں جو پذیرائی ’پُور‘ کے حصے میں آئی اس کا مشاہدہ مشرق بعید میں سنگاپور سے ایران کے نیشاپور تک بے شمار دیہاتوں اور شہروں کے ناموں میں کیا جاسکتا ہے
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ پنجابی میں گاؤں کو ’پنڈ‘ اور فارسی میں ’دیہہ‘ کہتے ہیں۔ پھر ’پنڈ’ کی نسبت سے اگر ‘پینڈو’ ہے تو دیہہ سے بنے لفغ ’دیہات‘ کے تعلق سے ‘دیہاتی’ ہے
’پُور، پنڈ اور دیہہ‘ تینوں الفاظ سنسکرت سے متعلق ہیں اور تینوں الفاظ ’جسم‘ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ آبادیوں کا نظام مثل جسم ترتیب دیا گیا تھا اس لیے سنسکرت ہی میں ’پور‘ شہر و دیہات کے معنی بھی دیتا ہے
جہاں تک ’پنڈ‘ کی بات ہے تو پنجابی میں آج بھی ’جسم‘ کو ’پنڈا’ کہتے ہیں اور یہی ’پنڈا‘ درحقیقت ’پنڈ‘ کی اصل ہے۔ پھر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی ہی میں گٹھڑی کو بھی ’پنڈ‘ کہا جاتا ہے۔
چونکہ گٹھڑی میں باندھ کر رکھنے کا تصور پایا ہے، ایسے میں ایک منظم آبادی کو جس میں لوگ ایک دوسرے سے جُڑے ہوں، ’پنڈ‘ سے نسبت اچنبھے کی بات نہیں ہے
جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ فارسی میں گاؤں کے معنی میں استعمال ہونے والے ’دیہہ‘ کی اصل بھی سنسکرت سے متعلق ہے اور سنسکرت میں یہ ’دیہہ‘ جسم کے معنی دیتا ہے
حیران کن بات یہ ہے کہ جسم کے معنی میں لفظ ’دیہہ‘ پنجابی زبان میں آج بھی مستعمل ہے۔ اس بات کے اثبات میں پنجابی زبان کے مشہور صوفی بزرگ و شاعر بابا فرید کا کلام ملاحظہ کریں جو کہہ گئے ہیں:
’بڈا ہو یا شیخ فرید تے کنبن لگی دیہہ‘
یعنی شیخ فرید بوڑھا ہوگیا اور رعشہ کے سبب سے اس کا جسم (دیہہ) کانپنے لگا ہے۔
بشکریہ: اردو نیوز